یہ میٹرو کیوں بنائی؟

با ادب

محفلین
یہ میٹرو کیوں بنائی؟ ؟

باجی آنکھیں تو کھولیے ..
نہیں بہنا میں گر جاؤنگی ..
اف باجی کہیں نہیں گرتیں .. کیوں گریں گی؟؟ آپ آنکھیں کھولیں ..
بہنا میرا ہاتھ پکڑ لو یقین جانو میرا دل بند ہونے والا ہے ...
اللہ اکبر باجی لوگ دیکھ رہے ہیں ...
لوگوں کو دیکھنے دو میرا ویسے بھی آخری وقت چل رہا ہے .
.
آخر یہ فضول میٹرو بس سروس بنانے کی ضرورت کیا تھی .؟؟
. اور پھر ہمیں اس میں بیٹھنے کی کیا آفت تھی کہ جان ہتھیلی پہ رکھ کر مجھے ان سیڑھیوں کو عبور کرنا پڑ رہا ہے ۔

یہ مناظر ہیں کمیٹی چوک کے میٹرو بس اسٹیشن کے .... جہاں ہم جیسے کمزور دل افراد دل ہار بیٹھتے ہیں ۔ ایک تو ویسے ہی پچھتر سیڑھیاں چڑھنا کار دشوار ...اوپر سے سیڑھیوں میں اتنا بڑا بڑا گیپ چھوڑا گیا ہے کہ جونہی قدموں پہ نظر پڑے نیچے رواں ٹریفک دیکھ کر دل دھک سے رہ جائے ۔آخر اس گیپ کا عوام الناس کو دل کے عارضے میں مبتلا کرنے کے علاوہ کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ ؟

اوپر سے مجھ جیسے کمزور دل افراد جنھیں چلتی ہوا سے بھی ڈر لگتا ہو انھیں ان جان لیوا سیڑھیوں پہ چڑھنے کو کہا جائے ..
باجی برقی سیڑھی سے کیوں نہیں چلی جاتیں ..
ہر گز نہیں بہنا کیسی باتیں کرتی ہو .. مجھے چکر آئیں گے اور ان ہی سیڑھیوں میں گر گرا کر میں نے دار فانی سے کوچ کر جانا ہے ...میں کسی برقی سیڑھی میں دفن ہونا نہیں چاہتی ...

تو لفٹ کس مرض کی دوا ہے ..
نعوذ باللہ لڑکی شبھ شبھ بولو اس قبر میں تو زندہ ہوتے ہوئے دم گھٹتا ہے
اف خدایا باجی ....

یہ فقط ایکروبیا نہیں یہ ماجرا کوئی اور ہے ...میرے غم اور دکھ کی داستان گہری اور دردناک ہے ۔ یہ رنج و الم سے بھرپور ہے .. کل کی روداد سن لیجیے .. دانت کے درد کے سلسلے میں اسپتال جانا پڑا .. لیکن دانت کے درد سے پہلے ہی ہمارا ٹاکرا ایک مرنجان مرنج بلی کے بچے سے ہوگیا .. ہم اسپتال کے کاؤنٹر پہ کھڑے خاموشی سے لمبا ٹرن لے کے دوسری جانب کھسک لیئے کہ اگر ساتھ موجود محترمہ کو پتا چلا کہ ہم آج بھی بلی کے ڈر سے سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگ سکتے ہیں تو وہ ہماری تکہ بوٹی بنا دیتیں ...

وہاں تو بھرم رہ گیا لیکن جیسے ہی ہم ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئے وہی کم بخت مارا بلی کا بچہ دور سے دکھائی دیا .. اور ہماری گھگھی بندھ گئی .. ہماری بدلتی حالت کا اندازہ لگا کے محترمہ نے گردونواح پہ نظر ڈالی تو ہماری حالت سے باخبر ہو گئیں ..
ارے کچھ نہیں کہتا بلی کا بچہ ہے .. .
دیکھو ! یہ جس کا بھی بچہ ہے اسے فوری طور پہ یہاں سے ہٹاؤ ورنہ میں نے دوڑ لگا دینی ہے ..
تم اسکے والدین کی فکر چھوڑ کے خود انسان کی بچی بن کر یہیں بیٹھی رہو ..میں ہوں نا ..
اس " میں ہوں نا " والے دعوے پر ہمارا جی چاہتا انکی گھچی مروڑ کے ان ہی کے ہاتھوں میں دے دیں کہ تاریخ گواہ ہے بچپن سے لے کر آج تک جس جس موقع پہ ہم نے کسی بھی جانور کو دیکھ کے دوڑ لگائی ہے ہمارے پیچھے بھاگتے قدموں کی آواز ان ہی محترمہ کی ہوا کرتی تھی ....

بہر حال آج وہ بہادر بنی ہمیں تسلیاں دے رہی تھیں کہ یہ بلی کا بچہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ...
دیکھو بہن یوں تو ہمیں بھی بلی کے بچے سے کوئی خاص ڈر نہیں لگتا لیکن اگر یہ ہمارے عبائے میں گھس گیا تو ....

خونخوار نظروں نے ہمارا احاطہ کیا ..لیکن جان کسے عزیز نہیں سو ہمیں بھی تھی ....
ہم نے دونوں پاؤں اٹھا کے کرسی پہ رکھنے کا سوچا لیکن محترمہ ہماری نیت بھانپ چکی تھیں ... آخر کار اٹھیں بلونگڑے کو شی شی کر کے بھگانے کی ناکام کوشش میں خود بھی کھسیانی ہوئیں لیکن ڈٹی رہیں اور بلونگڑے کو بھگا کے دم لیا ...ہماری بھی جان میں جان آئی ....اور شکر کا کلمہ پڑھا ..

زندگی میں سے اگر ایکروفوبیا اور جانوروں کا ڈر نکال دیا جائے تو ہمیں کوئی ڈر نہیں ....
بلندی کے اسی ڈر کی وجہ سے ہم نے کبھی بلندیوں کا پا لینے کا سوچا تک نہیں ہم زمینی مخلوق ہیں زمین پر ہی اچھے ہیں ....
ہماری ایک بے حد پیاری نیک ملنسار سی دوست نے کالج کے ایک ٹرپ کے دوران ہمارا ہاتھ پکڑ کے ہم سے التجا کی
سب کشتی والی رائڈ میں بیٹھنے لگے ہیں میں اور آپ بھی چلتے ہیں ..
ہر گز نہیں عائشہ میں بلندیوں میں مرنا نہیں چاہتی ...
دیکھیئے یقین جانیے کچھ بھی نہیں ہوگا ہم بالکل مڈ میں بیٹھیں گے وہاں ڈر نہیں لگتا ...
عائشہ تو مینوں ڈبو دینا اے ..
نئی نا باجی کجھ وی نئی ہونا تسی چلو بس ...
ویکھ لے عاشی ..
ویکھ لیا جے
خیر ہم نے جی کڑا کر کے عائشہ کی مان لی ...
اور جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ...
شروع میں تو آس پاس دیکھنے سے گریز کیے رکھا اور پاس بیٹھی عائشہ سے کچھ سنجیدہ مسائل پہ بات چیت جاری رکھی ...جب جھولا وجد میں آیا تو ہم نے دل پکا کر کے چپکے سے آنکھیں بند کر لیں آخر ہماری عزت کا سوال تھا ...
جتنی دعائیں یاد تھیں سب کا ورد شروع کر لیا ...
دل اچھل کر حلق میں آتا تھا ... لیکن پورا جھولا فقط کالج کی بچیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور بچوں کے سامنے سبکی کے خیال سے تمام چیخوں کو اندر دبائے رکھا

لیکن اللہ گواہ ہے اس دن ہمیں اندازہ ہوا کہ پل صراط پر سے گزرنا کتنا مشکل ہوگا کہ نیچے دہکتی آگ ہوگی اور اوپر تار جیسے راستے پر سے مجھ جیسا ایکرو فوبیا کا مریض .... اللہ اس دن لاج رکھ لینا آمین ...
ابھی ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں ہم دل کو حوصلہ دے رہے تھے کہ اچانک کپکپاتی ہکلاتی عائشہ کی آواز من من کر کے سنائی دی ...
ہائے باجی ...
ہائے عاشی تیرا کک نہ رہووے ... ڈر لگ رہا ہے کیا؟
جی باجی ...
اللہ اکبر پڑھو ..
پیچھے سے کسی بچی کی شوخی بھری آواز آئی ....
کاش جھولا اور تیز ہو جائے ..
اور عائشہ کی بہترین غراہٹ ..
آرام سے ٹک کے بیٹھ جاؤ سب ...اور اللہ اکبر پڑھو ....
وہ دن آج کا دن ایسے ہر ایڈونچر سے ہماری سات نسلوں کی توبہ ....
لیکن یہ میڑو آخر کیوں بنائی ؟؟؟ اور اگر بنائی تو سیڑھیوں میں اس گیپ کا مقصد؟ ؟

سمیرا امام
 

سید عمران

محفلین
ہماری ایک بے حد پیاری نیک ملنسار سی دوست نے کالج کے ایک ٹرپ کے دوران ہمارا ہاتھ پکڑ کے ہم سے التجا کی
سب کشتی والی رائڈ میں بیٹھنے لگے ہیں میں اور آپ بھی چلتے ہیں ..
ہر گز نہیں عائشہ میں بلندیوں میں مرنا نہیں چاہتی ...
جھولے میں بیٹھنے کا مقصد تفریح اور دل خوش کرنا ہوتا ہے۔۔۔
یہ کیسے جھولے ایجاد ہوئے ہیں جن میں بیٹھنے پر موت یاد آتی ہے اور اترنے پر چکر آتے ہیں۔۔۔
آپا بہت عرصے بعد کوئی تحریر ارسال کی آپ نے!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
جھولے میں بیٹھنے کا مقصد تفریح اور دل خوش کرنا ہوتا ہے۔۔۔
یہ کیسے جھولے ایجاد ہوئے ہیں جن میں بیٹھنے پر موت یاد آتی ہے اور اترنے پر چکر آتے ہیں۔۔۔
آپا بہت عرصے بعد کوئی تحریر ارسال کی آپ نے!!!

یہ ساون والے جھولے نہیں ہیں۔ :)

بلکہ یہ مہم جوئی کے شوقین لوگوں کے لئے ہیں کہ وہ محدود وسائل میں اپنے شوق پورے کر لیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
وہاں تو بھرم رہ گیا لیکن جیسے ہی ہم ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئے وہی کم بخت مارا بلی کا بچہ دور سے دکھائی دیا .. اور ہماری گھگھی بندھ گئی .. ہماری بدلتی حالت کا اندازہ لگا کے محترمہ نے گردونواح پہ نظر ڈالی تو ہماری حالت سے باخبر ہو گئیں ..
ارے کچھ نہیں کہتا بلی کا بچہ ہے .. .

ہمیں تو بہت پیارے لگتے ہیں بلی کے بچے۔

لیکن ہمارے ایک دوست ہیں کہ جن کو بلی چھوبھی جائے تو وہ اچھل پڑتے ہیں۔ اکثر ہم لوگ جس ہوٹل میں چائے پیا کرتے تھے وہاں کچھ بلّیاں کرسیوں کے نیچے سے آمدو ر فت کرتی رہتی تھیں۔ اور جب وہ ہمارے ان دوست کو چھو جاتی تو وہ اُچھل پڑتے اور نتیجتاً چائے آدھی رہ جاتی۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ مناظر ہیں کمیٹی چوک کے میٹرو بس اسٹیشن کے .... جہاں ہم جیسے کمزور دل افراد دل ہار بیٹھتے ہیں ۔ ایک تو ویسے ہی پچھتر سیڑھیاں چڑھنا کار دشوار ...اوپر سے سیڑھیوں میں اتنا بڑا بڑا گیپ چھوڑا گیا ہے کہ جونہی قدموں پہ نظر پڑے نیچے رواں ٹریفک دیکھ کر دل دھک سے رہ جائے ۔آخر اس گیپ کا عوام الناس کو دل کے عارضے میں مبتلا کرنے کے علاوہ کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ ؟

عوامی مقامات پر سیڑھیاں آرام دہ ہونی چاہیے ۔ یعنی مناسب لمبائی چوڑائی اور زینوں کے مابین مناسب فاصلہ۔
 

با ادب

محفلین
جھولے میں بیٹھنے کا مقصد تفریح اور دل خوش کرنا ہوتا ہے۔۔۔
یہ کیسے جھولے ایجاد ہوئے ہیں جن میں بیٹھنے پر موت یاد آتی ہے اور اترنے پر چکر آتے ہیں۔۔۔
آپا بہت عرصے بعد کوئی تحریر ارسال کی آپ نے!!!
نہیں بھائی .. آپ نے شاید کافی دن بعد دیکھی ہے ...
میں تو روز ایک تحریر بھیج دوں لیکن لوگوں کا بھی خیال رہتا ہے ۔
 

با ادب

محفلین
ہمیں تو بہت پیارے لگتے ہیں بلی کے بچے۔

لیکن ہمارے ایک دوست ہیں کہ جن کو بلی چھوبھی جائے تو وہ اچھل پڑتے ہیں۔ اکثر ہم لوگ جس ہوٹل میں چائے پیا کرتے تھے وہاں کچھ بلّیاں کرسیوں کے نیچے سے آمدو ر فت کرتی رہتی تھیں۔ اور جب وہ ہمارے ان دوست کو چھو جاتی تو وہ اُچھل پڑتے اور نتیجتاً چائے آدھی رہ جاتی۔ :)

ایسے ہوٹلز کو ہمارا سلام ہے بھائی ... ہمیں تو بلی کے نام سے ہی غش پڑتے ہیں
 
Top