۔۔۔۔اور اِس خرابے کو اُجڑا دیار کہتے تھے(غزل۔۔۔۔شکیل احمد خان)

غزل
کہاں گئے جنھیں ہم یارِ غار کہتے تھے
وہی کہ جو ہمیں دل کا قرار کہتے تھے

بدل نہ جانا کہیں تم بدلتے وقت کے ساتھ
جفا سے پہلے وہ یہ بار بار کہتے تھے

میں رونا روؤں اب اُس کا یا خود اُسے روؤں
مرا وہ دل جسے باغ و بہار کہتے تھے

تھے کانٹے جوشِ بہاراں سے شاخِ گل پر وا
اُنہیں بھی حسن کا ہم شاہکار کہتے تھے

ترے فراق میں ویران دل کی دنیا تھی
اور اِس خرابے کو اُجڑا دیار کہتے تھے

گزر رہی ہے بڑے ضبط سے شکیل اپنی
حیات، آپ جسے اضطرار کہتے تھے
 
آخری تدوین:
Top