امیر مینائی یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں

جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں

حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں

الٰہی ہے دل جائے آرام غم
نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں

کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں

وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں

زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔۔۔

لگتا ہے یہ شعر اردو محفل کے لئے کہا گیا ہے :)

یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
 
Top