رحمت اللہ شیخ
محفلین
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ عام الفیل کے چند سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ ؓ کا نام عبد اللہ تھا اور ابوبکر آپ کی کنیت تھی۔ صدیق اورعتیق آپ ؓ کے القاب ہیں۔ آپ کے والد کا نام ابوقحافہ عثمان بن عامر ؓ تھا۔ آپ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر تھا جو امّ الخیر کے نام سے مشہور تھیں۔ آپؓ کا نسب نبی کریم ﷺ کے ساتھ چھٹی پشت میں مرہ بن کعب سے جا ملتا ہے۔ اسلام لانے سے پہلے حضرت ابوبکر کا نام عبدالکعبۃ تھا ۔قبل از اسلام بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ عرب کے نزدیک قابلِ عزت شخصیت تھے۔ آپ ؓ قریش کے ممتاز و معزز سرداروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ آپ ؓ انساب اور اخبار کے بڑے عالم تھے۔ علمِ انساب کے فن میں ماہر سیدنا عقیل بن ابی طالب ؓ کا شمار بھی آپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔اسی وجہ آپ کو اہلِ عرب کا بہترین نساب ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اہلِ عرب آپ کی تجارت، آپ کے علم، آپ کی مہمان نوازی، آپ کے اخلاق اور جذبہ احسان کی بنیاد پر آپ ؓ سے محبت کرتے تھے۔ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کو کفار کے قبیح افعال سے محفوظ رکھا تھا۔ اسلام لانے سے پہلے بھی آپ ؓ نے اپنی زندگی میں کبھی بت پرستی کی اور نہ ہی کبھی شراب پیا۔
حضرت ابوبکر ؓ خود مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد دوسروں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ جس کے نتیجے میں حضرت زبیر بن عوام، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن الجراح،عبدالرحمان بن عوف، ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنھم جیسے عظیم لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت ابوبکر ؓ قبل از اسلام بھی سخی تھےاور اسلام لانے کے بعد بھی آپؓ اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنا مال خرچ کرتے تھے۔ آپ ؓ جب بھی کسی ایسے غلام کے پاس سے گزرتے تھے جس کو تکلیف جارہی ہوتی تھی تو آپ ؓ خالص اللہ کی رضا کے لیے اس کو خرید کرتے تھے اور پھر اسے آزاد کردیتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کو بھی حضرت ابوبکر ؓ نے امیہ بن خلف سے خریدا تھا۔ کتبِ سیر و تاریخ میں ایسے سات غلاموں کے نام ملتے ہیں جن کو حضرت ابوبکر ؓ نے خرید کے آزاد کیا تھا۔ جن میں بلال، عامر بن فہیرہ،ام عُبیس، زنیرہ، نہدیہ اور اس کی بیٹی اور بنو مؤمل قبیلے کی ایک باندی شامل ہیں۔
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ وہ واحد صحابی ہیں جن کے پورے خاندان کو مسلمان ہونے کاشرف حاصل ہوا۔ آپ ؓ کے والد اور آپ ؓ کی اولاد اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔ جب کفارِ مکہ نے آپ ﷺ کے معراج کی مخالفت کی تو صدیق اکبر نے بغیر کسی سوال کے آپ ﷺ کی تصدیق فرمائی۔ جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کو صدیق کا لقب دیا۔ حضرت علی ؓ اس بات پر قسم اٹھاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے لیے صدیق نام آسمان سے اتارا ہے۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا:"جو نماز پڑھے گا اسے جنت کے دروازوں میں سے باب الصلوٰۃ سے بلایا جائے گا، جو جہاد کرے گا اسے باب الجہاد سے، جو روزہ رکھے گا اسے باب الرّیّان سے اور جو صدقہ دے گا اسے باب الصدقۃ سے بلایا جائے گا۔" حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا : "اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا شخص ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم ان میں سے ہوگے۔"
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صدیق اکبرؓ انبیاء کرام ؑکے بعد تمام انسانوں میں سے اعلیٰ و افضل ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا کہ ابوبکر کے مال نے دیا ہے۔ زبانِ نبوت سے صدیق اکبر کے لیے ایسے الفاظ ان کی خوش بختی اور سخاوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہجرت والی رات کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ رات میرے پورے خاندان سے زیادہ بہتر ہے۔ جمع القرآن جیسے عظیم امر کا آغاز بھی حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ہوا۔ وفاتِ نبی علیہ السلام کے بعد انتہائی سخت حالات تھے۔ ایک طرف منافق تھے تو دوسری طرف عرب کے مرتد۔ ایسے حالات میں جب امت اضطراب اور سخت آزمائش میں مبتلا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓکے ذریعے امت کو ثابت قدم رکھا۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق ؓ عطا فرما کر ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم ہلاک ہوجاتے۔
بالآخر مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، رفیقِ پیغمبر، یارِ غار و مزار، محسنِ اسلام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 22 جمادی الآخر سنہ 13 ھ کو 63 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ ؓکی خلافت کی مدت دوسال، تین ماہ اور دس دن تھی۔ آپ ؓ نے وصیت کی کہ مجھے دو کپڑے پہنے ہوئے ہیں لہٰذا صرف ایک نیا کپڑا خرید کر کفن دیا جائے کیونکہ مردوں سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو ہے۔ حضرت عمر، عثمان، طلحہ اور آپ کے بیٹے حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنھم نے آپ کو قبر میں اتارا۔ آپ ؓ کے بعد سیدنا عمر فاروق ؓ مسلمانوں کے خلیفہ مقرر ہوئے۔
پروانے کو چراغ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
حضرت ابوبکر ؓ خود مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد دوسروں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ جس کے نتیجے میں حضرت زبیر بن عوام، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن الجراح،عبدالرحمان بن عوف، ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنھم جیسے عظیم لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔حضرت ابوبکر ؓ قبل از اسلام بھی سخی تھےاور اسلام لانے کے بعد بھی آپؓ اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنا مال خرچ کرتے تھے۔ آپ ؓ جب بھی کسی ایسے غلام کے پاس سے گزرتے تھے جس کو تکلیف جارہی ہوتی تھی تو آپ ؓ خالص اللہ کی رضا کے لیے اس کو خرید کرتے تھے اور پھر اسے آزاد کردیتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کو بھی حضرت ابوبکر ؓ نے امیہ بن خلف سے خریدا تھا۔ کتبِ سیر و تاریخ میں ایسے سات غلاموں کے نام ملتے ہیں جن کو حضرت ابوبکر ؓ نے خرید کے آزاد کیا تھا۔ جن میں بلال، عامر بن فہیرہ،ام عُبیس، زنیرہ، نہدیہ اور اس کی بیٹی اور بنو مؤمل قبیلے کی ایک باندی شامل ہیں۔
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ وہ واحد صحابی ہیں جن کے پورے خاندان کو مسلمان ہونے کاشرف حاصل ہوا۔ آپ ؓ کے والد اور آپ ؓ کی اولاد اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔ جب کفارِ مکہ نے آپ ﷺ کے معراج کی مخالفت کی تو صدیق اکبر نے بغیر کسی سوال کے آپ ﷺ کی تصدیق فرمائی۔ جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کو صدیق کا لقب دیا۔ حضرت علی ؓ اس بات پر قسم اٹھاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے لیے صدیق نام آسمان سے اتارا ہے۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا:"جو نماز پڑھے گا اسے جنت کے دروازوں میں سے باب الصلوٰۃ سے بلایا جائے گا، جو جہاد کرے گا اسے باب الجہاد سے، جو روزہ رکھے گا اسے باب الرّیّان سے اور جو صدقہ دے گا اسے باب الصدقۃ سے بلایا جائے گا۔" حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا : "اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا شخص ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم ان میں سے ہوگے۔"
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صدیق اکبرؓ انبیاء کرام ؑکے بعد تمام انسانوں میں سے اعلیٰ و افضل ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا جتنا کہ ابوبکر کے مال نے دیا ہے۔ زبانِ نبوت سے صدیق اکبر کے لیے ایسے الفاظ ان کی خوش بختی اور سخاوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہجرت والی رات کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ رات میرے پورے خاندان سے زیادہ بہتر ہے۔ جمع القرآن جیسے عظیم امر کا آغاز بھی حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ہوا۔ وفاتِ نبی علیہ السلام کے بعد انتہائی سخت حالات تھے۔ ایک طرف منافق تھے تو دوسری طرف عرب کے مرتد۔ ایسے حالات میں جب امت اضطراب اور سخت آزمائش میں مبتلا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓکے ذریعے امت کو ثابت قدم رکھا۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق ؓ عطا فرما کر ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم ہلاک ہوجاتے۔
بالآخر مسلمانوں کے پہلے خلیفہ، رفیقِ پیغمبر، یارِ غار و مزار، محسنِ اسلام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ 22 جمادی الآخر سنہ 13 ھ کو 63 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ آپ ؓکی خلافت کی مدت دوسال، تین ماہ اور دس دن تھی۔ آپ ؓ نے وصیت کی کہ مجھے دو کپڑے پہنے ہوئے ہیں لہٰذا صرف ایک نیا کپڑا خرید کر کفن دیا جائے کیونکہ مردوں سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو ہے۔ حضرت عمر، عثمان، طلحہ اور آپ کے بیٹے حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنھم نے آپ کو قبر میں اتارا۔ آپ ؓ کے بعد سیدنا عمر فاروق ؓ مسلمانوں کے خلیفہ مقرر ہوئے۔
پروانے کو چراغ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس