سر یہ لفظ۔’’ شطونگڑے۔‘‘ ہے یعنی شیطان کے بچے، چیلے یا ساتھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

الف عین

لائبریرین
روز و شب استعمال ہونے والی اموجیز کو شطونگڑے کہا جاتا ہے۔ شمشاد تو اسے ت سے ہی لکھتے تھے اور یہ معنی بھی ان سے سیکھے تھے
سر یہ لفظ۔’’ شطونگڑے۔‘‘ ہے یعنی شیطان کے بچے، چیلے یا ساتھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 
ڈھیر ساری باتوں اور یادوں میں یہ قصہ بھی ابھی ذہن میں تازہ ہے ۔طالب علمی کا زمانہ تھا۔ایک طرف قطار سے کلاس روم تھے اور کونے میں شعبہ ٔ اُردُو کی لائبریری تھی ۔میرامّن کی ’’باغ وبہار‘‘میں دہلی کی معاشرت کی زندہ تصویریں کے عنوان سے لیکچر سُن کر فارغ ہوئے تھے اور برآمدے میں کچھ کھڑے اور کچھ بیٹھے طلبا اپنی اپنی ہانک رہے تھے۔اخترالایمان اُن دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے ہمارے ایک محبوب پروفیسر سے اُن کی قرابت کچھ زیادہ گہری تھی اِس لیے جب تک وہ پاکستان میں رہے روز اُنہی کے ساتھ تشریف لاتے ۔ ایک دن پروفیسر صاحب اُن کے بغیر آتےدکھائی دئیے(حالانکہ اختر صاحب ابھی پاکستان ہی میں تھے)تو ایک دوسرے پروفیسر صاحب نے جملہ اُچھالا۔’’آج اختر کو کہاں چھوڑ آئے ؟‘‘لہجے کا تیکھاپن ہم طلباسے بھی چھپا نہ رہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے محبوب پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:’’آپ کے اعصاب پر سوا رچھوڑ آئے ۔‘‘​
 
آخری تدوین:
دارالعلوم کی سی حیثیت ہے ہماری اُردُو ویب گاہوں کی اور نصاب کا سا درجہ رکھتی ہیں ہماری عبارتیں اور تحریریں جو ہم بات چیت کے نام پر لکھتے ہیں۔۔۔۔​
 

سیما علی

لائبریرین
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
ثمرین سے بھی پوچھ لیں کیونکہ آجکل صرف وہ
شکیل احمد خان23
بھیا سے بات کرتیں ہیں !
 
ٹیوشن تونہیں پڑھارہا البتہ ثمرین سے یہ کہتا رہتا ہوں کہ جب بھی وقت ملے اور جتنا بھی وقت ملے اُردُو کی خالص ادبی کتابیں پڑھو ۔تم اُن کتابوں سے بات کرنے کے شائستہ اندازسیکھ جاؤ گی اور تمھیں اچھا لکھنا بھی آجائیگا لہٰذا پڑھو اور خوب پڑھو۔۔۔۔۔۔۔گھر میں اور اور چیزوں کے استعمال میں نظمِ اوقات اور ترتیب و احتیاط کی ہدایت ضرور ہے مگروہ جو ایک چھوٹی سی لائبریری نما الماری ہے ،لکھنے پڑھنے کی میز ہے ،پنسلیں ، پین اور قلم ہیں اُن کے استعمال پر کسی طرح کی روک ٹوک نہیں ہے اور اُن چیزوں سےکس محبت اور احترام سے پیش آنا ہے ۔۔۔یہ تووہ خود بھی جانتی ہے۔​
 
تسلّی بھی دیتا رہتا ہوں کہ خدا کسی کی محنت رائگاں نہیں کرتااورتلقین بھی کرتا ہوں کہ علم وہنر کی تحصیل پھر حفاظت اور فروغ میں پیش پیش رہنا ۔دامے ،درمے ، قدمے ،سخنے ہی نہیں فورمے بھی اِس کی ترویج میں حصہ بقدرِ جُثّہ ڈالتی رہنا۔وہ مجھ سے فورمے کا مطلب پوچھتی ہے تو بتاتاہوں ایک فورم جس پر پڑھے لکھے ،ہوشمند اور صاحبِ رائے جمع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔​
 

سیما علی

لائبریرین
تسلّی بھی دیتا رہتا ہوں کہ خدا کسی کی محنت رائگاں نہیں کرتااورتلقین بھی کرتا ہوں کہ علم وہنر کی تحصیل پھر حفاظت اور فروغ میں پیش پیش رہنا ۔دامے ،درمے ، قدمے ،سخنے ہی نہیں فورمے بھی اِس کی ترویج میں حصہ بقدرِ جُثّہ ڈالتی رہنا۔وہ مجھ سے فورمے کا مطلب پوچھتی ہے تو بتاتاہوں ایک فورم جس پر پڑھے لکھے ،ہوشمند اور صاحبِ رائے جمع ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔​
پھر ہم ایک اچھی نثر نگار دیکھ سکیں گے اُردو محفل میں
 

سیما علی

لائبریرین
گھر میں اور اور چیزوں کے استعمال میں نظمِ اوقات اور ترتیب و احتیاط کی ہدایت ضرور ہے مگروہ جو ایک چھوٹی سی لائبریری نما الماری ہے ،لکھنے پڑھنے کی میز ہے ،پنسلیں ، پین اور قلم ہیں اُن کے استعمال پر کسی طرح کی روک ٹوک نہیں ہے اور اُن چیزوں سےکس محبت اور احترام سے پیش آنا ہے ۔۔۔یہ تووہ خود بھی جانتی ہے۔
بالکل آپ نے سچ کہا پرپرہم نے کم پڑھے لکھے میں بھی کبھی کبھی بہت زیادہ سلیقہ دیکھا ہے اور ترتیب و احتیاط بھی
اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والوں کو انتہائی بد سلیقہ و بد لحاظ دیکھا ہے ۔۔۔
 
ان شاء اللہ ! بالضرور، مگر یہ مجموعہ ٔ نثر بھی جویہاں پہنچ رہا ہے کیا ثمرین کی گل افشانیوں کےسہانے دن کی ایک خوبصورت صبح یعنی اچھاآغاز نہیں؟بھئی آپا جی !۔۔۔۔ پُوت کے پاؤں تو پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ان شاء اللہ ! بالضرور، مگر یہ مجموعہ ٔ نثر بھی جویہاں پہنچ رہا ہے کیا ثمرین کی گل افشانیوں کےسہانے دن کی ایک خوبصورت صبح یعنی اچھاآغاز نہیں؟بھئی آپا جی !۔۔۔۔ پُوت کے پاؤں تو پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ بات تو سچ کہی شکیل بھیا
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور ثمر ین بٹیا کو فارسی کیا
 
’’وہم ہے یا حقیقت ہفتہ بھرسے گُل بی بی نظر نہیں آئیں۔‘‘میں نے ثمرین سے کہا۔’’جی ہاں آج کل وہ کم ہی دکھائی دے رہی ہیں،ورنہ سورقعات فی گھنٹہ کی رفتا ر سے قلم اُنہی کا چلتے دیکھا ہے۔‘‘ثمرین بولی۔ ’’مگر اِس وقت تو بی بی کاایک مراسلہ فی ہفتہ لکھنے کا اوسط بھی نہیں رہا۔‘‘میں نے کہا۔پھر ثمرین بولی :بات یہ ہے کہ انسان تنوع پسند اور تغیرکا دل دادہ ہے ، اِسے یکسانیت سے چِڑ اور ایک ہی طرح کے حالات سے سدا کا بیررہا ہے ۔دنیا میں نت نئی چیزیں اور نوع بنوع سامان آدمی کی تبدیلی پسند طبیعت کے ہی ثمرات ہیں۔بس اللہ تعالیٰ ہماری گل بی بی کو تندرست ، خوش باش اور ہنستا کھیلتا رکھے،کچھ عجب نہیں مراسلات لکھنے کی سابقہ رفتار کے ساتھ کسی وقت اچانک ہی نظر آجائیں یہ شعرپڑھتے ہوئے:کودا یوں تیرے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہوگا، جو کام کیا ہم نے وہ رُستم سے نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔‘‘​
 
Top