کل پاکستان اور ہندوستان کے وزرائے اعظم کے مابین ملاقات ٹھہری۔
ہمارے 'رہنما' نواز شریف نے نہ تو بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کی بات کی اور نہ ہی کشمیر کے دیرینہ معاملے کو حل کرنے کی۔
اسی لئے:
؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ميں نہيں سمجھ سکا کہ کس بنياد پر آپ امريکی حکومت کے ايک ايسے سرکاری بيان کو منفی انداز ميں ديکھ رہے ہيں جو پاکستان اور بھارت کے مابين تعلقات کو مستحکم کرنے کے ليے جاری کوششوں کی حمايت ميں ديا گيا تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں امريکی حکومت کو دو پڑوسی ممالک کے مابين بات چيت کے عمل پر ناراضگی کا اظہار يا اس کی مذمت کرنی چاہيے تھی؟
امريکی حکومت اس بات کو تسليم کرتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درميان ايسے بہت سے حل طلب معاملات موجود ہيں جو دونوں ممالک کے درميان تعلقات کی بحالی اور خطے کی مجموعی سيکورٹی اور استقامت کی راہ میں رکاوٹ ہيں۔ اگر آپ خبر کو پڑھيں تو آپ پر واضح ہو گا کہ امريکی حکومت نے صرف اس خواہش کو بيان کيا تھا کہ ہم خطے ميں اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے مابين سفارتی ذريعوں سے اختلافات کو دور کرنے اور امن کے حصول کے ليے ان مسائل کو حل ہوتا ديکھنا چاہتے ہيں جن کی بدولت دونوں ممالک کے ہزاروں افراد کئ دہائيوں کے دوران ہلاک ہو چکے ہيں۔
ميں اس بات سے انکار نہيں کر رہا کہ بہت سے پاکستانی پانی کی تقسیم اور کشمير سميت ديگر کئ معاملات پر شدید جذبات رکھتے ہیں۔ امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ ان ايشوز کے حل کے ليے باہم مذاکرات، مسلسل ڈائيلاگ اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابين سفارتی تعلقات ميں وسعت انتہائ ضروری ہے۔ امريکی حکومت دونوں ممالک کو ايسی شرائط اور جبری حل کے لیے زبردستی مجبور يا کنٹرول نہيں کر سکتی جسے دونوں ممالک کے عوام میں پذيرائ حاصل نہ ہو۔ ايسی کوئ بھی کوشش نہ صرف يہ کہ نقصان دہ ہو گی بلکہ اس سے کوئ پائیدار حل بھی حاصل نہيں کيا جا سکے گا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu