’آئی جی کا تبادلہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر کیا‘؛ سپریم کورٹ نے تبادلہ روک دیا

جاسم محمد

محفلین
۔ ممکن ہے کہ خان صاحب کو اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ نے درست طور پر رہنمائی فراہم نہ کی ہو۔
جی بالکل عین ممکن ہے۔ البتہ آج وزیر اطلاعات کی تلخ تقریر سےپتا لگتا ہے حکومت کی دُم پر پاؤں آ چکا ہے۔

'اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر بیوروکریٹس سے ہی حکومت کرالیں'

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر بیوروکریٹس سے ہی حکومت کرالی جائے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ 'اصل مسئلہ آئی جی اسلام آباد کا فون اٹینڈ نہ کرنا تھا، فون نہ اٹھا کر ہیرو بننے کا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے،آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، اگر وزیراعظم آئی جی کو معطل نہیں کرسکتا ، تو پھر بیورو کریٹس سے ہی حکومت کرالیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اختیارات استعمال کریں گے،یہ نہیں ہوسکتا کہ آئی جیز، ایس پیز اور بیوروکریٹس عوامی نمائندوں کے فون نہ اٹھائیں۔

فواد چوہدری نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے خلاف ایک اور چارج شیٹ بھی پیش کردی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف اور تھانوں میں رشوت کی روک تھام نہ کرنے کا بھی الزام عائد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی کے تبادلے کی وجہ ان کے خلاف مختلف شکایات تھیں، آئی جی اسلام آباد کا تعاون ٹھیک نہیں تھا، اسلام آباد میں ڈرگ اور اسکولوں میں منشیات فروخت کی جارہی ہے، پولیس نے ڈرگ مافیا کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔

آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے: وزیراطلاعات
انہوں نے کہا کہ آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، بیورو کریسی سے متعلق کچھ مسائل ہیں جن کو حل کررہے ہیں، قومی اسمبلی کاکام قانون سازی ہے اور بیوروکریسی کا کام عملدرآمد ہے، بیوروکریسی کام نہیں کرے گی تو وزیراعظم اور چیف منسٹرز ان کی تبدیلی کا حق رکھتے ہیں اور اگر بیورو کریسی کے ذریعے حکومت چلانی ہے تو الیکشن نہیں کرتے، اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں، چار بیورو کریٹ سے حکومت چلا لیتے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے آئی جی اسلام آباد وفاقی وزیر کا فون نہ اٹھائیں، یہ ممکن نہیں کہ چیف سیکرٹریز اور آئی جیز فون نہ اٹھائیں، فون نہ اٹھانا حکومت یا اپوزیشن کامعاملہ نہیں، فون نہ اٹھاکر ہیرو بننےکا بیانیہ پھیلایا جارہا ہے۔


انہوں نے کہاکہ 5 سال کے دوران خیبرپختونخوا میں شکایات پر پولیس والوں کے تبادلے کیےگئے، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیارات ہیں جنہیں وہ استعمال کریں گے، ممکن نہیں کہ آئی جی، ڈی سی یا کوئی اور وزیراعظم اور دیگر کو جواب دہ نہ ہوں۔

اپوزیشن کی اے پی سی این آر او کیلئے ہورہی ہے: فواد چوہدری
وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا ایم این اے بھی لاکھ ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے کر آتاہے، اداروں پر پولیٹیکل اوورسائٹ ضروری ہے اور وزیراعظم کے ایگزیکٹو اختیارات ہیں وہ اپنے اختیارات استعمال کریں گے، سپریم کورٹ قابل احترام ہے وہ جوفیصلہ کرے گی وہ قبول کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی سیاست اتنی ہی رہ گئی ہے کہ وہ دوسروں کو ملنے پارلیمنٹ آئیں، اے پی سی کی تک سمجھ نہیں آتی، یہ این آر او لینے کے لیے ہورہی ہے لیکن کچھ بھی ہوجائے این آر او نہیں ملے گا، ہم کہہ رہے ہیں نارو وہ کہہ رہے ہیں این آر او۔

ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنایا تو اجلاس کیا جیل میں بلائیں گے؟ اپوزیشن کے پاس نیک پاک لوگ تو ہیں نہیں، جس پر ہاتھ رکھیں اس پر نیب کے چھ کیس نکل آتے ہیں۔

شریف برادران اور زرداری چاہتے ہیں مقدمات نہ چلائے جائیں: فواد چوہدری
وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ نوازشریف، شہبازشریف اور آصف زرداری چاہتے ہیں مقدمات نہ چلائے جائیں، عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ملے گا۔

بنی گالہ تجاوزات کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا گھر سی ڈی اے کی حدود میں نہیں آتا تھا، ان کا کا گھر موہڑہ نور یونین کونسل کی حدود میں آتاتھا، تیس سال قبل یہ گھر بنا تھا جو پچھلے قوانین کے تحت بنا تھا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ دو دنوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 1450 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، یہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا اظہارہے، پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے، وزیراعظم نے عالمی سطح پر پاکستان کے مثبت تشخص سے استفادہ کیا ہے۔

سٹیزن پورٹل پر گفتگو

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سیٹزن پورٹل میں اب تک ایک لاکھ سے زائدشکایات موصول ہوئی ہیں، ان شکایات کے ازالے کیلئے اقدامات شروع کردیئے ہیں، سٹیزن پورٹل گڈ گورننس کیلئے ایک جدید نظام ہے، اس سے مختلف محکموں کی کارکردگی جانچنے میں مددملے گی۔

وزیراطلاعات کا اسمبلی میں اظہار خیال

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہاکہ فضل الرحمان اور ان کی پارٹی کو دن میں تارے اور رات اسرائیلی طیارے نظر آرہے ہیں، یہ لوگ اس وقت بھی گمراہ تھے جب پاکستان بن رہا تھا ان کے بزرگ پاکستان بنانے کے خلاف کھڑے تھے، یہ برٹش راج کے ساتھ تھے، گزشتہ روز جب کشمیر میں پوری قوم اور کشمیری یوم سیاہ منارہے تھے تو مولانا فضل الرحمان کا ایک بیان بھی دکھادیں، یہ 1988 سے کشمیر کمیٹی پر براجمان ہیں، فضل الرحمان اور نواز شریف ملے ہوئے ہیں یہ بھارت کے ایجنڈے کو آگے بڑھارہے تھے۔

مہاکلاکاروں نے اپنی کلاکاریوں سے پاکستان کے اداروں کا بیڑہ غرق کردیا: فواد
وزیراطلاعات نے پیپلزپارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ خورشید شاہ کی کوشش ہوتی ہے معیشت پر بات نہ ہو کیونکہ پچھلے دس سالوں میں اداروں سے جو کھلواڑ ہوا اس میں یہ خود حصہ رہے ہیں، ایک لاکھ 63 ہزار آدمی اداروں میں بھرتی کیے گئے، جب اداروں کی تباہی کی بات کریں تو اپوزیشن والے بہانہ بناکر واک آؤٹ کرتے ہیں، سچ نہیں سن سکتے، آج ملک میں جو معاشی تباہی ہے اس کے ذمہ داروں کے تباہی کا تعین کیا جائے تو پہلی صف میں بیٹھے ہوئے سب ملزم نظر آئیں گے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان مہاکلاکاروں نے اپنی کلاکاریوں سے پاکستان کے اداروں کا بیڑہ غرق کردیا، اسٹیل مل بند ے اور پی آئی اے کا برا حال ہے، نہ اپوزیشن کے پاس لیڈر شپ ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے، ان کی لیڈر شپ پر اربوں سے کم کا کیس نہیں، فالودے والے کے اکاؤنٹ سے پیسے نکل رہے ہیں، یہ لوگ ملک کی معیشت کا فالودہ بناکر کھاگئے، اس طرح سے ملک چل رہا تھا لیکن اب ملک کا اندھیرا دور ختم ہوچکا، اب ایک ایسی صبح طلوع ہوئی ہے کہ پاکستان دنیا کے ملکوں سے قرضے دینے والا ملک ہوگا۔

نوازشریف کا سیاسی مستقبل ختم، اب وہ پارلیمان کے باہر ملاقات کریں:
وزیراطلاعات
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں سعودی عرب سے بھیک مانگنے گئے، ہم نے سعودی عرب سے پاکستان کے بچوں کے لیے بھیک مانگی، ان کی طرح ان کے بچوں کے اکاؤنٹ بھرنے کےلیے بھیک نہیں مانگی، سعودی عرب کے دورے میں عمران خان کو بہت عزت ملی، آج انہیں عالمی سطح پر مسائل کےحل کے لیے کہا جارہا ہے، کیا پچھلے دور میں سوچا جاسکتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پاکستان کو کوئی کردار ملے گا؟ لیکن آج ہمیں یہ کردار دیا جارہا ہے۔

وزیر اطلاعات کا (ن) لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ (ن) لیگ نے واک آؤٹ کیا کیونکہ صرف قائد کے ساتھ ملاقات کرنی تھی، نواز شریف کاسیاسی مستقبل ختم ہوگیا، وہ اب پارلیمان سے باہر بیٹھ کر ہی ملاقاتیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عمران کے چین کے دورے سے پاکستان اور چائنا کے تعلقات کا نیا باب شروع ہوگا، یہ لوگ سی پیک کو رو رہے تھے، پہلی بار زراعت سے وابستہ لوگوں کو اس دورے سے خوشخبری ملے گی جی زراعت سی پیک کا حصہ ہوگا، ہماری سمت درست ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں، ٹھوکریں لگیں گی ہمیں مسائل درپیش ہیں، جو لوگ بھی عمران خان کو بحیثیت ایک لیڈر جانتے ہیں انہیں نے پتا ہے کہ وہ ملکی مفاد کا سودا کبھی نہیں کرے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی بالکل عین ممکن ہے۔ البتہ آج وزیر اطلاعات کی تلخ تقریر سےپتا لگتا ہے حکومت کی دُم پر پاؤں آ چکا ہے۔

'اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر بیوروکریٹس سے ہی حکومت کرالیں'

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر بیوروکریٹس سے ہی حکومت کرالی جائے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ 'اصل مسئلہ آئی جی اسلام آباد کا فون اٹینڈ نہ کرنا تھا، فون نہ اٹھا کر ہیرو بننے کا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے،آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، اگر وزیراعظم آئی جی کو معطل نہیں کرسکتا ، تو پھر بیورو کریٹس سے ہی حکومت کرالیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ اپنے اختیارات استعمال کریں گے،یہ نہیں ہوسکتا کہ آئی جیز، ایس پیز اور بیوروکریٹس عوامی نمائندوں کے فون نہ اٹھائیں۔

فواد چوہدری نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے خلاف ایک اور چارج شیٹ بھی پیش کردی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف اور تھانوں میں رشوت کی روک تھام نہ کرنے کا بھی الزام عائد کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی کے تبادلے کی وجہ ان کے خلاف مختلف شکایات تھیں، آئی جی اسلام آباد کا تعاون ٹھیک نہیں تھا، اسلام آباد میں ڈرگ اور اسکولوں میں منشیات فروخت کی جارہی ہے، پولیس نے ڈرگ مافیا کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔

آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے: وزیراطلاعات
انہوں نے کہا کہ آئی جی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہے، بیورو کریسی سے متعلق کچھ مسائل ہیں جن کو حل کررہے ہیں، قومی اسمبلی کاکام قانون سازی ہے اور بیوروکریسی کا کام عملدرآمد ہے، بیوروکریسی کام نہیں کرے گی تو وزیراعظم اور چیف منسٹرز ان کی تبدیلی کا حق رکھتے ہیں اور اگر بیورو کریسی کے ذریعے حکومت چلانی ہے تو الیکشن نہیں کرتے، اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں، چار بیورو کریٹ سے حکومت چلا لیتے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے آئی جی اسلام آباد وفاقی وزیر کا فون نہ اٹھائیں، یہ ممکن نہیں کہ چیف سیکرٹریز اور آئی جیز فون نہ اٹھائیں، فون نہ اٹھانا حکومت یا اپوزیشن کامعاملہ نہیں، فون نہ اٹھاکر ہیرو بننےکا بیانیہ پھیلایا جارہا ہے۔
یہ تو معاملہ کافی کھل سا گیا ہے۔ ان بیانات سے صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ آئی جی اسلام آباد کو بعض قوتیں ہٹانا نہیں چاہ رہی ہیں۔ شاید اسے ٹیسٹ کیس بنا لیا گیا ہے۔ عمران خان صاحب کو بھی اوقات میں رہنے کا واضح پیغام دیا جا رہا ہے۔ چونکہ فواد چوہدری صاحب جناب عمران خان صاحب کی زبان بول رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان خود کو سچ مچ کا وزیراعظم تصور کر رہے ہیں۔ ایک لحاظ سے بڑی تشویش ناک صورت حال ہے۔ یہ تو معاملہ اس طرف بڑھ رہا ہے کہ اگلے پانچ برس میں موجودہ حکومت کو بہت سے اختیارات سے محروم ہونا پڑے گا۔ عمران خان صاحب شاید یہ سب کچھ تادیر برداشت نہ کر پائیں۔ دوسری جانب عدلیہ نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ 'ریاستی اداروں'؟ یا 'ریاستی ادارے'کے ساتھ کھڑی ہے یعنی کہ سادہ لفظوں میں، حکومتی زعماء کو یہ بات باور کرائی جا رہی ہے کہ طاقت کا اصل منبع کہیں اور ہے اور حکمران خود کو کٹھ پتلی ہی تصور کریں۔ یہ الگ بات کہ موجودہ معاملے میں حکومتی پوزیشن کمزور ہے؛ تاہم فواد چوہدری کے اس موقف میں کافی وزن ہے کہ آئی جی وزیراعظم کو جواب دہ ہیں۔ مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ جس ایشو کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے، وہ حکومت کے لیے سبکی کا باعث بن چکا ہے اس لیے انہیں بھی یہی مشورہ دیا گیا ہو گا کہ ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم اختیار نہ کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری جانب عدلیہ نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ 'ریاستی اداروں'؟ یا 'ریاستی ادارے'کے ساتھ کھڑی ہے یعنی کہ سادہ لفظوں میں، حکومتی زعماء کو یہ بات باور کرائی جا رہی ہے کہ طاقت کا اصل منبع کہیں اور ہے اور حکمران خود کو کٹھ پتلی ہی تصور کریں۔
بھائی اب سول ملٹری تعلقات اتنے بھی خراب نہیں ہوئےکہ تحریک انصاف حکومت کے پاس آئی جی، ڈی پی او وغیرہ تبدیل کرنے کے اختیارات تک ختم ہو گئے۔
اصل معاملہ کچھ یوں کہ عمران خان نے اداروں کو غیرسیاسی کرنے کے نام پر ووٹ لے رکھے ہیں۔ چیف جسٹس اسمیت قوم کو امیدیں ہیں کہ وہ یہاں میرٹ کا نظام لائیں گے۔ اس کے باوجود جب حکومت میں آتے ساتھ ہی "گجر" اور "سواتی" جیسے لوگ پرانا پاکستان قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ہرجگہ سے سخت ردعمل کا آنا فطری بات ہے۔
یہاں حکومت کی ساخت اس لئے بھی کمزور ہوئی کیونکہ اگر بقول حکومت آئی جی اسلام آباد کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کئی ہفتہ قبل کیا جا چکا تھا۔ تو ٹرانسفر کے ساتھ ہی نیا آئی جی کا نام کیوں سامنے نہیں آیا؟ نیز عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکومت کا فورا یوٹرن ثابت کرتا ہے کہ یہ ردوبدل سیاسی تھا اور جلدی میں کیا گیا۔ متبادل آئی جی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے ایک دن کے اندر اندر انہیں واپس اپنی پوسٹ پر بحال کر دیا ہے۔
Interior ministry formally reinstates Jan Mohammad as Islamabad IG

اب بھی وقت ہے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت ان پرانے پاکستانیوں سے جان چھڑا لے۔ وگرنہ حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ یہ اپنی پرانی حرکتوں کی وجہ سے عوام کی نظروں میں گر جائیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی اب سول ملٹری تعلقات اتنے بھی خراب نہیں ہوئےکہ تحریک انصاف حکومت کے پاس آئی جی، ڈی پی او وغیرہ تبدیل کرنے کے اختیارات تک ختم ہو گئے۔
اصل معاملہ کچھ یوں کہ عمران خان نے اداروں کو غیرسیاسی کرنے کے نام پر ووٹ لے رکھے ہیں۔ چیف جسٹس اسمیت قوم کو امیدیں ہیں کہ وہ یہاں میرٹ کا نظام لائیں گے۔ اس کے باوجود جب حکومت میں آتے ساتھ ہی "گجر" اور "سواتی" جیسے لوگ پرانا پاکستان قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو ہرجگہ سے سخت ردعمل کا آنا فطری بات ہے۔
یہاں حکومت کی ساخت اس لئے بھی کمزور ہوئی کیونکہ اگر بقول حکومت آئی جی اسلام آباد کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کئی ہفتہ قبل کیا جا چکا تھا۔ تو ٹرانسفر کے ساتھ ہی نیا آئی جی کا نام کیوں سامنے نہیں آیا؟ نیز عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکومت کا فورا یوٹرن ثابت کرتا ہے کہ یہ ردوبدل سیاسی تھا اور جلدی میں کیا گیا۔ متبادل آئی جی نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے ایک دن کے اندر اندر انہیں واپس اپنی پوسٹ پر بحال کر دیا ہے۔
Interior ministry formally reinstates Jan Mohammad as Islamabad IG

اب بھی وقت ہے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت ان پرانے پاکستانیوں سے جان چھڑا لے۔ وگرنہ حکومت کو گرانے کیلئے اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ یہ اپنی پرانی حرکتوں کی وجہ سے عوام کی نظروں میں گر جائیں گے۔
آپ کب تک 'پارٹی کے اندر رہتے ہوئے' احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کب تک 'پارٹی کے اندر رہتے ہوئے' احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟
اگر آپ سوشل میڈیا پر فعال ہیں تو وہاں انصافیوں کا سخت ردعمل دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ اللہ کر کے خاور مانیکا خاندان والا معاملہ ختم ہوا تھا کہ سواتی خاندان نے چڑھائی کر دی۔ درحقیقت تحریک کو اپوزیشن سے نہیں، اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں سے خطرہ ہے۔
انصافیوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنی تحریک کے گناہ گاروں پر پھول نچھاور نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں آئینہ دکھاتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر آپ سوشل میڈیا پر فعال ہیں تو وہاں انصافیوں کا سخت ردعمل دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ اللہ کر کے خاور مانیکا خاندان والا معاملہ ختم ہوا تھا کہ سواتی خاندان نے چڑھائی کر دی۔ درحقیقت تحریک کو اپوزیشن سے نہیں، اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں سے خطرہ ہے۔
انصافیوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنی تحریک کے گناہ گاروں پر پھول نچھاور نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں آئینہ دکھاتے ہیں۔
ہر پارٹی میں لیڈرشپ کو آئینہ دکھانے والے موجود ہوتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کو اس حوالے سے کوئی امتیازی مقام حاصل نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہر پارٹی میں لیڈرشپ کو آئینہ دکھانے والے موجود ہوتے ہیں۔
مجھے دیگر کا نہیں پتا البتہ اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور ن لیگ میں آئینہ دکھانے والے بہت کم نظر آئے۔
60 کی دہائی میں پاکستانی معیشت و صنعت اپنی انتہا پر تھی۔ بھٹو صاحب نے آتے ساتھ اسے نیشنلائز کیا۔ جس کا نتیجہ پاکستانی ایکسپورٹ انڈسٹری کچھ سالوں کے اندر اندر ختم ہو گئی۔ اور حکمران تب سے بیرونی قرضے لے لے کر گزارے کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جب نواز شریف بھٹو دور میں نیشنلائز ہونے والی اپنی اتفاق فاؤنڈری واپس لینے سیاست میں آئے۔ تو ان کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ ملک کو واپس 60 کی دہائی والا صنعتی ملک بناتے۔ آخر کو وہ خود جدی پشتی صنعتکار تھے۔ جبکہ موصوف نے آتے ساتھ ساری توجہ موٹرویز، ہائی ویز، اور پُل تعمیر کرنے پر ضائع کر دی۔ نیز جو قومی ادارے بھٹو کی کرپشن سے بچ گئے تھے۔ وہاں اپنے پٹواری لگا دئے۔
نتیجہ ان دونوں خاندانوں نے مل کر ملک کولوٹا اور تباہ برباد کر دیا۔ کسی نے ان کو آئینہ نہیں دکھایا۔ ووٹرز نے بھی نہیں۔ بلکہ حالیہ الیکشن میں بھی سروں پر بٹھایا۔
ہم انصافی اپنی تحریک انصاف کے ساتھ تاریخ دہرانے نہیں دیں گے۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں گے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مجھے دیگر کا نہیں پتا البتہ اپوزیشن جماعتوں پی پی پی اور ن لیگ میں آئینہ دکھانے والے بہت کم نظر آئے۔
60 کی دہائی میں پاکستانی معیشت و صنعت اپنی انتہا پر تھی۔ بھٹو صاحب نے آتے ساتھ اسے نیشنلائز کیا۔ جس کا نتیجہ پاکستانی ایکسپورٹ انڈسٹری کچھ سالوں کے اندر اندر ختم ہو گئی۔ اور حکمران تب سے بیرونی قرضے لے لے کر گزارے کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جب نواز شریف بھٹو دور میں نیشنلائز ہونے والی اپنی اتفاق فاؤنڈری واپس لینے سیاست میں آئے۔ تو ان کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ ملک کو واپس 60 کی دہائی والا صنعتی ملک بناتے۔ آخر کو وہ خود جدی پشتی صنعتکار تھے۔ جبکہ موصوف نے آتے ساتھ ساری توجہ موٹرویز، ہائی ویز، اور پُل تعمیر کرنے پر ضائع کر دی۔ نیز جو قومی ادارے بھٹو کی کرپشن سے بچ گئے تھے۔ وہاں اپنے پٹواری لگا دئے۔
نتیجہ ان دونوں خاندانوں نے مل کر ملک کولوٹا اور تباہ برباد کر دیا۔ کسی نے ان کو آئینہ نہیں دکھایا۔ ووٹرز نے بھی نہیں۔ بلکہ حالیہ الیکشن میں بھی سروں پر بٹھایا۔
ہم انصافی اپنی تحریک انصاف کے ساتھ تاریخ دہرانے نہیں دیں گے۔ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں گے۔
ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے؟ ہر پارٹی میں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے والے موجود ہوتے ہیں۔ آپ نے پارٹی میں سو برائیاں دیکھ لیں، اور اب تک پارٹی کے اندر موجود ہیں۔ کئی ایسے سیاسی کارکن بھی ہوتے ہیں جو ایک دو سنگین واقعات کے بعد پارٹی سے اپنی راہ جدا کر لیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، آپ پانچ سال تک پارٹی سے اصولی اختلاف ہی کرتے رہیں گے۔ :) امر واقعہ یہ ہے کہ پارٹی میں خان صاحب نے اعظم سواتی کو یہ امتیازی مقام بہت عرصے سے دے رکھا ہے۔ شاید آپ انٹرا پارٹی الیکشنز کے دنوں کے واقعات بھلا بیٹھے ہیں۔ :) یا، آپ کی یادداشت کمزور ہے۔
 
یہ واقعہ کسی تامل فلم کا سین لگتا ہے جو حقیقت بن گیا ہو، جس میں جو پولیس آفیسر انڈر ورلڈ ڈان کا حکم نہیں مانتا اس کو فی الفور ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ ایسے آفیسر کو لگایا جاتا ہے جو مافیہ کا من پسند ہو
ایسے ٹرانسفر تو انڈر ورلڈ کی پرامپرا ہیں ، لیکن موجودہ حالات میں یہ واقعہ سرکار کے لیے حانی کارک ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے عدالتیں ان مسائل کو بھی اتنی ہی سنجیدگی اور مستعدی سے اہمیت دیں تو کتنا اچھا ہو جن پر ملک کا مستقبل منحصر ہے۔ مثلاََ پنامہ کرپشن سوئس بینکس منی لانڈرنگ وغیرہ۔
 
نصب شدہ کٹھ پتلی حکومت دہشت گرد گائے، فارم کے پھل دار درختوں، آئی جی اسلام آباد کے تبادلے اور سپریم کورٹ کے نوٹس کی مدد سے اسرائیلی طیارہ آمد و رفت جیسے مہان بلنڈر سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
مبارک ہو:)
 

جاسم محمد

محفلین
نصب شدہ کٹھ پتلی حکومت دہشت گرد گائے، فارم کے پھل دار درختوں، آئی جی اسلام آباد کے تبادلے اور سپریم کورٹ کے نوٹس کی مدد سے اسرائیلی طیارہ آمد و رفت جیسے مہان بلنڈر سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
مبارک ہو:)
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ چیف جسٹس ملک میں تحریک انصاف نافظ کر کے ہی دم لیں گے۔ فوج نے جو نصب کیا تھا وہ بار بار ایرر دے رہا ہے :)

آئی جی کا تبادلہ: ملک کو کیسے چلنا ہے اس کیس میں سمت طے کرینگے، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد جان محمد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لیے لائن طےکریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔

عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے والے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی پیش ہوئے، اٹارنی جنرل خالد جاوید، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'آپ نے عدالت کے بارے میں اس طرح کا طنزیہ بیان کیوں دیا' جس پر ان کا کہنا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا 'تو آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا، آپا زبیدہ کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں، میں نے خود سنا ہے، ابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں'۔

وزیر اطلاعات نے کہا میں عدالت کا بے حد احترام کرتا ہوں، میری جرات ہی نہیں کہ عدالت کے بارے میں کوئی بات کروں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا 'بیورو کریسی کو کردار ادا کرنا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے یہ بیان کس کا ہے' جس پر فواد چوہدری نے کہا میرا اشارہ عدلیہ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے آئین کی کتاب لہرا کر فواد چوہدری کو کہا آپ آرٹیکل فوراً پڑھیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔

عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔

فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا میں بالکل بھی اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔

متاثرہ خاندان کی درخواست دینے کی صورت میں اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی سے مکالمے کے دوران کہا کیا آپ نے سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے، آپ نے عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرا دیا، کیا وہ آپ کی طاقت کے لوگ ہیں، ان کے گھر تین دن سے چولھے نہیں جلے۔

اعظم سواتی نے کہا مجھے دھمکی آئی تھی کہ بم سے اڑا دیا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کا رقبہ کتنا ہے اور آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا سواتی صاحب آپ سے اپنی انا نہیں سنبھالی جاتی، آپ کو تو لڑائی میں بڑے کا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، یہ ہیں صادق اور امین لوگ؟ جس کے ذمے لوگوں کی حفاظت ہے، آپ کو خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیئے۔

چیف جسٹس نے کہا اس کیس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائیں گے اور ڈی جی ایف آئی اے سے تفتیش کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو حکم دیا کہ کل اپنی اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں جب کہ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے متاثرہ خاندان کی درخواست دینے کی صورت میں اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا۔

پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، اب دیکھیں گے آرٹیکل 62 ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتا ہے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لیے لائن طےکریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔

عدالت نے سماعت جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے جیل ریکارڈ اور ایف آئی آر منگوالی اور آئندہ سماعت پر آئی جی اور متاثرہ خاندان کو بھی طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سینئر اینکر پرسن سلیم صافی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، اس واقعے کی تفصیل بتائیں۔

سلیم صافی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ خاندان پہلے دن سے مقدمہ اندراج کی درخواست دے رہا ہے لیکن پولیس نے ایف آئی آردرج نہیں کی۔

سلیم صافی نے بتایا متاثرہ خاندان کو جیل بھجوانے کے بعد چھوٹے بچے بھوکے رہے جن کے پاس صرف 600 روپے تھے، پولیس کے خوف سے پڑوسیوں نے آٹا بھیجنے پر بھی بچوں کو روٹی نہیں پکا کر دی۔

سلیم صافی کے مطابق کل فاٹا ارکان پارلیمنٹ سے کچھ کو بلا کر خاندان سے زبردستی صلح کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا 'کیا یہ ہیں وہ لوگ جنہیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے؟، چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا آپ سمجھتے ہیں آپ سے باز پرس نہیں ہوسکتی۔

فواد چوہدری اور اعظم سواتی کی عدالت میں پیشی سے قبل چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے 'کہا گیا سپریم کورٹ آئی جی کو نہیں ہٹا سکتی، چیف جسٹس نے آئین کی کتاب کو لہرا کر کہا یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے اس آئین کے تحت وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن وزیراطلاعات نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، کیا اس طرح بیان دیا جاتا ہے ایسا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، غیر ذمہ داری کی بھی حد ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا 'وزیر اطلاعات جو قانون دان بھی ہے وہ یہ بیان دیتا ہے کہ ایگزیکٹو نے حکومت چلانی ہے تو الیکشن کس بات کے، انہوں نے یہ بیان دے کر کس ادارے پر طنز کیا'۔

اعظم سواتی کے گھر گائے گھس گئی کون سی قیامت آگئی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم وزیرداخلہ کا قلم دان بھی رکھتے ہیں سیکرٹری داخلہ کو علم ہی نہیں تھا، آپ کا منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا اعظم سواتی کے گھر گائے گھس گئی کون سی قیامت آگئی، بچوں کو پکڑ کے اندر کرا دیا اور ٹی وی پر کہہ رہا ہے اپنی پوزیشن واضح کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا وزیراطلاعات کس طرح کی باتیں کررہے ہیں، وہ تو قانون دان بھی ہیں جس پر کمرہ عدالت میں موجود فواد چوہدری کے بھائی چوہدری فیصل نے کہا کہ فواد چوہدری نے عدالت کی تضحیک نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا جیو اور دیگر چینلز سے وزیر اطلاعات کی ٹیپ منگوائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری ریاست کے ترجمان ہیں، کیا ریاست کا ترجمان ایسا ہوتا ہے۔

آئی جی کے تبادلے کی رپورٹ پیش

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر مملکت شہریار آفریدی نے وزیراعظم کو آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا کہا تھا اور چند روز قبل وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی آئی جی کی تبدیلی کے لیے کہا تھا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزراء آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، آئی جی کے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں جرائم اور منشیات میں اضافہ ہوا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جان محمد کے تبادلے کی سمری تیار کرنے کا حکم وزیر اعظم نے دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیا آتش فشاں پھٹ گیا تھا کہ آئی جی کے خلاف فوری اقدام کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے وزیراعظم نے پرنسپل سیکرٹری سے پہلے ہی نام طلب کر رکھے تھے، ناصر درانی سے کہا گیا تھا کہ حکومتی وژن کے مطابق اسلام آباد کے لیے امیدوار کا نام دیں اور 19 ستمبر کے بعد آئی جی اسلام آباد کے لیے انٹرویوز شروع ہوچکے تھے۔

عدالت کو اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے 2 آفیسرز کے انٹرویوز بھی کر لیے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہتے ہیں کہ آئی جی کو نگران حکومت نے لگایا تھا، آپ نے تبادلہ کرنا تھا اور پنجاب میں تو آپ نے خود لگائے گئے آئی جی کا تبادلہ کردیا اور ناصر درانی استعفی دے کر چلے گئے۔

آپ کی کیا کارکردگی ہے نظر آرہی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا آپ کی کیا کارکردگی ہے، نظر آرہی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ بات درست کہ اعظم سواتی کی شکایت ملنے پر وزیراعظم نے زبانی احکامات دیے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے فوراً سمری بنا کر بھجوائی اور وزیراعظم نے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کی منظوری دی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا 'آئی جی کو تو 27 اکتوبر کو ہٹا دیا گیا تھا، زبانی احکامات کی تصدیق 29 اکتوبر کو ہوئی، آئی جی کو تو سمری کی منظوری سے پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا 'رول فائیو الیون اے میں وزیراعظم زبانی حکم دے سکتے ہیں' جس پر چیف جسٹس نے کہا رول کے مطابق یہ اختیار ہنگامی صورتحال میں ہوتا ہے، یہ تو آپ کی طوطا کہانی تھی ہوگئی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا آئی جی اسلام آباد کے خلاف الزامات کیا تھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب انٹرویوز ہوگئے تھے کسی امیدوار کو سلیکٹ کرلیا تھا تو ایمرجینسی کی کیا ضرورت تھی، تبادلہ روٹین میں کردیتے، کیا زبانی حکم دے دینا، گھر بھیج دو ہتھکڑی لگا دو قانون کی حکمرانی ہے۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو اچانک عہدے سے ہٹانے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ انہیں وفاقی وزیر اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر عہدے سے ہٹایا گیا تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

29 اکتوبر کو ہونے والی از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ آئی جی کو وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا۔

اس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، 'آپ نے سچ بولا ہے یا نہیں ہم اس معاملے پر کمیٹی بنائیں گے، ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے، ہم نے عثمان بزدار کو یہاں پر بلایا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے استفسار کیا 'تو آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا، آپا زبیدہ کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں، میں نے خود سنا ہے، ابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں'۔
چیف جسٹس لگتا ہے سارا دن نیوز چینل دیکھتے رہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، اب دیکھیں گے آرٹیکل 62 ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتا ہے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لیے لائن طےکریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔
الحمدللہ اس باری جان بخشی نہیں ہو گی۔ اختیارات سے تجاوز کرنے والے وزرا کی نااہلی ہوگی۔
 
Top