یہ کس کے ہجر میں اب تک یوں جاگے جا رہا ہوں میں
عجب سا خواب ہے جس کو ہی دیکھے جا رہا ہوں میں
جو چوروں کی طرح اس دل میں چھپ کے بیٹھی تھی کب سے
اسی اک یاد کو دل سے نکالے جا رہا ہوں میں
جلایا تھا دیا جو میں نے اپنے خون سے سن لو
اسے کر کے ہواؤں کے حوالے جا رہا ہوں میں
اجاڑے رکھا تھا جس کو جدائی نے تری اب تک
اسی گھر کو کسی سے پھر بسانے جا رہا ہوں میں
گو مشکل ہے بہت ہی یہ عمل جاناں مگر پھر بھی
تری یادوں کو اپنے دل سے نوچے جا رہا ہوں میں
لگا رکھی تھی پابندی جو تو نے مجھ پہ اے ظالم
اسے اب توڑ کے تیری گلی سے جا رہا ہوں میں
ہوئی تھی ایک ناسمجھی جو میرے باپ آدم سے
اسی کا قرض ہے اب تک چکائے جا رہا ہوں میں