سید ذیشان
محفلین
یہ عشق کا ہے داغ مٹایا نہ جائے گا
میں لاکھ ڈھانپ لوں یہ چھپایا نہ جائے گا
آنسو، یا پھر یہ بارِ خجالت ہے زیست کا
پلکوں سے ایک پل کو اٹھایا نہ جائے گا
بربادیِ عدو پہ پہنچے نہ دل کو ٹھیس
یوں اپنا یہ ضمیر سلایا نہ جائے گا
مجروح اپنے خانہِ دل کو کئے بغیر
بت تیری یاد کا تو گرایا نہ جائے گا
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ
اس بے وفا نے گر جو بلایا نہ جائے گا
بس طمعِ حور ہو میرے سجدوں کا جو نچوڑ
یوں بندگی کا ڈھونگ رچایا نہ جائے گا
کہتا ہے شانؔ کے یہ تو چہرے کا زرد رنگ
بن اِک مسیحا کے یہ جِلایا نہ جائے گا