anwarjamal
محفلین
یہ ایک ٹیکسٹائل مل ھے اور میں کوالٹی چيکر ہوں ،، اس دن میں اپنی میز پر سر جھکائے کچھ لکھ رہا تھا جب مجھے کسی کے آنے کا احساس ہوا ،، میں نے سر اٹھا کر دیکھا وہ ڈرابکس کھاتے کا سپروائزر تھا ، فیکٹری میں نئے بھرتی کیئے گئے لڑکوں میں سے ایک لڑکا اس کے ساتھ تھا ،، اور وہ لڑکا ،،،
میں نے اپنا پین میز پر رکھ دیا ،، اور ایک مسلسل ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگا ،، کیا پوری دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکا کہیں ہو سکتا ھے ،،؟ میں نے خود سے سوال کیا اور خود ہی جواب دیا کہ نہیں ہو سکتا ،،
سپر وائزر کے ساتھ آنے والا لڑکا جو محض تیرہ یا چودہ سال کا ہو گا انتہائی حسین و جمیل تھا ،،
سپر وائزر نے اس کی فائل مانگی ،، میں نے نام پوچھا ،، شہزاد نام بتایا گیا ،،
صرف نام سن کر ہی میں سمجھ گيا کہ معاملہ کیا ھے ،، اس لڑکے کی پروڈکشن معیار سے کم اور ناقص تھی ،،
سپروائزر نے فائل اسے دکھائی اور ڈانٹنا شروع کر دیا ،،ایسے کام کرتے ہیں ،، اتنا مال خراب کردیا ھے تم نے اس کا ذمہ دار کون ھے ،،
شہزاد سر جھکا کر اپنے ہونٹ کاٹنے لگا ،، اس کی یہ ادا تو اور بھی قاتلانہ تھی ،،
جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے اپنا پین اٹھایا مگر اس سے پہلے کہ کچھ اندراج کرتا ، ایک آواز آئی
،،کیا چيز ھے یار ،،
اور تب مجھے یاد آیا کہ دفتر میں میں اکیلا نہیں میرے تین ساتھی اور ہمارے انچارج جناب رزاق صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں ،،
پہلی بار مجھے رزاق صاحب پر حیرت ہوئی ،،، وہ اس قسم کے آدمی نہیں تھے ،، لیکن وہ جملہ بیساختہ انہی کی زبان سے ادا ہوا تھا ،،
دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو رزاق صاحب جو انچارج ہونے کے علاوہ میرے بہت اچھے دوست بھی تھے رازداری سے کہنے لگے ،یار پہلوان ؛ میرے ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ مجھے پہلوان کہتے تھے ،،
یار پتہ کرو وہ لڑکا کہاں سے آیا ھے ،، ؟اس کا گھر کہاں ھے ؟ اور اتنی کم عمری میں ہی وہ فیکٹری لائن میں کیوں آگیا ،، تمہیں تو پتہ ہی ھے کہ اس فیکٹری کا ماحول کیسا ھے ،، میں اسے کسی کے ہاتھ لگنے نہیں دوں گا ،،،
قریب تین بجے میں ڈرابکس سیکشن میں گیا ،، میں کوالٹی چيکر تھا اس لیئے کسی بھی وقت کسی بھی شخص کی مشین پر جاکے کھڑا ہو سکتا تھا ،،
میں نے شہزاد کو دیکھا وہ اپنی مشین پر پھرتی سے کام کر رہا تھا ،، میں اس کے پاس گیا ،،اور مشفقانہ لہجے میں کلام کرتے ہوئے کہا ،، بیٹا بہت دھیان سے کام کرنا ،،، مال خراب کرو گے تو ہماری کھنچائی ہو جائے گی ،، جنرل منیجر بڑا سخت آدمی ھے ،،
پھر میں نے اس سے کچھ ذاتی سوال کیئے ،،، جن کے جواب پاکر مجھے بڑا ترس آیا اور ایکبار یہ بھی دل چاہا کہ اسے گلے سے لگا لوں ،،، اور خوب پیار کروں ،،
بیچارہ بہت ہی غریب گھرانے کا سپوت ھے ،، اگلی صبح میں نے رزاق صاحب کو معلومات فراہم کیں ،، وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ھے ،، کسی بھی فیکٹری میں کام کرنا اس کی مجبوری ھے کیونکہ اس کا باپ انہیں چھوڑ کر بغیر بتائے کہیں چلا گيا ھے ،،،
رزاق صاحب نے انتہائی افسوس سے سر ہلایا اور کہا کہ آج کسی بہانے سے میں اسے یہاں لے کر آؤں ،، یعنی ہمارے دفتر میں ،،
میں نے ہاف ٹائم پر اسے ڈھونڈا ، وہ کینٹین میں کھانا کھا رہا تھا ،،
بیٹا ، جلدی سے کھانا کھا لو ، آپ کو رزاق صاحب بلا رھے ہیں ،،
میں نے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا ، مگر وہ سہم گیا ،، اور خوفزدہ ہو کر مجھے دیکھنے لگا ،،
اف ،،، کتنا معصوم چہرہ تھا اس کا ،، اور کتنی پیاری آنکھیں تھیں ،،
کیا میں اس کے دل میں جگہ بنا سکوں گا ،،؟ میں نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی خواب دیا کہ ،، ہرگز نہیں ،،
بیٹا ڈرنے والی کوئی بات نہیں وہ تمہیں ڈانٹیں گے نہیں ، بس ایسے ہی بلا رھے ہیں ،، میں نے اسے تسلی دی ،،
وہ کھانا کھا کر میرے ساتھ ہو لیا ،،
ادھر رزاق صاحب بے چینی سے اس کا انتظار کر رھے تھے .
جاری ھے ،،
میں نے اپنا پین میز پر رکھ دیا ،، اور ایک مسلسل ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگا ،، کیا پوری دنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکا کہیں ہو سکتا ھے ،،؟ میں نے خود سے سوال کیا اور خود ہی جواب دیا کہ نہیں ہو سکتا ،،
سپر وائزر کے ساتھ آنے والا لڑکا جو محض تیرہ یا چودہ سال کا ہو گا انتہائی حسین و جمیل تھا ،،
سپر وائزر نے اس کی فائل مانگی ،، میں نے نام پوچھا ،، شہزاد نام بتایا گیا ،،
صرف نام سن کر ہی میں سمجھ گيا کہ معاملہ کیا ھے ،، اس لڑکے کی پروڈکشن معیار سے کم اور ناقص تھی ،،
سپروائزر نے فائل اسے دکھائی اور ڈانٹنا شروع کر دیا ،،ایسے کام کرتے ہیں ،، اتنا مال خراب کردیا ھے تم نے اس کا ذمہ دار کون ھے ،،
شہزاد سر جھکا کر اپنے ہونٹ کاٹنے لگا ،، اس کی یہ ادا تو اور بھی قاتلانہ تھی ،،
جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے اپنا پین اٹھایا مگر اس سے پہلے کہ کچھ اندراج کرتا ، ایک آواز آئی
،،کیا چيز ھے یار ،،
اور تب مجھے یاد آیا کہ دفتر میں میں اکیلا نہیں میرے تین ساتھی اور ہمارے انچارج جناب رزاق صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں ،،
پہلی بار مجھے رزاق صاحب پر حیرت ہوئی ،،، وہ اس قسم کے آدمی نہیں تھے ،، لیکن وہ جملہ بیساختہ انہی کی زبان سے ادا ہوا تھا ،،
دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو رزاق صاحب جو انچارج ہونے کے علاوہ میرے بہت اچھے دوست بھی تھے رازداری سے کہنے لگے ،یار پہلوان ؛ میرے ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ مجھے پہلوان کہتے تھے ،،
یار پتہ کرو وہ لڑکا کہاں سے آیا ھے ،، ؟اس کا گھر کہاں ھے ؟ اور اتنی کم عمری میں ہی وہ فیکٹری لائن میں کیوں آگیا ،، تمہیں تو پتہ ہی ھے کہ اس فیکٹری کا ماحول کیسا ھے ،، میں اسے کسی کے ہاتھ لگنے نہیں دوں گا ،،،
قریب تین بجے میں ڈرابکس سیکشن میں گیا ،، میں کوالٹی چيکر تھا اس لیئے کسی بھی وقت کسی بھی شخص کی مشین پر جاکے کھڑا ہو سکتا تھا ،،
میں نے شہزاد کو دیکھا وہ اپنی مشین پر پھرتی سے کام کر رہا تھا ،، میں اس کے پاس گیا ،،اور مشفقانہ لہجے میں کلام کرتے ہوئے کہا ،، بیٹا بہت دھیان سے کام کرنا ،،، مال خراب کرو گے تو ہماری کھنچائی ہو جائے گی ،، جنرل منیجر بڑا سخت آدمی ھے ،،
پھر میں نے اس سے کچھ ذاتی سوال کیئے ،،، جن کے جواب پاکر مجھے بڑا ترس آیا اور ایکبار یہ بھی دل چاہا کہ اسے گلے سے لگا لوں ،،، اور خوب پیار کروں ،،
بیچارہ بہت ہی غریب گھرانے کا سپوت ھے ،، اگلی صبح میں نے رزاق صاحب کو معلومات فراہم کیں ،، وہ اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ھے ،، کسی بھی فیکٹری میں کام کرنا اس کی مجبوری ھے کیونکہ اس کا باپ انہیں چھوڑ کر بغیر بتائے کہیں چلا گيا ھے ،،،
رزاق صاحب نے انتہائی افسوس سے سر ہلایا اور کہا کہ آج کسی بہانے سے میں اسے یہاں لے کر آؤں ،، یعنی ہمارے دفتر میں ،،
میں نے ہاف ٹائم پر اسے ڈھونڈا ، وہ کینٹین میں کھانا کھا رہا تھا ،،
بیٹا ، جلدی سے کھانا کھا لو ، آپ کو رزاق صاحب بلا رھے ہیں ،،
میں نے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا ، مگر وہ سہم گیا ،، اور خوفزدہ ہو کر مجھے دیکھنے لگا ،،
اف ،،، کتنا معصوم چہرہ تھا اس کا ،، اور کتنی پیاری آنکھیں تھیں ،،
کیا میں اس کے دل میں جگہ بنا سکوں گا ،،؟ میں نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی خواب دیا کہ ،، ہرگز نہیں ،،
بیٹا ڈرنے والی کوئی بات نہیں وہ تمہیں ڈانٹیں گے نہیں ، بس ایسے ہی بلا رھے ہیں ،، میں نے اسے تسلی دی ،،
وہ کھانا کھا کر میرے ساتھ ہو لیا ،،
ادھر رزاق صاحب بے چینی سے اس کا انتظار کر رھے تھے .
جاری ھے ،،