یہ کون سی بحر ہے ؟

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ محمود صاحب یاد آوری کیلیے!

یہ خوبصورت بحر 'رجز مثمن مطوی مخبون' ہے۔

افاعیل: مُفتَعِلُن مفاعِلُن مُفتَعِلُن مفاعِلُن

یہ ایک مقطع بحر ہے یعنی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے یعنی مُفتَعِلُن مفاعِلُن / مُفتَعِلُن مفاعِلُن۔

یعنی یہ کہ نہ صرف مصرعے کے آخر بلکہ ہر ٹکڑے کے آخر میں مسبغ رکن آ سکتا ہے یعنی مفاعلن کی جگہ 'مفاعلان' آ سکتا ہے۔

تقطیع:

رکھا فراق نے قدم، دل میں بڑے سکوں کے ساتھ
آنکھ میں اشک کی طرح سارے بدن میں خوں کے ساتھ

رک کَ فرا - مفتعلن
ق نے قدم - مفاعلن
دل مِ بڑے - مفتعلن
سکو کِ سات - مفاعلان (مسبغ)

آنک مِ اش - مفتعلن
ک کی طرح - مفاعلن
سارِ بدن - مفتعلن
مَ خو کے ساتھ - مفاعلان (مسبغ)

خواب تو خیر کب رہے، پہلے کبھی نصیب میں
نیند بھی کوچ کر گئی، اس شبِ واژگوں کے ساتھ

خاب تُ خے - مفتعلن
ر کب رہے - مفاعلن
پہلِ کبھی - مفتعلن
نصیب میں - مفاعلن
نیند بِ کو - مفتعلن
چ کر گئی - مفاعلن
اس شبِ وا - مفتعلن
ژ گو کے ساتھ - مفاعلان (مسبغ)

اس بحر میں سب سے زیادہ مشہور غزل، قبلہ و کعبہ خلد آشیانی کی

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

غالبِ خستہ کے بغیر، کون سے کام بند ہیں
رویئے زار زار کیا، کیجیئے ہائے ہائے کیوں
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ بابا جانی اور وارث صاحب، رسید حاضر ہے ، بس مصروفیت میں صرفِ‌نظر ہوگیا یہ صفحہ۔ بہت بہت شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
بحر کے متعلق تو قبلہ وارث صاحب فرما ہی چکے ہیں۔۔۔ لیکن یہاں ایک عرض کرتا چلوں کہ میں عرصۂ دراز تک اسے "فاعلَتُن مفاعلن" کے طور پر تقطیع کرتا رہا۔ خیر میں یہاں اپنی دو عدد تک بندیاں پیش کیے دیتا ہوں جو اسی بحر میں ہیں:۔
دشمنِ جاں ترے سوا کوئی بھی ہو نہیں سکا
داغ تری عطا تھے جو کوئی بھی دھو نہیں سکا

عشق میں پہلے چار دن جاں کو بہت قرار تھا
بعدہُ میں تمام عمر چین سے سو نہیں سکا​

معذرت: عربی لفظ "بعدہُ" (اس کے بعد) کی ہ پر دراصل پیش کی بجائے الٹی پیش ہے جو اس کلیدی تختے میں مجھے مل نہ سکی لہٰذا بطور متبادل پیش لگا دی۔
 
Top