اسد قریشی
محفلین
یہ کرم ہے تیرے فراق کا، کہ جواں ہیں میری یہ خَلوتیں
مری دھڑکنوں میں جو سوز ہے، یہ ہیں مجھ پہ تری عِنایتیں
تجھے احِتراز ہے ہست سے، مجھے بُود کی ہیں مشقّتیں
یہ ہی ہست و بود میان میں مرے عشق کی ہیں رکاوٹیں
جو شرابِ دِید کی چاہ میں ہوا اَنگ اَنگ یہ طُور ہے
یہ فِشار خون کہیں جسے تری دِید کی ہیں یہ کُلفتیں
مجھے کب فَنا سے گُریز ہے، یہاں لمحہ لمحہ عذاب ہے
میں ہوں منتظر ترے حکم کا، کہ نصیب ہوں مجھے قُربتیں
تری بے قراریاں، کلفتیں، کسی طور مجھ سے چُھپی نہیں
ابھی جھیلنا ہیں اسد تجھے یہ زماں مکان کی وَحشتیں