ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
غزل
یہ کہہ رہے ہیں وہ کالک اُچھالنے والے
ہمی ہیں شہر کی رونق اُجا لنے وا لے
۔ ق ۔
منافقت کی عفونت بھی ساتھ لائے ہیں
گلے میں ہار گلابوں کا ڈالنے والے
دہن میں لقمۂ شیریں بھی رکھتے جاتے ہیں
مرے وجود میں لاوا اُبا لنے وا لے
۔
ہجوم چنتا ہے ساحل پہ سیپیوں سے گہر
نظر سے گم ہیں سمندر کھنگا لنے وا لے
کہاں گئے وہ شناور اندھیری جھیلوں کے
وہ ڈوبے چاند کو باہر نکا لنے وا لے
نہیں ڈھلیں گے کبھی سیم وزر کے سانچوں میں
تمہاری یاد کو شعروں میں ڈھالنے وا لے
ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست ۲۰۰۲
آخری تدوین: