۔۔مرے ساتھ چل

ثامر شعور

محفلین
سبھی راستے تو ہیں اجنبی مرے آشنا مرے ساتھ چل
مجھے اور اب نہیں آزما مرے ہمنوا مرے ساتھ چل

جو مجھے ملیں رہ زیست میں سبھی دکھ رتوں کے ملال سن
ترے درد کی جو بھی داستاں تو مجھے سنا مرے ساتھ چل

یہ جو چاہتوں کی بہار ہے اسے مت خزاں کے سپرد کر
کبھی سن بھی لے مری التجا مرے ساتھ آ مرے ساتھ چل

تری خواہشوں تری حسرتوں کو سمیٹنا کہاں بس میں ہے
مرے حال پر تو بھی رحم کھا دل نارسا مرے ساتھ چل

کہاں تجھ سے میرا سوال ہے مرے راستوں کو گلاب کر
مجھے آبلے بھی قبول ہیں دو قدم ذرا مرے ساتھ چل

یہ جدائیوں کے ہیں راستے یہاں ہرقدم پہ ہی موڑ ہے
ابھی وقت ہے مرے ہمسفر ابھی لوٹ آ مرے ساتھ چل

مرے ہاتھ میں ترا ہاتھ ہو کٹے عمر پھر اسی حال میں
یہی آرزو کی ہے ابتدا یہی انتہا مرے ساتھ چل
ثامر شعور
 

ابن رضا

لائبریرین
بڑی خوب تر ہے یہ شاعری ، جسے پڑھ کہ دل بڑا خوش ہوا
ہو سکے جو دوست اگر مجھے بھی یہ گُر سکھا مرے ساتھ چل

یہ زمین جو چُنی آپ نے یہ تو آپ اپنی مثال ہے
کہاں سے لیا ہے خمیر یہ تو مجھے دکھا مرے ساتھ چل

بہت عمدہ ثامر شعور صاحب۔ داد قبول کریں
 
آخری تدوین:
Top