اصغر گونڈوی یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے ۔اصغر گونڈوی

راہب

محفلین
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرہ شبنم میں ہنگامہ طوفاں ہے
اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدہ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا ، اپنا ہی گریباں ہے
اک شورش بے حاصل ، اک آتش بے پروا
آفتکدہ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے
دھوکا ہے یہ نظروں کا، بازیچہ ہے لذت کا
جو کنج قفس میں تھا، وہ اصل گلستاں ہے
اک غنچہ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موج زنی خوں کی، رنگینی پیکاں ہے
یہ حسن کی موجیں ہیں یا جوش تبسم ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے
اصغر سے ملے لیکن اصضر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ راہب- اصغر گونڈوی کی بہت خوبصورت غزل پوسٹ کی ہے - امید ہے مزید بھی ان کا کلام عنائت فرمائیں گے -
 

ابوشامل

محفلین
اے پیکر محبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدہ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا ، اپنا ہی گریباں ہے
سبحان اللہ۔ راہب آپ بہت اعلٰی انتخاب پیش کر رہے ہیں۔
 

باباجی

محفلین
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے، ذّرے میں بیاباں ہے
ہے عشق، کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بداماں ہے
ہے عشق، کہ شورشِ سے رعنائی و زیبائی
جو خون اُچھلتا ہے وہ رنگِ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ذومہر درخشاں کی
پھر قطرہِ شبنم میں ہنگامہءِ طوفاں ہے
اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تُجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدہِ حیراں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کُھلی دیکھا، اپنا ہی گریباں ہے
اک شورش بے حاصل، اک آتشِ بے پردہ
آفت کدہِ دل میں اب کُفر ہے نہ ایماں ہے
دھوکا ہے یہ نظروں کا،یہ بازیچہ ہے لّذت کا
جو غنچہ قفس میں تھا، وہ اصل گلستاں ہے
اک غنچہ افسردہ، یہ دل کی حقیقت تھی
یہ موجزنی خوں کی، رنگینیءِ پیکاں ہے
یہ حُسن کی موجیں ہیں یا جوشِ تمنا ہے
اُس شوخ کے ہونٹوں پرایک برق سی لرزاں ہے
"اصغر" سے ملے لیکن "اصغر" کو نہیں دیکھا
اشعار میں سُنتے ہیں ، کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
(اصغر گونڈوی)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
ہے عشق، کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بہ غریباں ہے، فردوس بداماں ہے
یہاں کچھ ٹائپو ہے شاید ۔۔۔۔۔۔۔؟
 
اسی رنگ میں جگر (جوشائد اصغر کے مرید تھے )، کا شعر ہے۔۔۔۔
کیا حسن نے دیکھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی، ٹھوکر میں زمانہ ہے
 

شیزان

لائبریرین
دھوکا ہے یہ نظروں کا،یہ بازیچہ ہے لّذت کا
جو غنچہ قفس میں تھا، وہ اصل گلستاں ہے
بہت عمدہ جی
 

الشفاء

لائبریرین
واہ۔ بہت خوب شیئرنگ۔۔۔
اے پیکرِ محبوبی میں کس سے تُجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدہِ حیراں ہے
یہاں شائد " کیسے" ہے۔۔۔۔
 

زبیر مرزا

محفلین
واہ جناب بہت لاجواب کلام
ویسے میں ایک دھاگہ شروع کرنے کا سوچ رہا ہوں جس میں ایک مہمان محفلین کو بُلایا جائے
اوراس سے 10 پسندیدہ اشعار، 5 پسندیدہ غزلیں، 3 پسندیدہ نظمیں شئیر کرنے اور اس کی وجہ
بتانے کی درخواست کی جائے- کیا خیال ہے؟ محمود بھائی - نایاب - باباجی - التباس
 

باباجی

محفلین
واہ جناب بہت لاجواب کلام
ویسے میں ایک دھاگہ شروع کرنے کا سوچ رہا ہوں جس میں ایک مہمان محفلین کو بُلایا جائے
اوراس سے 10 پسندیدہ اشعار، 5 پسندیدہ غزلیں، 3 پسندیدہ نظمیں شئیر کرنے اور اس کی وجہ
بتانے کی درخواست کی جائے- کیا خیال ہے؟ محمود بھائی - نایاب - باباجی - التباس
زبردست زبیر بھائی
3 نظمیں حذف کردی جائیں
باقی ٹھیک ہے (y)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اسی رنگ میں جگر (جوشائد اصغر کے مرید تھے )، کا شعر ہے۔۔۔ ۔
کیا حسن نے دیکھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی، ٹھوکر میں زمانہ ہے
اور یہ وہی غزل ہے جس میں وہ مشہورِ زمانہ شعر بھی ہے کہ

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
 
Top