کاشفی
محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
یہ نہیں اصلِ گلستاں، حاصلِ گلستاں ہے اور
جوشِ بہار پر نہ جا، مرحلہء خزا ں ہے اور
شاخ پہ کھِل کے ٹوٹنا، پیشِ نسیم لوٹنا
قسمتِ یاسمن ہے اور، طاقتِ باغباں ہے اور
حجلہء یاسمن کہاں ، خاروخسِ چمن کہاں
برق و شرر کو لاگ ہے، جس سے وہ آشیاں ہے اور
دیر و حرم میں سر جھُکے، سر کےلئے یہ ننگ ہے
جھُکتا ہے اپنا سر جہاں، وہ دروآستاں ہے اور
قطعِ تعلقات بھی، قیدِ تعلقات ہے
توڑ کے رشتہء وفا، مجھ سے وہ بدگماں ہے اور
دل سے چھپا چھپا کے یوں، آپ کو پوجتے ہیں ہم
جیسے بجائے دل کوئی عشق میں رازداں ہے اور
علمِ نِکاتِ زندگی، ضبطِ کمالِ آگہی
فطرتِ راز جُو ہے اور، منصبِ رازداں ہے اور
راہ جدا، سفر جدا، رہزن و راہبر جدا
میرے جنونِ شوق کی منزلِ بے نشاں ہے اور
ایک سفیرِ احتساب، ایک نفیرِ انقلاب
نعرہء شیب ہے جُدا، نغمہء نوجواں ہے اور
کشمکش خیال میں قطع سفر ہی ہو نہ جائے؟
کوششِ راہبر نہ دیکھ، جذبہء کارواں ہے اور
ایک نوائے سوز و رَم ، ایک میں سوزو نم، نہ رَم
نغمہء قدسیاں ہے اور نالہء خاکیاں ہے اور
لذتِ درد کے عوض، دولتِ دو جہاں نہ لوں
دل کا سکون اور ہے، دولتِ دو جہاں ہے اور
ساغر مست اُٹھ کے خود، قبلِ سحر اُنڈیل لے
تیرے سُبو میں کچھ ابھی بادہء ارغواں ہے اور!
(ساغر نظامی)
یہ نہیں اصلِ گلستاں، حاصلِ گلستاں ہے اور
جوشِ بہار پر نہ جا، مرحلہء خزا ں ہے اور
شاخ پہ کھِل کے ٹوٹنا، پیشِ نسیم لوٹنا
قسمتِ یاسمن ہے اور، طاقتِ باغباں ہے اور
حجلہء یاسمن کہاں ، خاروخسِ چمن کہاں
برق و شرر کو لاگ ہے، جس سے وہ آشیاں ہے اور
دیر و حرم میں سر جھُکے، سر کےلئے یہ ننگ ہے
جھُکتا ہے اپنا سر جہاں، وہ دروآستاں ہے اور
قطعِ تعلقات بھی، قیدِ تعلقات ہے
توڑ کے رشتہء وفا، مجھ سے وہ بدگماں ہے اور
دل سے چھپا چھپا کے یوں، آپ کو پوجتے ہیں ہم
جیسے بجائے دل کوئی عشق میں رازداں ہے اور
علمِ نِکاتِ زندگی، ضبطِ کمالِ آگہی
فطرتِ راز جُو ہے اور، منصبِ رازداں ہے اور
راہ جدا، سفر جدا، رہزن و راہبر جدا
میرے جنونِ شوق کی منزلِ بے نشاں ہے اور
ایک سفیرِ احتساب، ایک نفیرِ انقلاب
نعرہء شیب ہے جُدا، نغمہء نوجواں ہے اور
کشمکش خیال میں قطع سفر ہی ہو نہ جائے؟
کوششِ راہبر نہ دیکھ، جذبہء کارواں ہے اور
ایک نوائے سوز و رَم ، ایک میں سوزو نم، نہ رَم
نغمہء قدسیاں ہے اور نالہء خاکیاں ہے اور
لذتِ درد کے عوض، دولتِ دو جہاں نہ لوں
دل کا سکون اور ہے، دولتِ دو جہاں ہے اور
ساغر مست اُٹھ کے خود، قبلِ سحر اُنڈیل لے
تیرے سُبو میں کچھ ابھی بادہء ارغواں ہے اور!