یہ میرے قوم کے سردار جھوٹ بولتے ہیں

احمد وصال

محفلین
یہ میرے قوم کے سردار ، جھوٹ بولتے ہیں
یہاں پہ سارے ہی غم خوار ، جھوٹ بولتے ہیں

نہ ہے وہ مے، نہ وہ پیالہ ، نہ ہیں وہ میخانے
یہ رند جھوٹا ہے مے خوار جھوٹ بولتے ہیں

وہ ذائقہ تو پھلوں سے کسی نے چھینا ہے
پھلوں کے شکل میں اشجار جھوٹ بولتے ہیں

یہ اب سکوں جو نہیں ہے گھروں میں اس جیسا
تو یہ مکیں یا کہ معمار جھوٹ بولتے ہیں

نہ دل میں پیار کسی کا، نہ ہے حسین کوئی
ہیں پیار جھوٹے تو دلدار جھوٹ بولتے ہیں

یہ میرے شہر کے حاکم بہت ہی جھوٹے ہیں
بڑے ہنر سے یہ ہر بار جھوٹ بولتے ہیں

مجھے خبر ھے یہ فتوی لگے گا مجھ پہ وصال
میں جھوٹا ہوں مرے اشعار جھوٹ بولتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں "یہ" حشو سا محسوس ہو رہا ہے، میں شاید اس کو یوں‌ لکھتا

یہاں پہ سارے ہی غم خوار جھوٹ بولتے ہیں
کہ میری قوم کے سردار جھوٹ بولتے ہیں​
 

محمد وارث

لائبریرین
پیالہ کو پالہ یا فعلن باندھنا شاید درست نہیں، اس کو فعولن یا فعول باندھنا چاہیے جیسے غالب

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسرے شعر کے بارے میں ایک مشورہ، آپ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے

وہ مے رہی نہ وہ ساغر نہ ہی وہ میخانے
یہ رند جھوٹا، وہ مے خوار جھوٹ بولتے ہیں
 

احمد وصال

محفلین
دوسرے شعر کے بارے میں ایک مشورہ، آپ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے

وہ مے رہی نہ وہ ساغر نہ ہی وہ میخانے
یہ رند جھوٹا، وہ مے خوار جھوٹ بولتے ہیں

مشکور ہوں جناب محمد وارث آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر. مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے میری اس کاوش کو اصلاح کیلئے دیکھا. انشاءاللہ آپ کے مشورے کو مستقبل میں مدنظر رکھا جائیگا
 

احمد وصال

محفلین
پیالہ کو پالہ یا فعلن باندھنا شاید درست نہیں، اس کو فعولن یا فعول باندھنا چاہیے جیسے غالب

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے
جی جناب. مبتدیوں سی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں. اور میں بھی ایک مبتدی ہوں . آپ کی رھنمائی اور اصلاح کا مشکور ہوں اور امید ہے مسقبل میں بھی آپ رھنمائی کرتے رہینگے.
 

علی امان

محفلین
پیالہ کو پالہ یا فعلن باندھنا شاید درست نہیں، اس کو فعولن یا فعول باندھنا چاہیے جیسے غالب

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے
وارث بھائی! پیالہ کی "ی" کو نظر انداز کرنا درست ہے۔ اس قسم کے الفاظ مثلا پیار، جیالا وغیرہ عموما شاعری میں دونوں طرح سے باندھے جاتے ہیں۔ ی کو شمار کر کے بھی اور نظر انداز کر کے بھی۔
در اصل ایسے الفاظ جن میں کوئی حرف اپنی پوری آواز نہ دیتا ہو اور محض اس کی بو موجود رہتی ہو، شعر میں اس حرف کو جوازی یا وجوبی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جیسے:
ادھر تو درد کا پیالہ چھلکنے والا ہے
مگر وہ کہتے ہیں یہ داستان کچھ کم ہے
(منظر بھوپالی)
کیفیتِ مے خانہ اب دیکھ لے کہ کیا ہے
ساقی ہے نہ صہبا ہے شیشہ ہے نہ پیالہ ہے
(میر حسن)
 
Top