رشید حسرت
محفلین
یہ میری شُعلہ بیانی۔
یہ میری شُعلہ بیانی، یہ تیرا رنگِ جفا
ھزار درد کے پیکر ہیں مُجھ کو تیری عطا
کسی کے قلب کی دھڑکن کو رنگ دے لینا
مُجھے نہ یاد کرے ھے اِسی میں تیرا بھلا
وُہ ایک وقت تھا ھم بھی وفا کے قائل تھے
ھمِیں تھے درد کےماروں میں ھم ہی گھائل تھے
غرض تھی یار کے کُوچے سے صُبح و شام ہمیں
کہ دِیدِ حُسن کے طالِب تھے، غم کے سائِل تھے
مگر یہ دور کہ اپنے ہی غم سے چُھوٹ نہیں
جہاں کا کوئی بھی رِشتہ یہاں اٹُوٹ نہیں
یہ سچ ھے تیری مُحبّت، تیری وفا کی قسم
ذرا فریب نہِیں اِس میں کوئی جُھوٹ نہِیں
سِتم جو مُجھ پہ ھےڈھانا وُہ ڈھا کے گُزرے گی
ھزار درد یہ دِل میں جگا کے گُزرے گی
اگرچِہ دِن بھی مُسلسل عذاب دیتا ھے
مگر یہ رات تو مُجھ کو مِٹا کے گُزخرے گی
میں تیری زُلف کےپیچوں پہ شعر کہتا تھا
کہ اپنی مُنتشر سوچوں پہ شعر کہتا تھا
اذِیّتیں میں جہاں کی سمیٹ لیتا تھا
تیری ادا کے فریبوں پہ شِعر کہتا تھا
مگر وُہ عہد، وُہ قسمیں، وُہ پیار کیسا تھا؟
تھی آنکھ اشک سے پُرنم، خُمار کیسا تھا؟
سمجھ میں آ ہی گیا تھا سبب جُدائی کا
وُہ تیرے رُوپ میں اُجڑا نِکھار کیسا تھا؟
رشِید راز کی باتوں کو راز رہنے دو
نہ چھیڑو تار مُحبّت کے ساز رہنے دو
کسی کی زُلف کے پیچوں کو رات کہہ ڈالو
کسی کی آنکھ کو فِتنہ طراز رہنے دو۔
رشِید حسرتؔ۔
یہ میری شُعلہ بیانی، یہ تیرا رنگِ جفا
ھزار درد کے پیکر ہیں مُجھ کو تیری عطا
کسی کے قلب کی دھڑکن کو رنگ دے لینا
مُجھے نہ یاد کرے ھے اِسی میں تیرا بھلا
وُہ ایک وقت تھا ھم بھی وفا کے قائل تھے
ھمِیں تھے درد کےماروں میں ھم ہی گھائل تھے
غرض تھی یار کے کُوچے سے صُبح و شام ہمیں
کہ دِیدِ حُسن کے طالِب تھے، غم کے سائِل تھے
مگر یہ دور کہ اپنے ہی غم سے چُھوٹ نہیں
جہاں کا کوئی بھی رِشتہ یہاں اٹُوٹ نہیں
یہ سچ ھے تیری مُحبّت، تیری وفا کی قسم
ذرا فریب نہِیں اِس میں کوئی جُھوٹ نہِیں
سِتم جو مُجھ پہ ھےڈھانا وُہ ڈھا کے گُزرے گی
ھزار درد یہ دِل میں جگا کے گُزرے گی
اگرچِہ دِن بھی مُسلسل عذاب دیتا ھے
مگر یہ رات تو مُجھ کو مِٹا کے گُزخرے گی
میں تیری زُلف کےپیچوں پہ شعر کہتا تھا
کہ اپنی مُنتشر سوچوں پہ شعر کہتا تھا
اذِیّتیں میں جہاں کی سمیٹ لیتا تھا
تیری ادا کے فریبوں پہ شِعر کہتا تھا
مگر وُہ عہد، وُہ قسمیں، وُہ پیار کیسا تھا؟
تھی آنکھ اشک سے پُرنم، خُمار کیسا تھا؟
سمجھ میں آ ہی گیا تھا سبب جُدائی کا
وُہ تیرے رُوپ میں اُجڑا نِکھار کیسا تھا؟
رشِید راز کی باتوں کو راز رہنے دو
نہ چھیڑو تار مُحبّت کے ساز رہنے دو
کسی کی زُلف کے پیچوں کو رات کہہ ڈالو
کسی کی آنکھ کو فِتنہ طراز رہنے دو۔
رشِید حسرتؔ۔