arifkarim
معطل
آپکی اسٹیبلشمنٹ میں رپوٹیشن کا سوال ہے جناب، اسلئے کہا تھاہا ہا ہا نہیں نہیں بحال رکھیں۔ اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے برادر۔
چاہے وہ بلاوجہ ہی کیوں نہ ہو۔
آپکی اسٹیبلشمنٹ میں رپوٹیشن کا سوال ہے جناب، اسلئے کہا تھاہا ہا ہا نہیں نہیں بحال رکھیں۔ اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے برادر۔
چاہے وہ بلاوجہ ہی کیوں نہ ہو۔
جس کا نہ پہلے وجود تھا نہ ہے نہ بعد میں کبھی ہوگا۔ اچھا لطیفہ ہے ویسے جو آپ نے بیان کیا۔آپکی اسٹیبلشمنٹ میں رپوٹیشن کا سوال ہے جناب، اسلئے کہا تھا
شکریہ اختلاف رائے کا احترام کرنے پر مگر ریٹنگ بلا وجہ نہیں تھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ہر چیز کو بہت محدود زاویے سے دیکھتے ہیں دہشت گردی کے بارے ایسے بیانات اور ان کے نتائج سے بے خبر سیاستدان تو انہی دہشت گردوں کے سرپرستوں کے پے رول پر پلتے ہیں مگر عوام ؟؟ ان کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ آگ ہمارا ہی گھر جلا دے گئیہا ہا ہا نہیں نہیں بحال رکھیں۔ اختلاف رائے کا حق سب کو حاصل ہے برادر۔
چاہے وہ بلاوجہ ہی کیوں نہ ہو۔
ارے آپ کو کیوں ؟ آپ کو ریٹنگ دینے کے لیے ایک اور صاحب جو موجود ہیں اور انکی تو روزی روٹی ہی ریٹنگ ہے ملے تب بھی سٹیٹس لگا لگا کر روتے ہیں اور نہ ملے تب بھی توجہ پانے کے لیے ایسی حرکات کرتے نظر آتے ہیںصائمہ شاہ سے گزارش ہے کہ ہمارے اس نئے اور معصوم سے رُکن کیلئے اپنی منفی ریٹنگ واپس لے لیں اور انکی بجائے ہمیں وہ ریٹنگ ارسال کر دیں
جب حکمرانوں کے ذاتی مفاد دہشت گردوں کے سرپرستوں سے ہاتھ ملانے میں ہوں اور وزرا کھلم کھلا دہشت گردوں کے سر پر دست شفقت پھیرتے نظر آئیں تو انہیں کیا خاک عقل آئے گیتیرہ سال دہشت گردوں سے مار کھا کھا کر بھی ان لوگوں کو عقل نہیں آئی ؟
مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا الگ بات ہے۔۔۔ البتہ دین کو سیاست سے جدا کرکے لادین سیاست کی بات کرنا غلط ہوگا۔۔۔ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔ اس موضوع پر آپ سے محکم دلیلوں سے بحث کرنے کو تیار ہوں۔جی بالکل اسی لئے میں مذہب کے نام پر سیاست کے سخت خلاف ہوں۔ لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ بھی اسی سپہ صحابہ، لشکر جھنگوی جیسے گروہوں سے ملتے ہیں۔
قابل احترام بہن، میری جانب سے کی جانے والی ہر شیئرنگ تبصرہ کرنے کے لئے ہی ہوتی ہے اور میں ذاتی طور پر ہر جائز اختلاف کا احترام کرتا ہوں۔ آپ کے نقطہ نظر سے تو مجھے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے۔ باقی رہی قوم کی بات تو قوم کا ایک مائنڈ بنا دیا گیا ہے۔ مختلف سیاسی، مذہبی یا میڈیا پرسنز نے اپنے مفادات کی خاطر حقائق کو چھُپانے اور قوم کو وسعت نظری کی جگہ محدود سوچ کو بڑھاوا دیا ہے۔شکریہ اختلاف رائے کا احترام کرنے پر مگر ریٹنگ بلا وجہ نہیں تھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ہر چیز کو بہت محدود زاویے سے دیکھتے ہیں دہشت گردی کے بارے ایسے بیانات اور ان کے نتائج سے بے خبر سیاستدان تو انہی دہشت گردوں کے سرپرستوں کے پے رول پر پلتے ہیں مگر عوام ؟؟ ان کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ آگ ہمارا ہی گھر جلا دے گئی
لادین سیاست سے آپکی کیا مراد ہے؟ ایک ملک عوام کیلئے انتظامی یونٹ ہوتاہے۔ اسمیں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور ایسے بھی جنکا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کچھ مذاہب کے ماننے والے اکثریت اور کچھ اقلیت میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں اکثریت والے مذہبیوں کو ملکی آئین و قوانین میں اعلیٰ و خاص درجہ جبکہ اقلیتوں اور بے دینوں کو نظر انداز کر دینا جیسا کہ پاکستان، ایران جیسی ناکام اور جعلی جمہوریتوں میں ہو رہا ہے عین چنگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا الگ بات ہے۔۔۔ البتہ دین کو سیاست سے جدا کرکے لادین سیاست کی بات کرنا غلط ہوگا۔۔۔ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔ اس موضوع پر آپ سے محکم دلیلوں سے بحث کرنے کو تیار ہوں۔
یہ بالکل وہی موضوع ہے۔ طالبان دہشت گرد جو نظریہ جہاد معصوم پاکستانیوں کو مارنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، عین وہی حزب اللہ اور حماس عام اسرائیلی شہریوں کو ختم کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ انکے نزیک شہری اور فوجی میں کوئی فرق نہیں۔ فوجی کیخلاف دفاع اور چیز ہے جبکہ عام شہریوں کیخلاف دہشت گردی اور چیز۔ اگر آپ یہ بنیادی نکتہ سمجھنے سے قاصر ہیں تو اپنے محبوب نصراللہ کو دعوت عام دیں کہ اپنے غار سے باہر آکر اسرائیلی مزائلز کا سامنا کرےحزب اللہ اور حماس جو اسرائیل کے سامنے سینہ سپر کھڑے ہیں، کو پاکستان کے ان دہشت گروہوں اور طالبان سے ملانا اور اک طرح کی تنظیمیں سمجھنا سراسر زیادتی ہوگی۔۔۔ البتہ یہ الگ موضوع ہے۔۔ بحث کرنا نہیں چاہتا۔
جی بالکل۔ الگ الگ تنظیمیں تو ہیں البتہ انکے دیرینہ مقاصد ایک ہیں۔ ایک جماعت افغانستان میں جبراً سعودی شریعت نافذ کرنا چاہتی تو دوسری پاکستان میں۔اس لئے یہ حقیقت تو واضح ہوجانی چاہیے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان الگ الگ تنظیمیں ہیں۔
دونوں کے اہداف الگ الگ ہیں اور ایک اپنے ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف اور دوسرے اپنے اسلامی ملک کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مسلکی بنیادوں پر نہتے عوام کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے ہیںجی بالکل۔ الگ الگ تنظیمیں تو ہیں البتہ انکے دیرینہ مقاصد ایک ہیں۔ ایک جماعت افغانستان میں جبراً سعودی شریعت نافذ کرنا چاہتی تو دوسری پاکستان میں۔
تو یہ دوسرا گروہ اپنے آپکو طالبان کیوں کہتا ہے پھر؟دونوں کے اہداف الگ الگ ہیں اور ایک اپنے ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف اور دوسرے اپنے اسلامی ملک کی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مسلکی بنیادوں پر نہتے عوام کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بناتے ہیں