نایاب
لائبریرین
یہ والا سو مو ٹو
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بڑا اچھا کیا کہ بلوچستان میں ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لے کر پندرہ اگست کو دارالحکومت کوئٹہ میں سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ جب تک معاملہ زیرِ سماعت ہے بی ایل اے وغیرہ پنجابیوں کو بسوں سے اتار کے اور گن کے مارنا بند کردیں گے۔ تنظیمِ دفاعِ بلوچستان کے تنخواہ دار رضاکار علیحدگی پسند بلوچوں کو اٹھا کر ایجنسیوں کے حوالے کرنے کا عمل روک دیں گے۔ جنگلوں اور ویران پگڈنڈیوں پر تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کا رجحان بھی معطل ہوجائے گا اور جب تک عدالتی عمل جاری ہے تب تک غائب لوگوں کو صرف ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں چھوڑا جائے گا تاکہ اگر وہ ازخود (سو مو ٹو) گھر پہنچ سکیں تو پہنچ جائیں۔
امید کی جاتی ہے کہ احترام ِ سماعت میں لشکرِ جھنگوی والے شیعہ زائرین کی بسوں کو تب تک محض ہوائی فائرنگ سے ڈرائیں گے اور گول چہرے والے ہزاروں کو صرف گھورنے پر اکتفا کریں گے۔ طالبات کی بسوں میں سیٹ کے نیچے بم کے بجائے بطور علامت ویسے شبراتی انار چھپائے جائیں گے جن کے پھوٹنے سے رنگ برنگی روشنیاں نکلتی ہیں اور بچہ لوگ تالی بجاتے ہیں۔ توقع ہے کہ جنازوں میں پھٹنے والی خودکش جیکٹوں میں بال بیرنگز اور کیلوں کی مقدار بڑھا کر بارود کی مقدار آدھی اور گیلی کردی جائے گی تاکہ متاثرین بس مریں نہیں۔
یہ تو معلوم نہیں کہ عدالتی سمن کس کس کو جاری کئے جارہے ہیں۔ البتہ گورنر کو بھیجنے کا یوں فائدہ نہیں کہ وہ تو ہے ہی وفاق کا نمائندہ۔ اس بے چارے کا صوبائی امور سے کیا لینا دینا؟ چیف منسٹر کو حالانکہ سمن ضرور جانے چاہئیں کیونکہ وہ صوبائی انتظامیہ کا علامتی سربراہ ہے۔ لیکن سمن کا وہ کرے گا کیا؟ اس غریب کے پاس تو اپنی کابینہ تک نہیں۔ جس قلم سے وہ دستخط کرتا ہے وہ میڈ ان لاہور اور اس قلم میں سیاہی تک میڈ ان پنڈی ہے۔ پھر بھی آپ انہیں سمن بھیجنا چاہیں تو کس کی مجال کہ۔۔۔
البتہ حضورِ والا کو اگر غالب پسند ہو تو آئی جی ایف سی بلوچستان کو ضرور سمن بھیج دیں کیونکہ غالب نے ہی آئی جی ایف سی کے لیے کہا تھا کہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
بلوچستان پولیس کو ضرور پروانہِ طلبی جانا چاہیے۔ کیوں کہ لا اینڈ آرڈر کی دیکھ بھال بنیادی طور سے اسی کی ذمہ داری ہے۔ پر دھیان رہے کہ جس پولیس افسر کو طلب کیا جارہا ہو۔ وہ پندرہ اگست کی پیشی سے پہلے ہی کہیں کسی خود کش، اغواکار، کراس فائر یا تبادلے کی زد میں نہ آجائے۔ لہٰذا احتیاطاً ایک کے بجائے ایک ہی رینک کے دو دو یا ہوسکے تو تین تین افسروں کو طلبی کا پروانہ بھیجا جائے تاکہ ایک مرجائے تو دوسرا تو کم ازکم حاضر ہوسکے اور دوسرے کو راستے میں کوئی مصیبت پڑ جائے تو تیسرا تو کوئی نا کوئی جگاڑ لگا کر زنجیرِ عدل پکڑ ہی لیوے۔
حضورِ زی انصاف کے علم میں شائد یہ بھی لایا گیا ہو یا آگے چل کر لایا جاوے کہ نئی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے تب سے وزیرِ اعظم اور ڈی فیکٹو چیف منسٹر بلوچستان میاں محمد نواز شریف وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کی مدد سے دہشت گردی کے خلاف پالیسی کو حتمی شکل دینے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔
وہ تو درمیان میں دورہِ چین، طوافِ جان کیری، صدارتی انتخاب، نائن زیرو، عمرہ اور جاتی عمرہ، ڈیرہ اسماعیل خان جیل اور کوئٹہ کی ساٹھ لاشیں نہ آجاتیں تو قومی دہشت گرد پالیسی کب کی پک کے تیار ہوچکی ہوتی۔ سنا ہے کہ اب تیس اگست تک یہ پالیسی چھل دھل جائے گی۔ پھر فوج پیاز کترے گی، عمران خان دھنیا کاٹیں گے، مولانا فضل الرحمان رائتہ پھیلائیں گے اور پیپلز پارٹی چکھنے کے بعد ہی ہاں یا ناں میں سر ہلائے گی۔ اور پھر اس آمیزے کو قومی اتفاقِ رائے کی ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ جب ڈیڑھ دو ڈھائی ہزار لاشیں اور گر چکی ہوں گی تب تک دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی یقیناً دم پخت ہوجائے گی۔ عجلت آخر کس بات کی ہے؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضورِ زی انصاف نے کراچی کے ابتر حالات کا بھی شائد ایک سے زائد مرتبہ ازخود نوٹس لیا تھا۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بڑا اچھا کیا کہ بلوچستان میں ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لے کر پندرہ اگست کو دارالحکومت کوئٹہ میں سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ جب تک معاملہ زیرِ سماعت ہے بی ایل اے وغیرہ پنجابیوں کو بسوں سے اتار کے اور گن کے مارنا بند کردیں گے۔ تنظیمِ دفاعِ بلوچستان کے تنخواہ دار رضاکار علیحدگی پسند بلوچوں کو اٹھا کر ایجنسیوں کے حوالے کرنے کا عمل روک دیں گے۔ جنگلوں اور ویران پگڈنڈیوں پر تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کا رجحان بھی معطل ہوجائے گا اور جب تک عدالتی عمل جاری ہے تب تک غائب لوگوں کو صرف ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں چھوڑا جائے گا تاکہ اگر وہ ازخود (سو مو ٹو) گھر پہنچ سکیں تو پہنچ جائیں۔
امید کی جاتی ہے کہ احترام ِ سماعت میں لشکرِ جھنگوی والے شیعہ زائرین کی بسوں کو تب تک محض ہوائی فائرنگ سے ڈرائیں گے اور گول چہرے والے ہزاروں کو صرف گھورنے پر اکتفا کریں گے۔ طالبات کی بسوں میں سیٹ کے نیچے بم کے بجائے بطور علامت ویسے شبراتی انار چھپائے جائیں گے جن کے پھوٹنے سے رنگ برنگی روشنیاں نکلتی ہیں اور بچہ لوگ تالی بجاتے ہیں۔ توقع ہے کہ جنازوں میں پھٹنے والی خودکش جیکٹوں میں بال بیرنگز اور کیلوں کی مقدار بڑھا کر بارود کی مقدار آدھی اور گیلی کردی جائے گی تاکہ متاثرین بس مریں نہیں۔
یہ تو معلوم نہیں کہ عدالتی سمن کس کس کو جاری کئے جارہے ہیں۔ البتہ گورنر کو بھیجنے کا یوں فائدہ نہیں کہ وہ تو ہے ہی وفاق کا نمائندہ۔ اس بے چارے کا صوبائی امور سے کیا لینا دینا؟ چیف منسٹر کو حالانکہ سمن ضرور جانے چاہئیں کیونکہ وہ صوبائی انتظامیہ کا علامتی سربراہ ہے۔ لیکن سمن کا وہ کرے گا کیا؟ اس غریب کے پاس تو اپنی کابینہ تک نہیں۔ جس قلم سے وہ دستخط کرتا ہے وہ میڈ ان لاہور اور اس قلم میں سیاہی تک میڈ ان پنڈی ہے۔ پھر بھی آپ انہیں سمن بھیجنا چاہیں تو کس کی مجال کہ۔۔۔
البتہ حضورِ والا کو اگر غالب پسند ہو تو آئی جی ایف سی بلوچستان کو ضرور سمن بھیج دیں کیونکہ غالب نے ہی آئی جی ایف سی کے لیے کہا تھا کہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
بلوچستان پولیس کو ضرور پروانہِ طلبی جانا چاہیے۔ کیوں کہ لا اینڈ آرڈر کی دیکھ بھال بنیادی طور سے اسی کی ذمہ داری ہے۔ پر دھیان رہے کہ جس پولیس افسر کو طلب کیا جارہا ہو۔ وہ پندرہ اگست کی پیشی سے پہلے ہی کہیں کسی خود کش، اغواکار، کراس فائر یا تبادلے کی زد میں نہ آجائے۔ لہٰذا احتیاطاً ایک کے بجائے ایک ہی رینک کے دو دو یا ہوسکے تو تین تین افسروں کو طلبی کا پروانہ بھیجا جائے تاکہ ایک مرجائے تو دوسرا تو کم ازکم حاضر ہوسکے اور دوسرے کو راستے میں کوئی مصیبت پڑ جائے تو تیسرا تو کوئی نا کوئی جگاڑ لگا کر زنجیرِ عدل پکڑ ہی لیوے۔
حضورِ زی انصاف کے علم میں شائد یہ بھی لایا گیا ہو یا آگے چل کر لایا جاوے کہ نئی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے تب سے وزیرِ اعظم اور ڈی فیکٹو چیف منسٹر بلوچستان میاں محمد نواز شریف وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کی مدد سے دہشت گردی کے خلاف پالیسی کو حتمی شکل دینے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔
وہ تو درمیان میں دورہِ چین، طوافِ جان کیری، صدارتی انتخاب، نائن زیرو، عمرہ اور جاتی عمرہ، ڈیرہ اسماعیل خان جیل اور کوئٹہ کی ساٹھ لاشیں نہ آجاتیں تو قومی دہشت گرد پالیسی کب کی پک کے تیار ہوچکی ہوتی۔ سنا ہے کہ اب تیس اگست تک یہ پالیسی چھل دھل جائے گی۔ پھر فوج پیاز کترے گی، عمران خان دھنیا کاٹیں گے، مولانا فضل الرحمان رائتہ پھیلائیں گے اور پیپلز پارٹی چکھنے کے بعد ہی ہاں یا ناں میں سر ہلائے گی۔ اور پھر اس آمیزے کو قومی اتفاقِ رائے کی ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ جب ڈیڑھ دو ڈھائی ہزار لاشیں اور گر چکی ہوں گی تب تک دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی یقیناً دم پخت ہوجائے گی۔ عجلت آخر کس بات کی ہے؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضورِ زی انصاف نے کراچی کے ابتر حالات کا بھی شائد ایک سے زائد مرتبہ ازخود نوٹس لیا تھا۔