عمران شناور
محفلین
باقی احمد پوری صاحب کی تازہ غزل پیشِ خدمت ہے۔ جو ایک مشاعرہ سے نوٹ کی گئی ہے:
یہ کیا عجیب نظارا دکھائی دیتا ہے
نہ چاند ہے نہ ستارا دکھائی دیتا ہے
کبھی کبھی مرے آنگن میں پھول کھلتے ہیں
کبھی کبھی وہ دوبارہ دکھائی دیتا ہے
یہ کیا کہ ہم ہی کہے جائیں داستاں اپنی
اسے بھی حال ہمارا دکھائی دیتا ہے
کسی کسی کا مقدر ہے پار اُتر جانا
کسی کسی کو کنارا دکھائی دیتا ہے
ہمارا دل بھی کہاں ہے ہمارا دل باقی
اسی کا دل پہ اجارا دکھائی دیتا ہے
(باقی احمد پوری)
یہ کیا عجیب نظارا دکھائی دیتا ہے
نہ چاند ہے نہ ستارا دکھائی دیتا ہے
کبھی کبھی مرے آنگن میں پھول کھلتے ہیں
کبھی کبھی وہ دوبارہ دکھائی دیتا ہے
یہ کیا کہ ہم ہی کہے جائیں داستاں اپنی
اسے بھی حال ہمارا دکھائی دیتا ہے
کسی کسی کا مقدر ہے پار اُتر جانا
کسی کسی کو کنارا دکھائی دیتا ہے
ہمارا دل بھی کہاں ہے ہمارا دل باقی
اسی کا دل پہ اجارا دکھائی دیتا ہے
(باقی احمد پوری)