آصف شفیع
محفلین
ایک اور غزل اہلِ محفل کی خدمت میں۔ آج کل محفل میں اداسی ہے۔ نہ جانے کیوں؟
غزل:
یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے
ترے خیال سے اک دن گذر ہی جانا ہے
نہ جانےکس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے
بہت حسین ہے تو بھی اے پھول سی خواہش!
ہوا کے ساتھ تجھے بھی بکھر ہی جانا ہے
وہ کہ رہا تھا نبھائے گا پیار کی رسمیں
میں جانتا تھا کہ اس نے مکر ہی جانا ہے
ہوائے شام! کہاں لے چلی زمانے کو
ذرا ٹھہر، کہ ہمیں بھی اُدھر ہی جانا ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنر وروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے
( از: کوئی پھول دل میں کھلا نہیں)
غزل:
یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے
ترے خیال سے اک دن گذر ہی جانا ہے
نہ جانےکس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے
بہت حسین ہے تو بھی اے پھول سی خواہش!
ہوا کے ساتھ تجھے بھی بکھر ہی جانا ہے
وہ کہ رہا تھا نبھائے گا پیار کی رسمیں
میں جانتا تھا کہ اس نے مکر ہی جانا ہے
ہوائے شام! کہاں لے چلی زمانے کو
ذرا ٹھہر، کہ ہمیں بھی اُدھر ہی جانا ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنر وروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے
( از: کوئی پھول دل میں کھلا نہیں)