’انھیں کیوں نشانہ بنائیں جو ہمارے لیے خطرہ نہیں؟‘ سرتاج عزیز

صائمہ شاہ

محفلین
ہا ہا ہا نہیں نہیں بحال رکھیں۔ اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے برادر۔
چاہے وہ بلاوجہ ہی کیوں نہ ہو۔ :p
شکریہ اختلاف رائے کا احترام کرنے پر مگر ریٹنگ بلا وجہ نہیں تھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ہر چیز کو بہت محدود زاویے سے دیکھتے ہیں دہشت گردی کے بارے ایسے بیانات اور ان کے نتائج سے بے خبر سیاستدان تو انہی دہشت گردوں کے سرپرستوں کے پے رول پر پلتے ہیں مگر عوام ؟؟ ان کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ آگ ہمارا ہی گھر جلا دے گئی
 

صائمہ شاہ

محفلین
صائمہ شاہ سے گزارش ہے کہ ہمارے اس نئے اور معصوم سے رُکن کیلئے اپنی منفی ریٹنگ واپس لے لیں اور انکی بجائے ہمیں وہ ریٹنگ ارسال کر دیں :)
ارے آپ کو کیوں ؟ آپ کو ریٹنگ دینے کے لیے ایک اور صاحب جو موجود ہیں اور انکی تو روزی روٹی ہی ریٹنگ ہے ملے تب بھی سٹیٹس لگا لگا کر روتے ہیں اور نہ ملے تب بھی توجہ پانے کے لیے ایسی حرکات کرتے نظر آتے ہیں :)
 
آخری تدوین:

صائمہ شاہ

محفلین
تیرہ سال دہشت گردوں سے مار کھا کھا کر بھی ان لوگوں کو عقل نہیں آئی ؟
جب حکمرانوں کے ذاتی مفاد دہشت گردوں کے سرپرستوں سے ہاتھ ملانے میں ہوں اور وزرا کھلم کھلا دہشت گردوں کے سر پر دست شفقت پھیرتے نظر آئیں تو انہیں کیا خاک عقل آئے گی
 

حسینی

محفلین
جی بالکل اسی لئے میں مذہب کے نام پر سیاست کے سخت خلاف ہوں۔ لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ بھی اسی سپہ صحابہ، لشکر جھنگوی جیسے گروہوں سے ملتے ہیں۔
مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا الگ بات ہے۔۔۔ البتہ دین کو سیاست سے جدا کرکے لادین سیاست کی بات کرنا غلط ہوگا۔۔۔ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔ اس موضوع پر آپ سے محکم دلیلوں سے بحث کرنے کو تیار ہوں۔
حزب اللہ اور حماس جو اسرائیل کے سامنے سینہ سپر کھڑے ہیں، کو پاکستان کے ان دہشت گروہوں اور طالبان سے ملانا اور اک طرح کی تنظیمیں سمجھنا سراسر زیادتی ہوگی۔۔۔ البتہ یہ الگ موضوع ہے۔۔ بحث کرنا نہیں چاہتا۔
 

منقب سید

محفلین
شکریہ اختلاف رائے کا احترام کرنے پر مگر ریٹنگ بلا وجہ نہیں تھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ہر چیز کو بہت محدود زاویے سے دیکھتے ہیں دہشت گردی کے بارے ایسے بیانات اور ان کے نتائج سے بے خبر سیاستدان تو انہی دہشت گردوں کے سرپرستوں کے پے رول پر پلتے ہیں مگر عوام ؟؟ ان کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ آگ ہمارا ہی گھر جلا دے گئی
قابل احترام بہن، میری جانب سے کی جانے والی ہر شیئرنگ تبصرہ کرنے کے لئے ہی ہوتی ہے اور میں ذاتی طور پر ہر جائز اختلاف کا احترام کرتا ہوں۔ آپ کے نقطہ نظر سے تو مجھے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے۔ باقی رہی قوم کی بات تو قوم کا ایک مائنڈ بنا دیا گیا ہے۔ مختلف سیاسی، مذہبی یا میڈیا پرسنز نے اپنے مفادات کی خاطر حقائق کو چھُپانے اور قوم کو وسعت نظری کی جگہ محدود سوچ کو بڑھاوا دیا ہے۔
اب بات آتی ہے شدت پسندی کی افغانستان اور کشمیر جانے والے کتنے نوجوان "میدان جنگ" سے واپسی کے بعد عام زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوتے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر حالات زندگی انہیں واپس شدت پسندی کی جانب مائل کر دیتے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب مائل کرنے اور انہیں اس ضمن میں ہر قسم کی ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کا کام جاری و ساری ہے۔ اس معاملے میں میں کسی بھی غیر ملکی قوت سے زیادہ قصور وار ان مقامی گروپوں کو سمجھتا ہوں جو مختلف مذہبی و سیاسی وجوہات کی بنا پر نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب مائل کرتے ہیں۔ اگر یہ مقامی گروپ جن کو مذہبی، سیاسی یا اداراتی یا غیر ملکی سرپرستی حاصل ہوتی ہے شدت پسندی سے انکار کر دیں تو کوئی باہر سے آ کر تو اتنی آسانی سے دہشت گردی کرنے سے رہا۔اب رہ گئی قوم تو من حیث القوم ہمیں سب کو وسیع پیمانے پر ایسے اصلاحی مراکز کی ضرورت ہے جن میں ہمیں مسلکی نقطہ نظر سے ہٹ کر اسلام اپنی اصل روح کے مطابق سمجھایا جائے۔ اخلاق، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا جائے۔ جدید سیاسی و قومی مسائل کے بارے میں غیر جانبداری سے حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں۔ پھر ہی ہمیں کچھ سمجھ میں آ سکتا ہے ورنہ کافر کافر کی صدائیں اور جلاؤ گھیراو جیسی متشدد پسندانہ سوچ اتنی آسانی سے نہیں بدلنے والی۔
اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے آمین۔
بحثیت قوم اب بس یہی دعاء کثرت سے کرنی چاہییے کہ۔۔۔۔۔۔۔
لاَ إِلہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ۔
نہیں ہے کوئی معبود مگر تو کہ پاک و منزہ ہے، یقیناً میں ہی ظالموں میں سے ہوگیا ہوں۔
 
اس بات سے قطع نظر کہ ہم کس کی حمایت کرتے ہیں یا کس کی نہیں کرتے،یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی طالبان اورافغان طالبان دومختلف تنظیموں کے نام ہیں۔

" پاکستانی طالبان اورافغان طالبان دومختلف تنظیموں کے نام ہیں۔ جب دو تنظیموں کے درمیان قدر مشترک دیکھنی ہو یا یہ جائزہ لینا ہوکہ دونوں ایک ہیں یا نہیں، تو سب سے پہلے یہ دیکھاجاتا ہے کہ ان کا ایجنڈا اور ہدف کیا ہے؟ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی قیادت ایک ہے یا ان میں کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان کا نظم اورکمانڈ سٹرکچر ایک ہے یا نہیں، مالی فنانسر ایک ہیں یا نہیں؟

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اہداف یکسر مختلف ہیں، ان کی قیادت مختلف ہے، نظم اور سٹرکچر مختلف ہے، مالی معاونت کرنے والے مختلف ہیں اوردونوں کا ضابطہ اخلاق بھی یکسر مختلف ہے۔
افغان طالبان کامیدانِ جنگ افغانستان ہے، ان کا اصل ہدف امریکی اور نیٹو افواج رہیں۔ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پاکستانی قبائلی علاقوں سے جنگجو ان کے ساتھ آ ملیں تاکہ امریکہ کے خلاف موثر لڑائی لڑی جا سکے۔
ٹی ٹی پی کا میدان جنگ پاکستان اور بنیادی ہدف پاک فوج اور ریاست پاکستان ہے۔ انہوں نے افغانستان میں جاری اینٹی امریکہ مزاحمت میں شمولیت کی کبھی زحمت نہیں کی،

اس لئے یہ حقیقت تو واضح ہوجانی چاہیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ الگ تنظیمیں ہیں۔
اگرقبائلی پس منظر، پشتون فیکٹر، کم وبیش ایک جیسے مسلک ، قدرے سخت گیر قدامت پسندانہ سوچ وغیرہ کی بنیاد پر انہیں کوئی ایک قرار دے رہا ہے تووہ غلطی پر ہے۔ اس طرح کی کچھ باتیں تو طالبان مخالفوں اور طالبان میں بھی مشترک نکل آئیں گی۔

عسکریت پسند تنظیموں کا موازنہ کلچرل بنیادوں پر نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دو سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔۔۔۔

پہلا یہ کہ افغان طالبان نے کبھی ان کی علانیہ مذمت کیوں نہیں کی، دوسرے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت پر ملا عمرکی جانب سے اظہارافسوس کا بیان کیوں جاری کیا گیا ؟ سوشل میڈیا پر موجود ٹی ٹی پی کے حامی عناصر،جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت کے حامیوں کی بھی خاصی تعداد شامل ہے، اس بیان کو بنیادی دلیل کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔یہ دونوں باتیں سمجھنا بڑا آسان ہے۔
قبائلی کلچر میں یہ معمول ہے کہ اپنے دشمن کے کسی افسوسناک سانحے میں ہلاکت پربھی خوشی کے بجائے اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔ پھر حکیم اللہ محسودکی جس طرح اچانک ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی، اس نے پاکستان میں ان کے مخالفوں تک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ افغان طالبان جو امریکہ کے سب سے بڑے مخالف ہیں، امریکی ڈرون سے مرنے والے حکیم اللہ محسودکی ہلاکت پر اورکیا بیان جاری کرتے؟ جہاں تک علانیہ لاتعلقی نہ کرنے کی بات ہے، یہ سمجھنا چاہیے کہ افغان طالبان حالت جنگ میں ہیں، وہ اپنا تمام تر فوکس افغانستان میں امریکی افواج پر کئے ہوئے ہیں، فطری طور پرکسی بھی دوسرے تنازع میں الجھنا ان کے لئے خطرناک تھا۔ ان کے لئے پاکستانی قبائلی علاقوں کا خطہ بہت اہم رہا۔ ایک زمانے میں یہ ان کی سپلائی لائن بھی رہی اوربیس کیمپ بھی۔ ٹی ٹی پی ان علاقوں میں مقیم سب سے طاقتور تنظیم ہے۔ پہلے جنوبی وزیرستان اوراب شمالی وزیرستان میں اس کا خاصا مضبوط نیٹ ورک ہے، افغان طالبان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ علانیہ ٹی ٹی پی کے خلاف محاذ جنگ کھول لیں؛ اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی البتہ ہر ممکن کوشش کی۔ جب حکیم اللہ محسود کے حکم پر یرغمال بنائے گئے فورسزکے جوانوں کی گردنیں کاٹنے کا سلسلہ جاری تھا، ملا عمر نے تیس نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیاجسے پڑھ کرمعلوم ہوتاہے کہ یہ خاص طور پر پاکستانی طالبان کو سامنے رکھ کرجاری کیا گیا، وہ تمام کام ممنوع قرار دیئے گئے جو پاکستانی طالبان بخوشی کر رہے تھے۔ مقصد یہ بتانا تھاکہ افغان طالبان کا کلچر پاکستانی طالبان سے الگ ہے۔"
عامر خاکوانی
 

arifkarim

معطل
مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا الگ بات ہے۔۔۔ البتہ دین کو سیاست سے جدا کرکے لادین سیاست کی بات کرنا غلط ہوگا۔۔۔ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔ اس موضوع پر آپ سے محکم دلیلوں سے بحث کرنے کو تیار ہوں۔
لادین سیاست سے آپکی کیا مراد ہے؟ ایک ملک عوام کیلئے انتظامی یونٹ ہوتاہے۔ اسمیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور ایسے بھی جنکا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کچھ مذاہب کے ماننے والے اکثریت اور کچھ اقلیت میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں اکثریت والے مذہبیوں کو ملکی آئین و قوانین میں اعلیٰ و خاص درجہ جبکہ اقلیتوں اور بے دینوں کو نظر انداز کر دینا جیسا کہ پاکستان، ایران جیسی ناکام اور جعلی جمہوریتوں میں ہو رہا ہے عین چنگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔

حزب اللہ اور حماس جو اسرائیل کے سامنے سینہ سپر کھڑے ہیں، کو پاکستان کے ان دہشت گروہوں اور طالبان سے ملانا اور اک طرح کی تنظیمیں سمجھنا سراسر زیادتی ہوگی۔۔۔ البتہ یہ الگ موضوع ہے۔۔ بحث کرنا نہیں چاہتا۔
یہ بالکل وہی موضوع ہے۔ طالبان دہشت گرد جو نظریہ جہاد معصوم پاکستانیوں کو مارنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، عین وہی حزب اللہ اور حماس عام اسرائیلی شہریوں کو ختم کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ انکے نزیک شہری اور فوجی میں کوئی فرق نہیں۔ فوجی کیخلاف دفاع اور چیز ہے جبکہ عام شہریوں کیخلاف دہشت گردی اور چیز۔ اگر آپ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے سے قاصر ہیں تو اپنے محبوب نصراللہ کو دعوت عام دیں کہ اپنے غار سے باہر آکر اسرائیلی مزائلز کا سامنا کرے :)


اس لئے یہ حقیقت تو واضح ہوجانی چاہیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ الگ تنظیمیں ہیں۔
جی بالکل۔ الگ الگ تنظیمیں تو ہیں البتہ انکے دیرینہ مقاصد ایک ہیں۔ ایک جماعت افغانستان میں جبراً سعودی شریعت نافذ کرنا چاہتی تو دوسری پاکستان میں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
جی بالکل۔ الگ الگ تنظیمیں تو ہیں البتہ انکے دیرینہ مقاصد ایک ہیں۔ ایک جماعت افغانستان میں جبراً سعودی شریعت نافذ کرنا چاہتی تو دوسری پاکستان میں۔
دونوں کے اہداف الگ الگ ہیں اور ایک اپنے ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف اور دوسرے اپنے اسلامی ملک کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مسلکی بنیادوں پر نہتے عوام کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے ہیں
 
پاکستانی طالبان دراصل ملک میں شریعت کا نفاذ نہیں چاہتے۔ کیونکہ دہشت گردی کے ذریعے عوام کو کسی چیز سے متنفر تو کیا جاسکتا ہے مگر قریب نہیں لایا جا سکتا۔ :)
 

arifkarim

معطل
دونوں کے اہداف الگ الگ ہیں اور ایک اپنے ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف اور دوسرے اپنے اسلامی ملک کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مسلکی بنیادوں پر نہتے عوام کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے ہیں
تو یہ دوسرا گروہ اپنے آپکو طالبان کیوں کہتا ہے پھر؟
 
Top