ناصر علی مرزا
معطل
آپ اس وقت جس سال میں جی رہے ہیں اسے 2014
کہا جاتا ہے۔
آئیں صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کرتے ہیں۔۔ اور فرض کرتے ہیں کہ یہ
2114
ہے۔
اب اس مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ آپ کہاں ہیں؟۔
آپ کی مال و دولت کہاں ہے؟۔
آپ کی نوکری کہاں ہے؟۔
آپ کی فیملی کہاں ہے؟۔
آپ کے عہدے، رسائیاں، عزت، شہرت کہاں ہے؟۔
دو ہزار تیرہ کی بجائے اکیس سو تیرہ تصور کرنے سے بلاشبہ اوپر والی چیزیں ہمیں ختم ہی دکھائی دیں گی۔
ہاں اگر نہیں ختم ہوگا تو وہ ہیں ہمارے اعمال۔ چاہے نیک اعمال ہوں یا برے اعمال۔
بالکل اسی طرح جس طرح
2014
میں یہی کچھ
1913, 1813, 1713
میں آب و تاب کے ساتھ جینے والے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کہاں گئے وہ سب؟۔ کہاں گیا ان کے زمانے کی بادشاہت و فقیری کا فرق؟۔ کہاں گئے عہدے، مال و دولت، عارضی شہرت، عزت وغیرہ؟۔
ہاں جس نے اچھے اعمال کئے۔ چاہے حقوق اللہ کے درجے میں ہوں یا حقوق العباد کے درجے میں، وہ امر ہوگیا۔
شیطان بہکاتا ہے کہ ہم یہاں پر بہتتتتتتتتت لمبے عرصے تک جینے کے لئے آئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مسافر ہیں۔ ہماری منزل کوئی اور ہے۔ ہم محض زاد راہ سمیٹنے آئے ہیں اپنی اگلی منزل کے لئے۔ جیسا زاد راہ ساتھ لے کے جائیں گے، ویسا ہی فائدہ یا نقصان ابدی منزل پر ہوگا۔ ہماری گاڑی بھی جلد یا بدیر آنے والی ہے۔ کسی بھی وقت قذاقِ اجل ہمیں ریسیو کرنے کے لئے ہارن بجا سکتا ہے۔ پھر ایک سیکنڈ بھی مہلت نہیں۔
دنیا کی محنت سے کس نے انکار کیا ہے، ضرور ہونی چاہئے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی محنت بقدر ضرورت ہو اور آخرت کی محنت بقدر مشقت۔
آخر کیوں؟۔
کیونکہ قیامت کا پہلا دن ہی ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اور دوسری طرف کہاں یہ چالیس ، پچاس، ساٹھ برس کی عارضی زندگی؟۔
اس موازنے کے بعد تو ہر صاحب عقل کو سمجھ جانا چاہئے کہ کس چیز کی کتنی محنت درکار ہے۔۔
اگر ہماری ساری کی ساری محنتیں اس فانی دنیا کے لئے ہی ہوں گی تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی ہمارے لئے پچھتاوے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم دنیا کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی کی تیاری بھی کرتے رہیں اور کم سے کم اپنے تمام فرائض کو ہی بروقت اور بخوبی انجام دیتے رہیں ، ان میں بہتری لاتے رہیں، کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی بھی ان شاءاللہ کامیابیوں کا سبب بنے گی۔ اللہ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
کہا جاتا ہے۔
آئیں صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کرتے ہیں۔۔ اور فرض کرتے ہیں کہ یہ
2114
ہے۔
اب اس مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ آپ کہاں ہیں؟۔
آپ کی مال و دولت کہاں ہے؟۔
آپ کی نوکری کہاں ہے؟۔
آپ کی فیملی کہاں ہے؟۔
آپ کے عہدے، رسائیاں، عزت، شہرت کہاں ہے؟۔
دو ہزار تیرہ کی بجائے اکیس سو تیرہ تصور کرنے سے بلاشبہ اوپر والی چیزیں ہمیں ختم ہی دکھائی دیں گی۔
ہاں اگر نہیں ختم ہوگا تو وہ ہیں ہمارے اعمال۔ چاہے نیک اعمال ہوں یا برے اعمال۔
بالکل اسی طرح جس طرح
2014
میں یہی کچھ
1913, 1813, 1713
میں آب و تاب کے ساتھ جینے والے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کہاں گئے وہ سب؟۔ کہاں گیا ان کے زمانے کی بادشاہت و فقیری کا فرق؟۔ کہاں گئے عہدے، مال و دولت، عارضی شہرت، عزت وغیرہ؟۔
ہاں جس نے اچھے اعمال کئے۔ چاہے حقوق اللہ کے درجے میں ہوں یا حقوق العباد کے درجے میں، وہ امر ہوگیا۔
شیطان بہکاتا ہے کہ ہم یہاں پر بہتتتتتتتتت لمبے عرصے تک جینے کے لئے آئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مسافر ہیں۔ ہماری منزل کوئی اور ہے۔ ہم محض زاد راہ سمیٹنے آئے ہیں اپنی اگلی منزل کے لئے۔ جیسا زاد راہ ساتھ لے کے جائیں گے، ویسا ہی فائدہ یا نقصان ابدی منزل پر ہوگا۔ ہماری گاڑی بھی جلد یا بدیر آنے والی ہے۔ کسی بھی وقت قذاقِ اجل ہمیں ریسیو کرنے کے لئے ہارن بجا سکتا ہے۔ پھر ایک سیکنڈ بھی مہلت نہیں۔
دنیا کی محنت سے کس نے انکار کیا ہے، ضرور ہونی چاہئے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی محنت بقدر ضرورت ہو اور آخرت کی محنت بقدر مشقت۔
آخر کیوں؟۔
کیونکہ قیامت کا پہلا دن ہی ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اور دوسری طرف کہاں یہ چالیس ، پچاس، ساٹھ برس کی عارضی زندگی؟۔
اس موازنے کے بعد تو ہر صاحب عقل کو سمجھ جانا چاہئے کہ کس چیز کی کتنی محنت درکار ہے۔۔
اگر ہماری ساری کی ساری محنتیں اس فانی دنیا کے لئے ہی ہوں گی تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی ہمارے لئے پچھتاوے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم دنیا کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی کی تیاری بھی کرتے رہیں اور کم سے کم اپنے تمام فرائض کو ہی بروقت اور بخوبی انجام دیتے رہیں ، ان میں بہتری لاتے رہیں، کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی بھی ان شاءاللہ کامیابیوں کا سبب بنے گی۔ اللہ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین