یہ عشق کا ہے داغ مٹایا نہ جائے گا

سید ذیشان

محفلین
یہ عشق کا ہے داغ مٹایا نہ جائے گا​
میں لاکھ ڈھانپ لوں یہ چھپایا نہ جائے گا​
آنسو، یا پھر یہ بارِ خجالت ہے زیست کا​
پلکوں سے ایک پل کو اٹھایا نہ جائے گا​
بربادیِ عدو پہ پہنچے نہ دل کو ٹھیس​
یوں اپنا یہ ضمیر سلایا نہ جائے گا​
مجروح اپنے خانہِ دل کو کئے بغیر​
بت تیری یاد کا تو گرایا نہ جائے گا​
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ​
اس بے وفا نے گر جو بلایا نہ جائے گا​
بس طمعِ حور ہو میرے سجدوں کا جو نچوڑ​
یوں بندگی کا ڈھونگ رچایا نہ جائے گا​
کہتا ہے شانؔ کے یہ تو چہرے کا زرد رنگ​
بن اِک مسیحا کے یہ جِلایا نہ جائے گا​
 

الف عین

لائبریرین
یہ عشق کا ہے داغ مٹایا نہ جائے گا​
میں لاکھ ڈھانپ لوں یہ چھپایا نہ جائے گا​
÷÷زیادہ رواں صورت​
یہ داغ عشق کا ہے۔ مٹایا نہ جائے گا​
آنسو، یا پھر یہ بارِ خجالت ہے زیست کا​
پلکوں سے ایک پل کو اٹھایا نہ جائے گا​
÷÷آنسو ہے یا کہ۔۔۔۔​
پلکوں سے ایک پل بھی۔۔۔۔​
بربادیِ عدو پہ پہنچے نہ دل کو ٹھیس​
یوں اپنا یہ ضمیر سلایا نہ جائے گا​
÷÷پہلا بحر سے خارج ہے۔ یوں کر دو​
پہنچے نہ دل کو ٹھیس جو دشمن کو ہار ہو÷ہو زخم زخم​
مجروح اپنے خانہِ دل کو کئے بغیر​
بت تیری یاد کا تو گرایا نہ جائے گا​
÷÷درست​
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ​
اس بے وفا نے گر جو بلایا نہ جائے گا​
نے گر جو ؟؟​
دل کو دلا دیا ہے یقیں، وہ ہے بے وفا​
اباس سے ہم کو ایسے بلایا نہ جائے گا​
ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں۔​
بس طمعِ حور ہو میرے سجدوں کا جو نچوڑ​
یوں بندگی کا ڈھونگ رچایا نہ جائے گا​
۔۔نچوڑ کیوں؟​
کیا حوروں کی امید ہی ہو سجدوں کا سبب​
کہتا ہے شانؔ کے یہ تو چہرے کا زرد رنگ​
بن اِک مسیحا کے یہ جِلایا نہ جائے گا​
پہلا مصرع یوں کر دو​
یہ زرد رنگ کہتا ہے زیشاں کے چہرے کا​
 

سید ذیشان

محفلین
یہ عشق کا ہے داغ مٹایا نہ جائے گا​
میں لاکھ ڈھانپ لوں یہ چھپایا نہ جائے گا​
÷÷زیادہ رواں صورت​
یہ داغ عشق کا ہے۔ مٹایا نہ جائے گا​
جی ابھی کافی بہتر ہو گیا ہے۔

آنسو، یا پھر یہ بارِ خجالت ہے زیست کا​
پلکوں سے ایک پل کو اٹھایا نہ جائے گا​
÷÷آنسو ہے یا کہ۔۔۔ ۔​
پلکوں سے ایک پل بھی۔۔۔ ۔​
جی یہ بہتر ہے، لیکن میں نے "پل کو" اس لئے کیا تھا کی یہ پلکوں کا ہم آواز ہے :)
بربادیِ عدو پہ پہنچے نہ دل کو ٹھیس​
یوں اپنا یہ ضمیر سلایا نہ جائے گا​
÷÷پہلا بحر سے خارج ہے۔ یوں کر دو​
پہنچے نہ دل کو ٹھیس جو دشمن کو ہار ہو÷ہو زخم زخم​
جی یہ بھی کر دیا۔

باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ​
اس بے وفا نے گر جو بلایا نہ جائے گا​
نے گر جو ؟؟​

دل کو دلا دیا ہے یقیں، وہ ہے بے وفا​
اباس سے ہم کو ایسے بلایا نہ جائے گا​
ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں۔​
اصل میں ایک کوما مس ہو گیا ہے۔ یہ شعر اس طرح ہے:​
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا

گر کی جگہ پھر کر دیا ہے۔ یہ کاپی کرنے میں غلطی ہو گئی تھی۔
کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ: دل (جو کئی دفعہ دھوکہ کھا چکا ہے)، عقل کو یہ یقین دلا رہا ہے۔ کہ اگر اس دفعہ پھر سے اس بے وفا نے بلایا، تو وہ نہیں جائے گا۔



بس طمعِ حور ہو میرے سجدوں کا جو نچوڑ​
یوں بندگی کا ڈھونگ رچایا نہ جائے گا​
۔۔نچوڑ کیوں؟​
کیا حوروں کی امید ہی ہو سجدوں کا سبب​
نچوڑ essence کے معنی میں استعمال کئے ہیں۔​
کہتا ہے شانؔ کے یہ تو چہرے کا زرد رنگ​
بن اِک مسیحا کے یہ جِلایا نہ جائے گا​
پہلا مصرع یوں کر دو​
یہ زرد رنگ کہتا ہے زیشاں کے چہرے کا​

جی بہت خوب۔
 

سید ذیشان

محفلین
اب اس کی صورت یہ ہو گئی ہے:​
یہ داغ عشق کا ہے مٹایا نہ جائے گا​
میں لاکھ ڈھانپ لوں یہ چھپایا نہ جائے گا​
آنسو ہے یا کہ بارِ خجالت ہے زیست کا​
پلکوں سے ایک پل بھی اٹھایا نہ جائے گا​
پہنچے نہ دل کو ٹھیس جو دشمن پہ وار ہو​
یوں اپنا یہ ضمیر سلایا نہ جائے گا​
مجروح اپنے خانہِ دل کو کئے بغیر​
بت تیری یاد کا تو گرایا نہ جائے گا​
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ​
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا​
بس طمعِ حور ہو میرے سجدوں کا جو نچوڑ​
یوں بندگی کا ڈھونگ رچایا نہ جائے گا​
یہ ذرد رنگ کہتا ہے ذیشاں کے چہرے کا​
بن اِک مسیحا کے یہ جِلایا نہ جائے گا​
 

الف عین

لائبریرین
طمعِ حور بھی پسند نہیں آیا تھا اس لئے میں نے امید استعمال کیا تھا۔
نچوڑ کو ان معنوں میں ہی لیا تھا میں نے۔ لیکن کچھ درست نہیں لگا۔
اسکے علاوہ حور واحد کیوں استعمال کیا جائے۔ اب میرا مشورہ ہے۔
حوروں کی ہی امید ہو کیوں سجدوں کا نچوڑ

اور یہ
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا
میں دو قابل اعتراض باتیں ہیں۔ پہلے مصرع میں ’کہ وہ‘ مفہوم برامد کرنے میں مشکل پیدا کرتا ہے۔​
دوسرے مصرع میں پنجابی محاورے کا استعمال ہے۔​
 

سید ذیشان

محفلین
طمعِ حور بھی پسند نہیں آیا تھا اس لئے میں نے امید استعمال کیا تھا۔
نچوڑ کو ان معنوں میں ہی لیا تھا میں نے۔ لیکن کچھ درست نہیں لگا۔
اسکے علاوہ حور واحد کیوں استعمال کیا جائے۔ اب میرا مشورہ ہے۔
حوروں کی ہی امید ہو کیوں سجدوں کا نچوڑ

اور یہ
باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ، وہ
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا
میں دو قابل اعتراض باتیں ہیں۔ پہلے مصرع میں ’کہ وہ‘ مفہوم برامد کرنے میں مشکل پیدا کرتا ہے۔​
دوسرے مصرع میں پنجابی محاورے کا استعمال ہے۔​
بہت شکریہ استادِ محترم۔

اوپر والی دو باتیں تو سمجھ آ گئیں۔ لیکن پنجابی محاورہ آپ کس کو کہہ رہے ہیں؟
کیا آپ "وہ نہ جائے گا" کو پنجابی محاورہ کہہ رہے ہیں؟
اس کی اگر وضاحت کر دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا
شاید اس سے مراد ہے کہ ’اس بے وفا سے‘۔ پنجاب اور پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ’میں نے کھانا ہے‘ میں نے کرنا ہے‘ جو در اصل درست یوں ہوگا کہ یہاں ’نے‘ کی جگہ ’کو‘ استعمال کیا جائے لیکن تمہارے مصرع میں کیونکہ objective case ہے، اس لئے ’سے‘
 

سید ذیشان

محفلین
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا
شاید اس سے مراد ہے کہ ’اس بے وفا سے‘۔ پنجاب اور پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ’میں نے کھانا ہے‘ میں نے کرنا ہے‘ جو در اصل درست یوں ہوگا کہ یہاں ’نے‘ کی جگہ ’کو‘ استعمال کیا جائے لیکن تمہارے مصرع میں کیونکہ objective case ہے، اس لئے ’سے‘

باور کرا رہا ہے یہ دل، عقل کو کہ: وہ
اس بے وفا نے پھر جو بلایا، نہ جائے گا

اگر اسطرح کر دیں تو شائد پڑھنے میں زیادہ آسانی ہو؟

دل یہاں اپنے آپ کو 3rd person pronoun "وہ" سے refer کر رہا ہے اور عقل کو ان الفاظ میں یقین دلا رہا ہے کہ "وہ نہ جائے گا"
اور "اگر پھر سے اس بے وفا نے (مجھے) بلایا" ایک parenthetic statement ہے جو اس situation کو explain کرتی ہے۔

کیا یہ اب بھی پنجابی محاورے میں آتا ہے؟ یعنی "اگر اس نے مجھے بلایا" بھی پنجابی محاورہ ہے؟
میں پنجابی نہیں ہوں اس لئے مجھے تھوڑی مشکل ہو رہی ہے کہ کہاں پر میں پوائنٹ مس کر رہا ہوں، آپ کا وقت اور مشورہ دینے کا شکر گزار ہوں گا۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
نہیں ذیشان، بات نہیں بنتی۔ اگرچہ تمہاری وضاحت کے حساب سے گرامر تو ٹھیک ہے، لیکن یہ مفہوم برامد کرنا کارے دارد ہے۔ اس کو کچھ واضح کہہ سکو تو کہہ دو، ورنہ اس شعر کو ہی خدا حافظ کہہ دو۔
 
Top