کاشفی

محفلین
غزل
(مخدوم محی الدین)
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے


چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح و شام لیے


ہجومِ بادہء و گل میں ہجومِ یاراں میں
کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے


کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے


مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیے


بجا رہا تھا کہیں دور کوئی شہنائی
اُٹھا ہوں آنکھوں میں اک خوابِ ناتمام لیے
 

کاشفی

محفلین
غزل
(مخدوم محی الدین)
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے


 
Top