مانیکا کی بیٹی پولیس کو لے ڈوبی
01/09/2018 اے وحید مراد
ضلع پاکپتن کے پولیس افسر رضوان گوندل کے تبادلے کا تنازعہ ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچا تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے پنجاب پولیس کے سربراہ کلیم امام، انکوائری کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر خدا بخش، علاقائی پولیس افسر (آر پی او) ساہیوال شارق کمال اور ہٹائے گئے ڈی پی او رضوان گوندل پیش ہوئے۔ تینوں افسران نے عدالت کو معاملے میں اپنا موقف بتایا۔
چیف جسٹس نے عدالتی روسٹرم پر پولیس افسران کو بلا کر پوچھا کہ جی، یہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ پانچ دن سے قوم اسی کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ٹرانسفر رات کو ہو گیا، صبح ہو گیا۔ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ پولیس کو آزاد کرنا ہے، پولیس کو با اختیار بنانا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی کو مخابطب کر کے کہا کہ اگر پولیس نے با اختیار یا آزاد نہیں ہونا تو مرضی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیراعلی کے کہنے پر یہ تبادلہ کیا ہے یا اگر اس کے پاس کوئی بیٹھا ہوا ہے وہ کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی پراپرٹی ٹائیکون اور ڈیلر بیٹھا ہوا تھا، یہی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسر کیوں ڈیرے پر چلا جائے، کدھر ہے مانیکا؟ جمیل گجر کدھر ہے؟ آئی جی کلیم امام نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ جمیل گجر کا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ کیا ہوا ہے۔ کلیم امام نے کہا کہ میری سروس کے 31 سال ہوگئے ہیں، ہمیشہ دیانتداری سے کام کیا، اقوام متحدہ کے ساتھ کام کیا، حکومت نے تمغہ دیا۔ چیف جسٹس نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ سروس کی ہے کہ ڈی پی او کو اٹھا کر باہر پھینک دو، رات ایک بجے یہ ٹرانسفر آرڈر پاس کیا ہے، کیا یہ درست ہے؟ ڈی پی او کو معافی مانگنے کے لیے کیوں کہا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رات کے ایک بجے تبادلہ کا حکم جاری کرنے کی ضرورت کیا پڑ گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس کو سیاسی دباؤ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پولیس آئی جی خود سیاسی دباؤ سے نکلنے کی کوششوں کو خراب کر رہا ہے۔ ہم نے سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ کے مقدمے میں فیصلہ دے کر پولیس افسران کو طاقت دی اور مضبوط کیا تاکہ سیاسی و سرکاری دباؤ سے آزاد ہو کر کام کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھتا ہوں کون ہے وہ گجر، وہ کیسے یہ کر سکتا ہے؟ آئی جی نے کہا کہ میں پروفیشنل ہوں، گزشتہ الیکشن میں 24 افراد مارے گئے تھے اس الیکشن میں پولیس سربراہ تھا کوئی قتل نہیں ہوا۔ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ کبھی کسی سیاستدان کے کہنے پر کام نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قسم اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ انتظامی حکم تھا۔ وزیراعلی نے بلایا تو یہ چلے گئے، ڈی پی او مجھ سے پوچھے بغیر گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے روکا نہیں؟ آپ نے اوپر بات نہ کی کہ میرے کسی افسر کو براہ راست نہ بلایا جائے؟ آئی جی نے کہا کہ میں نے ڈی پی او سے کہا کہ آئندہ مجھ سے پوچھے بغیر نہ جانا۔ رضوان گوندل نے مجھ سے غلط بیانی کی اور درست بات نہیں بتائی۔ مجھے اپنے ذرائع اور اسپیشل برانچ کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ ڈی پی او نے حقائق درست طور پر نہیں بتائے۔ آئی جی نے کہا کہ پاکپتن میں دو واقعات ہوئے، تاہم اس کی ذمہ داری ڈی پی او پر نہیں۔ ڈی پی او خود ناکے پر نہیں ہوتا مگر ان کو اپنے افسر کو بتانا چاہیے تھا۔
آئی جی پنجاب کلیم امام تیزی سے بولتے گئے اور کہا کہ کسی نے مجھے ڈی پی او کے تبادلے کے لیے نہیں کہا، میں ڈکٹیشن نہیں لیتا، اسی تیزی میں آئی جی انگریزی میں کہہ گئے کہ آپ جا کر کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں (یو کین گو اینڈ آسک اینی باڈی)۔ چیف جسٹس نے فورا کہا کہ آپ کیسے بات کر رہے ہیں، یہ کیا طریقہ ہے، عدالت کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا نے آئی جی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے انگریزی میں کہا کہ مسٹر آئی جی، آپ اپنی میں سے بھرے ہوئے ہیں ( یو آر ٹو فل آف یور سیلف)۔ پھر انگریزی میں ہی مزید کہا کہ آپ کی یہ ہمت کیسے ہوئی کہنے کی؟ آپ ہوتے کون ہیں عدالت کو اس طرح مخاطب کرنے والے کہ جائیں اور پوچھ لیں۔
آئی جی کلیم امام نے فورا معذرت کی اور کہا کہ میں نہایت ادب سے بتا رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ گریڈ اکیس کے افسر ہیں، گریڈ بائیس کی پوسٹ پر لگایا گیا ہے ابھی آپ کو ہٹا سکتے ہیں۔ اگر غلط بیانی کریں گے تو عدالت سے آئی جی کے طور پر ہی واپس نہیں جائیں گے۔ کیا آپ نے اپنے افسر کو روکا کہ وزیراعلی کے پاس نہ جائیں؟ آئی جی نے کہا کہ واقعہ یہ تھا کہ پاکپتن میں رات ساڑھے بارہ ایک بجے خاتون پیدل جا رہی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس خاتون سے پولیس نے پوچھ لیا، کیا یہ کوئی غلط کام تھا؟ کیا پولیس کو اس طرح کے غیر معمولی حالات میں پوچھنا نہیں چاہیے؟ کیا ڈی پی او اس وقت وہاں موجود تھا؟ پولیس نے حفاظت کےلئے خاتون سے پوچھ لیا تو کیا حرج ہے۔
آئی جی نے بتایا کہ پاکپتن میں روایت ہے کہ لوگ دربار پر جانے کے لئے 20 تا 25 کلومیٹر پیدل چلتے ہیں، اس خاتون کے ساتھ ایک دوسری گاڑی کے افراد نے بدتمیزی کی، اس کا ہاتھ پکڑا۔
عدالت نے رضوان گوندل کو روسٹرم پر بلایا اور موقف دینے کی ہدایت کی۔ متاثرہ پولیس افسر رضوان گوندل نے بتایا کہ جمعہ 24 اگست کو وزیراعلی کے سیکرٹری حیدر کا تین چار بجے کے لگ بھگ فون آیا اور کہا کہ آپ دس بجے وزیراعلی دفتر آ جائیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ریجنل پولیس افسر کو بھی ساتھ لے کر آؤں۔ میں نے آر پی او شارق کمال کو فون کر بتایا اور کہا کہ وجوہات دو ہو سکتی ہیں، ایک پانچ اگست کا واقعہ ہے اور دوسرا 24 اگست والا، انہی کی وجہ سے بلایا گیا ہوگا۔ آئی جی کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا، ان کے آپریٹر نے کہا کہ مصروف ہیں تو جاتے ہوئے چھ سات بجے کے لگ بھگ ان کو واٹس ایپ پر پیغام بھیجا۔
رضوان گوندل نے عدالت کو مزید بتایا کہ رات دس بجے وزیراعلی سے ملاقات کے لئے کمرے میں بٹھایا گیا تو پہلے ایک شخص آیا اور اس کے کچھ دیر بعد وزیراعلی آئے۔ وزیراعلی نے بتایا کہ یہ میرا بھائی ہے آپ سے کچھ بات کرے گا۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا نام احسن جمیل اقبال گجر ہے اور وہ پرائیویٹ شخص ہے کوئی سرکاری عہدیدار نہیں۔ احسن گجر نے کہا کہ پاکپتن میں مانیکا فیملی کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ایسی کوئی بات میرے علم میں نہیں۔ احسن گجر نے کہا کہ میں نے ایک اوورسیز دوست کے ذریعے بھی آپ کو پیغام بھیجا تھا لیکن آپ نے عمل نہ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی کا کوئی کرنل شرنل بھی تھا۔ رضوان گوندل نے جواب دیا کہ آئی ایس آئی کا کرنل طارق ہے، فیصل آباد میں پوسٹنگ ہے اس نے فون کیا تھا کہ خاور مانیکا کے بیٹھے کے پاس چلے جائیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا اس کا نام کیا ہے، اوورسیز دوست کون تھا؟ رضوان گوندل نے بتایا کہ خاور کے بیٹے کا نام ابراہیم مانیکا ہے جبکہ اوورسیز سے فون کرنے والا کورس میں مجھ سے سینئر افسر عظیم ارشد ہے اس نے واٹس ایپ پر فون کیا جو میں نہ سن سکا تو بعد میں پیغام بھیجا۔ میں نے ان سے کہا کہ ڈیرے پر کیسے جاؤں، اس سے میری فورس کا مورال گر جائے گا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ احسن گجر کا کیا تعلق ہے؟ رضوان گوندل نے کہا کہ اس کی بیوی فرح خاتون اول کی دوست ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہی فرح ہیں جن کے گھر خاتون اول کا نکاح ہوا تھا۔ پھر کہا کہ خاور مانیکا اور احسن گجر کو فوری طور پر بلایا جائے۔ چیف جسٹس نے آئی جی کو ہدایت کی کہ باہر جا کر دونوں سے رابطہ کریں اس دوران ہٹائے گئے ڈی پی او اپنا بیان جاری رکھیں۔
رضوان گوندل نے بتایا کہ احسن گجر نے مجھ سے کہا کہ آپ بڑے پن کا ثبوت دے کر مانیکا کے پاس جائیں، ان کے دادا، پردادا بڑے لوگ تھے، اب سے نہیں بہت پہلے سے جاگیردار فیملی ہے، انگریز دور میں ڈی سی اور ڈی پی او ان کے ڈیرے پر جاتے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ وہ اتنی بڑی فیملی ہے تو ان کو کرٹسی دکھانا چاہیے اور میرے گھر آ جائیں اگر دفتر نہیں آتے۔ رضوان گوندل نے کہا کہ دونوں واقعات کے دوران پولیس اہلکاروں کو گالیاں دی گئیں۔ مانیکا نے پہلے واقعے کے بعد ایلیٹ فورس والوں کو کہا کہ ہم تمہیں اٹھا کر لے جائیں گے، اس نے ایلیٹ کمانڈر کو فون کیا اور کہا کہ تمہارے گھر والوں کو گاؤں سے اٹھا کر لے جائیں گے۔ ایلیٹ کمانڈر گھبرا گیا تھا مگر بعد میں اس نے مجھے بتا دیا۔
رضوان گوندل نے بتایا کہ 26 اگست کو رات گئے وزیر اعلی کے سیکرٹری کا دوبارہ فون آیا، کہا کہ وزیراعلی نے کہا ہے کہ آئی جی سے کہیں کہ گوندل کل صبح نو بجے دفتر میں نہ ہو۔ رضوان گوندل نے بتایا کہ اس فون کال میں دو افراد تھے، ایک سیکرٹری اور دوسرا وزیراعلی کا چیف سیکورٹی افسر۔ اس کے بعد ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر شہزادہ سلطان نے فون کیا اور کہا کہ آئی جی دفتر کے ساتھ ہیں، ڈی پی او کا دفتر چھوڑ دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حتمی طور پر یہ وزیراعلی کا حکم تھا کہ آپ صبح دفتر میں نہ ہوں۔ رضوان گوندل نے بتایا کہ سیکرٹری کا پھر فون آیا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نے چارج چھوڑ دیا ہے۔ رضوان گوندل نے کہا کہ میں نے اسے بتایا کہ گھر کا سامان پیک کر رہا ہوں جس پر اس نے کہا کہ وزیراعلی پوچھ رہے ہیں، میں نے تصدیق کے لئے فون کیا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ذرا آرٹیکل باسٹھ ون ایف (تا حیات نا اہلی) دکھائیں، کہاں کہاں لاگو ہو سکتا ہے۔ انہوں نے عدالت میں بیٹھے سینئر وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ کو معاون مقرر کر کے اس آرٹیکل کو دیکھ لیتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں دیانت دار اور امین اور سچا ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس کے لئے نہ سہی کسی اور وزیراعلی کے لئے کام آ جائے گا۔
اس کے بعد عدالت نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) ساہیوال کو موقف بتانے کے لئے روسٹرم پر بلایا۔ آر پی او شارق کمال نے بتایا کہ اسپیشل برانچ نے اطلاع دی تھی کہ پانچ چھ اگست کی درمیانی شب خاتون اول بننے والی ننگے پاؤں مزار پر جائیں گی اس کے لئے سیکورٹی ہونی چاہیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بننے والی خاتون اول کی بیٹی ہیں جو رات کو مزار پر پیدل جا رہی تھیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئی جی نے آپ کو وزیراعلی سے ملنے جانے سے منع نہیں کیا؟ آر پی او نے جواب دیا کہ نہیں کیا۔
آر پی او نے کہا کہ خاور مانیکا کو ناکے پر روکا لیکن وہ نہیں رکے، ان کی گاڑی کا تعاقب کر کے شناخت کی گئی اور یہ پولیس کا کام ہے۔ خاور مانیکا نے پولیس والوں کو برا بھلا کہا۔ آر پی او نے بتایا کہ وزیراعلی سے ملاقات اس بات پر ختم ہوئی کہ ڈی پی او اور مانیکا میں مزید بات چیت نہیں ہو سکتی اس لئے آپ مداخلت کریں۔
آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ڈی پی او سے کہا کہ آج چلے جائیں آئندہ نہیں جانا۔ یہ 24 اگست کا واقعہ ہے تبادلہ 26 اگست کو ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کیا قیامت آ گئی تھی کہ رات کو تبادلہ کر دیا۔ یہ آپ نے دباؤ کے تحت حکم مان کر تبادلہ کرایا، صوبے میں کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ پولیس کو ایسا حکم دے۔ کڑیاں مل رہی ہیں کہ وزیراعلٰی کے کہنے پر تبادلہ کیا گیا۔ کلیم امام نے کہا کہ میں سچ بول رہا ہوں، سید ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت سے واپس آئی جی کے طور پر نہیں جائیں گے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ کمانڈر ہیں کیا اس طرح کرنے سے پولیس فورس کا مورال ڈاؤن نہیں ہوگا۔
آئی جی نے کہا کہ 5 اگست کی رات مانیکا کی بیٹی سے بدتمیزی ہوئی، یہی وجہ ہے کہ مانیکا سمجھ رہا ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہ ڈی پی او سے کہہ رہے ہیں کہ تمہاری شکل صبح نہیں دیکھنا چاہتے، اس میں اتنی جلدی کیا تھی کہ رات کو ہی تبادلہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی اثر و رسوخ اور سیاسی ڈکٹیشن کا معاملہ ہے، کوئی غیر آدمی وزیراعلی کے پاس جا کر کیسے یہ کر سکتا ہے؟ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وزیراعلی کس قانون کے تحت کہہ سکتا ہے کہ فلاں سول سرونٹ کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا 5 اگست واقعہ پر خاور مانیکا نے تحریری درخواست دی تھی؟ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے ای میل کی تھی۔ چیف جسٹس نے آئی جی ایک بار پھر سخت سرزنش کی اور کہا کہ پورے بیان کے دوران آپ نے ایک ہی بات بار بار کی ہے اور اصل سوال کا جواب نہیں دے رہے کہ کس کے کہنے پر تبادلہ کیا اور رات کو کیوں کیا؟
انکوائری آفیسر ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش عدالت کو روسٹرم پر بلایا گیا تو انہوں نے واقعہ کی تفصیلات اپنے انداز میں پیش کیں۔ واقعہ کی انکوائری کرنے والے ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش نے بتایا کہ مانیکا فیملی چار بھائی ہیں۔ احمد رضا مانیکا، فاروق مانیکا، معظم مانیکا اور خاور مانیکا ہیں۔ بشری بی بی کی عمران خان سے شادی کے بعد چاروں بھائی کی آپس میں بول چال بند ہو چکی ہے۔ انکوائری افسر نے بتایا کہ جس رات وقوعہ ہوا مانیکا کی بیٹی مبشرہ شام سات آٹھ بجے اپنے گھر سے دربار کے لئے چلی تھی۔ سیکورٹی اور مداخلت سے منع کیا گیا تھا تاہم پولیس اہلکار کچھ فاصلے سے حفاظت کر رہے تھے، بعد میں پولیس ہی کی ایک پٹرولنگ ٹیم نے بدتمیزی کی۔ معلوم ہونے پر مقامی ایس ایچ او وہاں پہنچا اور انہی اہلکاروں نے معافی مانگی تو معاملہ رفع دفع ہوا۔ مانیکا بھی وہاں پہنچا تھا اور کچھ تلخی ہوئی تھی۔
چھ اگست کو ابراہیم نے ڈی پی او کے پاس آنا تھا۔ انکوائری افسر نے بتایا کہ ڈی پی او نے چھ اگست کو پیش آئے اس واقعے کی تفتیش نہ کی بلکہ 23 تاریخ تک مانیکا سے کوئی رابطہ ہی نہ کیا۔ آئی ایس آئی کے کرنل کے فون کے بعد ابراہیم مانیکا سے رابطہ کیا۔ ڈی پی او کی بھی غلطی ہے۔ پبلک سرونٹ کی انا نہیں ہوتی، اگر کوئی شکایت کرتا ہے تو اس کے گھر بھی جایا جا سکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ انا نہیں ہونا چاہیے مگر ریاست کی رٹ اہم ہے، وہ چانس ہی نہیں دینا چاہیے کہ کسی کے گھر جائیں تو وہ ایک گھنٹہ بٹھا کر انتظار کرائے۔ انکوائری افسر نے کہا کہ کچھ نتائج اخذ کیے اور کچھ معاملات میں حتمی نتائج اخذ نہیں کر سکا۔
رضوان گوندل نے کہا کہ حلفیہ کہتا ہوں کہ کسی نے نہیں بتایا کہ مانیکا کہ بیٹی سے 6 اگست کو بدتمیزی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ایک معمولی واقعہ میں وزیراعلی کہاں سے آ گیا؟ وزیراعلی کا یار کہاں سے آ گیا؟ آئی ایس آئی کا کرنل کہاں سے آ گیا؟ آئی جی نے کہا کہ وہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا ڈیٹ کمانڈر ہے۔
عدالت کو وقفے کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عاصم نواز چوہان نے بتایا کہ آئی ایس آئی کے کرنل طارق فیصل اس وقت لاہور میں اجلاس میں ہیں، وہ ہدایات لے کر اجلاس چھوڑ کر آ سکتے ہیں۔ احسن گجر کے گھر پر پولیس گئی ہے وہ موجود نہیں، ان کا فون بھی بند ہے۔ خاور مانیکا نے کہا کہ انہوں نے بیٹی کو اسکول سے لے کر آنا ہے۔ ابراہیم مانیکا نلتر گلگت میں ہیں۔
عدالت نے مذکورہ افراد اور وزیراعلی کے چیف سیکورٹی افسر، سیکرٹری اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر شہزادہ سلطان کو پیر تین ستمبر کو حاضر ہونے کی ہدایت کی۔ عدالت نے پیش ہونے والے پولیس افسران کو بیان حلفی جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آرٹیکل باسٹھ ون کے تحت نا اہلی کے فیصلے پڑھ کر آئیں۔ احسن گجر سے کہیں کہ عدالت نے بلایا ہے نہ آنے کے نتائج بھی بتا دیں۔
بشکریہ پاکستان 24