امجد میانداد
محفلین
پاکستان عوامی تحریک کا ’انقلاب مارچ‘ طویل ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر کرائے پر لائے جانے والے افراد اب اپنے گھروں کو جانے کے منتظر ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اُنھیں گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ایسے ہی سینکڑوں افراد میں بہاولپور کا رہائشی نوید بھی شامل ہے۔
اس لڑکے کا نام تو کچھ اور ہے تاہم اُس کی سکیورٹی کے لیے اسے نوید کے ایک فرضی نام سے لکھا جا رہا ہے۔
نوید کا کہنا تھا کہ وہ بہاولپور کے قریب ایک گاؤں ٹامے والی کا رہائشی ہے اور دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔
اُس لڑکے کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیدار تنویر عباسی نے اُن کے گھر والوں کو بتایا کہ اُن کا بیٹا انقلاب مارچ میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہا ہے اور وہ تین روز کے بعد واپس آجائے گا۔
نوید کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیداروں نے اُن کے گھر والوں کو چھ ہزار روپے بھی دیے جو اُنھوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ اُس نے کہا کہ اس کے علاقے اور قریبی گاؤں سے 300 کے قریب زیر تعلیم نو عمر لڑکوں کو انہی شرائط پر اسلام آباد لایا گیا ہے۔
اس لڑکے کا کہنا تھا کہ 20، 20 لڑکوں پر مشتمل بٹالین بنائی گئی ہیں اور ہر بٹالین کا انچارج روزانہ انقلاب مارچ کی انتظامیہ کو لڑکوں کی حاضری کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔
نوید کا کہنا تھا کہ جو لڑکے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں اُنھیں بھی اپنے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اُنھیں قریبی علاقوں میں ہی رکھا ہوا ہے۔
اس لڑکے کے بقول اُنھیں 21 روز اسلام آباد میں ہوگئے ہیں اور جب وہ اپنے عہدیداروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تو اُنھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بس سٹینڈ پر اُن کے بندے کھڑے ہیں جو اُنھیں گھر جانے کی بجائے ’اگلے جہاں‘ پہنچا دیں گے اور اُن کے گھر والوں کو بتا دیں گے کہ وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلاب مارچ شروع کرنے سے پہلے کہا تھا کہ جو اس مارچ سے واپس آئے تو اُسے مار دیا جائے تاہم اگلے روز اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے یہ بیان مذاق میں دیا تھا۔
گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں جہاں پر اکثر خواتین گھروں میں کام کرکے گُزارا کرتی ہیں وہاں سے بھی اطلاعات کے مطابق 100 کے قریب خواتین کو اس ’انقلاب مارچ‘ میں لایا گیا ہے اور اُن کے گھر والوں کو دس ہزار روپے مہینے کے حساب سے دیے گئے ہیں۔
گوجرانوالہ کے ایک رہائشی محمد اسلم کے مطابق لوہیا والہ بائی پاس اور دیگر نواحی علاقوں میں گذشتہ ماہ لاؤڈ سپیکر پر اعلانات ہوئے جس میں خواتین کو انقلاب مارچ میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ جن خواتین کے پاس شیر خوار یا دس سال سے کم عمر بچے ہیں اُنھیں بھی اپنے ساتھ لائیں تو اُنھیں تین سے پانچ ہزار روپے اضافی دیے جائیں گے۔
پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمر ریاض عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت انقلابی دھرنے میں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنی مرضی سے بیٹھے ہیں اور اُنھیں نہ تو مجبور کیا گیا اور نہ ہی اُنھیں کوئی پیسے دیے گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے حکم پر آٹھ سو کے قریب ایسے مظاہرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں جن کے امتحانات ہیں یا پھر اُنھیں نوکری اور کاروبار کے مسائل ہیں۔
انقلاب مارچ میں شریک شرکا سے متعلق وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت شرکا کی تعداد چار سے لے کر پانچ ہزار تک ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان شرکا میں ایسے افراد کی تعداد قابل ذکر ہے جو منہاج القران کے ملازم ہیں۔
بی بی سی اردو
اس لڑکے کا نام تو کچھ اور ہے تاہم اُس کی سکیورٹی کے لیے اسے نوید کے ایک فرضی نام سے لکھا جا رہا ہے۔
نوید کا کہنا تھا کہ وہ بہاولپور کے قریب ایک گاؤں ٹامے والی کا رہائشی ہے اور دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔
اُس لڑکے کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیدار تنویر عباسی نے اُن کے گھر والوں کو بتایا کہ اُن کا بیٹا انقلاب مارچ میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہا ہے اور وہ تین روز کے بعد واپس آجائے گا۔
نوید کا کہنا تھا کہ عوامی تحریک کے مقامی عہدیداروں نے اُن کے گھر والوں کو چھ ہزار روپے بھی دیے جو اُنھوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ اُس نے کہا کہ اس کے علاقے اور قریبی گاؤں سے 300 کے قریب زیر تعلیم نو عمر لڑکوں کو انہی شرائط پر اسلام آباد لایا گیا ہے۔
اس لڑکے کا کہنا تھا کہ 20، 20 لڑکوں پر مشتمل بٹالین بنائی گئی ہیں اور ہر بٹالین کا انچارج روزانہ انقلاب مارچ کی انتظامیہ کو لڑکوں کی حاضری کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔
نوید کا کہنا تھا کہ جو لڑکے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں اُنھیں بھی اپنے گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اُنھیں قریبی علاقوں میں ہی رکھا ہوا ہے۔
اس لڑکے کے بقول اُنھیں 21 روز اسلام آباد میں ہوگئے ہیں اور جب وہ اپنے عہدیداروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تو اُنھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بس سٹینڈ پر اُن کے بندے کھڑے ہیں جو اُنھیں گھر جانے کی بجائے ’اگلے جہاں‘ پہنچا دیں گے اور اُن کے گھر والوں کو بتا دیں گے کہ وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلاب مارچ شروع کرنے سے پہلے کہا تھا کہ جو اس مارچ سے واپس آئے تو اُسے مار دیا جائے تاہم اگلے روز اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے یہ بیان مذاق میں دیا تھا۔
گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں جہاں پر اکثر خواتین گھروں میں کام کرکے گُزارا کرتی ہیں وہاں سے بھی اطلاعات کے مطابق 100 کے قریب خواتین کو اس ’انقلاب مارچ‘ میں لایا گیا ہے اور اُن کے گھر والوں کو دس ہزار روپے مہینے کے حساب سے دیے گئے ہیں۔
گوجرانوالہ کے ایک رہائشی محمد اسلم کے مطابق لوہیا والہ بائی پاس اور دیگر نواحی علاقوں میں گذشتہ ماہ لاؤڈ سپیکر پر اعلانات ہوئے جس میں خواتین کو انقلاب مارچ میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ جن خواتین کے پاس شیر خوار یا دس سال سے کم عمر بچے ہیں اُنھیں بھی اپنے ساتھ لائیں تو اُنھیں تین سے پانچ ہزار روپے اضافی دیے جائیں گے۔
پاکستان عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمر ریاض عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت انقلابی دھرنے میں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنی مرضی سے بیٹھے ہیں اور اُنھیں نہ تو مجبور کیا گیا اور نہ ہی اُنھیں کوئی پیسے دیے گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے حکم پر آٹھ سو کے قریب ایسے مظاہرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں جن کے امتحانات ہیں یا پھر اُنھیں نوکری اور کاروبار کے مسائل ہیں۔
انقلاب مارچ میں شریک شرکا سے متعلق وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت شرکا کی تعداد چار سے لے کر پانچ ہزار تک ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان شرکا میں ایسے افراد کی تعداد قابل ذکر ہے جو منہاج القران کے ملازم ہیں۔
بی بی سی اردو