منقب سید
محفلین
پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان ان شدت پسندوں کو کیوں نشانہ بنائے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہیں؟
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’جو امریکہ کے دشمن ہیں وہ خواہ مخواہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے؟‘
بری فوج کے سربراہ راحیل شریف کے امریکی دورے کے پس منظر میں دیےگئے انٹرویو میں قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
سرتاج عزیز نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہا کہ ’جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ تمام لوگ جن کو ہم نے مل کر مسلح کیا تھا اور تربیت دی تھی، انھیں ہماری طرف دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے کچھ ہمارے لیے خطرہ ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔ تو ہم سب کو کیوں دشمن بنائیں؟‘
تاہم امریکہ اس سلسلے میں پاکستان کے عزم پر سوالیہ نشان اٹھاتا رہا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اس سال جون میں شروع ہوئے شمالی وزیرستان میں ہونے والا آپریشن ضربِ عضب کسی گروہ کے درمیان تفریق نہیں کر رہا۔
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی سرزمین سے امریکہ کے خلاف حملے کرنے والے شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے پاکستان نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ان کی صلاحیت اور انفرا سٹرکچر کو ختم کر دیا ہے۔‘
جہاں تک ان تنظیموں اور گروہوں کی قیادت کی بات ہے، اس کے بارے میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل جو بھاگ گئے، وہ بھاگ گئے: ’جو رہ گئے ہیں ان سب کے خلاف کارروائی کی ہے۔‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’افغان طالبان افغانستان کا مسئلہ ہیں اور حقانی نیٹ ورک انھی کا حصہ ہے۔ افغان حکومت کا کام ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کرے۔ ہم اپنی طرف سے افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن جو 90 کی دہائی کے تعلقات تھے وہ اب نہیں ہیں۔‘
سرتاج عزیز کا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی نہیں ہے: ’گذشتہ سال امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری پاکستان آئے، پھر وزیرِ اعظم نواز شریف نے صدر براک اوباما سے امریکہ میں ملاقات کی اور پھر جنوری میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ بحال کیے جو 2010 سے تعطل کا شکار تھے۔ جنرل راحیل شریف کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ عسکری قیادت کی اب تک اس سطح پر سرکاری ملاقاتیں نہیں ہوئی تھیں۔‘
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پہلے دورے کے موقعے پر اصولی فیصلہ ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کے لیے نہ پاکستان اپنی سرزمین استعمال ہونے دے گا اور نہ ہی افغانستان۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی موجودگی کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی تاہم ’اس میں کتنا وقت لگتا ہے اور وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں، یہ دیکھا جائے گا۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141117_pak_usa_strategic_cooperation_sq
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’جو امریکہ کے دشمن ہیں وہ خواہ مخواہ ہمارے دشمن کیسے ہو گئے؟‘
بری فوج کے سربراہ راحیل شریف کے امریکی دورے کے پس منظر میں دیےگئے انٹرویو میں قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
سرتاج عزیز نے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہا کہ ’جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ تمام لوگ جن کو ہم نے مل کر مسلح کیا تھا اور تربیت دی تھی، انھیں ہماری طرف دھکیل دیا گیا۔ ان میں سے کچھ ہمارے لیے خطرہ ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔ تو ہم سب کو کیوں دشمن بنائیں؟‘
تاہم امریکہ اس سلسلے میں پاکستان کے عزم پر سوالیہ نشان اٹھاتا رہا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اس سال جون میں شروع ہوئے شمالی وزیرستان میں ہونے والا آپریشن ضربِ عضب کسی گروہ کے درمیان تفریق نہیں کر رہا۔
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستانی سرزمین سے امریکہ کے خلاف حملے کرنے والے شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے پاکستان نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ان کی صلاحیت اور انفرا سٹرکچر کو ختم کر دیا ہے۔‘
جہاں تک ان تنظیموں اور گروہوں کی قیادت کی بات ہے، اس کے بارے میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل جو بھاگ گئے، وہ بھاگ گئے: ’جو رہ گئے ہیں ان سب کے خلاف کارروائی کی ہے۔‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’افغان طالبان افغانستان کا مسئلہ ہیں اور حقانی نیٹ ورک انھی کا حصہ ہے۔ افغان حکومت کا کام ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کرے۔ ہم اپنی طرف سے افغان طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن جو 90 کی دہائی کے تعلقات تھے وہ اب نہیں ہیں۔‘
سرتاج عزیز کا خیال ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی نہیں ہے: ’گذشتہ سال امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری پاکستان آئے، پھر وزیرِ اعظم نواز شریف نے صدر براک اوباما سے امریکہ میں ملاقات کی اور پھر جنوری میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ بحال کیے جو 2010 سے تعطل کا شکار تھے۔ جنرل راحیل شریف کا دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ عسکری قیادت کی اب تک اس سطح پر سرکاری ملاقاتیں نہیں ہوئی تھیں۔‘
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پہلے دورے کے موقعے پر اصولی فیصلہ ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کے لیے نہ پاکستان اپنی سرزمین استعمال ہونے دے گا اور نہ ہی افغانستان۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی موجودگی کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی تاہم ’اس میں کتنا وقت لگتا ہے اور وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں، یہ دیکھا جائے گا۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141117_pak_usa_strategic_cooperation_sq