اور ہم نے یہ فلم دیکھ لی۔
ٹریلر کی مانند فلم میں بھی تقریباً تمام مناظر — شمالی علاقہجات، وہاں کا ایک گاؤں، پہاڑی سلسلے، اور جنگل وغیرہ — شاندار تھے۔ اینیمیشن بھی ٹھیک تھی (کچھ جگہوں پر کرداروں کے منہ کی حرکات ان کے مکالموں کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے عجیب محسوس ہوئیں، لیکن انہیں نظر انداز کیا جا سکتا تھا)۔
کہانی دلچسپ تھی: ایک چھوٹا سا لڑکا، اللہ یار، ایک حادثے کے بعد ایک کمسن مارخور، مہرو، کو اس کے گھر (’سیاہ کوہ‘) تک پہنچانے کا ذمہ لیتا ہے تاکہ ایک سفّاک شکاری، مانی، کے بارے میں مہرو کے قبیلے کو خبردار کیا جا سکے۔ راستے میں دو مزید کردار — ہیرو نامی ایک چکور، اورچکُّو (چقُّو؟) نامی ایک کمسن برفانی چیتا — بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ تمام کرداروں کی آپس میں نوک جھونک مزیدار تھی، لیکن کہانی کا کلائمکس تھوڑا کمزور لگا۔
فلم میں موجود مزاح کچھ جگہوں پر شاندار تھا (ہیرو کی اکثر لائنز پر تھیٹر قہقہوں سے گونجتا رہا)، لیکن کچھ اور جگہوں پر موجود
toilet humor پسند نہیں آیا۔
فلم کے کچھ تبصروں میں مَیں نے پڑھا کہ مکالموں میں جو اردو زبان استعمال کی گئی، وہ بچوں کے لیے سمجھنا کچھ مشکل ثابت ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں تو کچھ جگہوں پر اردو مزید بہتر ہو سکتی تھی، لیکن ان چند جگہوں سے قطع نظر، پاکستان میں بچوں کے لیے تخلیق کیا جانے والا اردو میڈیا پہلے ہی بہت کم ہے، سو اس معاملے میں فلم کے خالقین کی کاوش قابلِ تحسین ہے۔ (اگر کچھ الفاظ بچوں کی سمجھ میں نہیں آتے، تب بھی کم از کم وہ اپنے والدین یا بڑے بہن بھائیوں سے ان کے معانی تو پوچھ سکتے ہیں۔)
یہ بات بھی پسند آئی کہ فلم میں بچوں کے سیکھنے کے لیے اچھے اسباق موجود ہیں: جنگلی حیات کا تحفظ، استاد کا احترام، کسی سے تعصب نہ رکھنا، وغیرہ۔
سو ’اللہیار اینڈ دا لیجنڈ آف مارخور‘ میں خامیاں تو ہیں، لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی فلم ہے۔
اب ’تھرڈ ورلڈ سٹوڈیوز‘ کی اگلی کاوِش کا انتظار رہے گا۔