ابتک موسی بن میمون یعنی میمونائیڈز پر کافی مواد پڑھا ہے۔ کہیں یہ نہیں ملا کہ اس نے تورات میں کوئی رد و بدل کی ہے۔ اسنے محض تورات اور یہود مذہب کی ایک نئی فلسفیانہ تشریح کی تھی۔
میراخیال ہے کہ عارف کریم کی بات صحیح ہے۔ تورات اوریہود مذہب کی جوفلسفیانہ تشریح کی تھی اس کی بھی وضاحت جان لیں
یہودیوں کے یہاں تجسیم پرزورزیادہ ہے۔ مثلا تورات میں ہے کہ یعقوب نے خدا سے کشتی لڑی اوراس طرح کی دوسری باتیں۔اسلامی معاشرہ میں رہنے اوراسلامی عقائد سے واقفیت کے بعد اس نے یہ کیاکہ تجسیم سے ہٹ کر اس نے تورات کی "تنزیہہ" کے طورپر تشریح شروع کردی۔ اس کی مزید وضاحت ہوسکتی ہے اگراس کو اہل حدیث یاسلفی وغیرہ کے اوراشاعرہ وماتریدیہ کے عقائد کے اختلافات کے تناظر میں سمجھاجائے۔
سلفیوں کااصرار ہے کہ وہ آیتیں یااحادیث جس میں اللہ کیلئے ہاتھ پیر یاکوئی جسمانی صفت بیان کی گئی ہے۔اس کو ظاہر پرماناجائے کسی قسم کی تشبیہ ،مثال اورکیفیت کی تنزیہہ کے ساتھ۔
اشاعرہ اورماتریدیہ کا کہناہے کہ وہ آیتیں جس کی لغت کے اعتبار سے کوئی قابل قبول تشریح کی جاسکتی ہے تو وہاں پر وہ لغت کا معنی بھی مراد لیاجاسکتاہے۔ مثلا قرآن میں اللہ کیلئے "ید" (ہاتھ)کا لفظ ہے۔
اس پر سلفی کہیں گے کہ آیت میں موجود ید سے ہاتھ ہی مراد ہے۔لیکن اس کی کیفیت کیاہے وہ اللہ کو ہی معلوم ہے ہم صرف اجمالی طورپر یقین رکھتے ہیں کہ آیت میں ید سے ہاتھ مراد ہے اوراس کی کفیت اللہ کومعلوم ہے اوراس سلسلے میں کسی قسم کے تشابہ کا خیال ہم نہیں کرتے۔
اشاعرہ اورماتریدیہ کہیں گے کہ ید سے مراد لغت میں قوت بھی آتاہے لہذا یہاں پر "ید"کی تاویل "قوت وطاقت"سے کی جاسکتی ہے۔
ایک دوسری مثال لیں
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے عین (آنکھ)کا لفظ آیاہے۔
اس سلسلے میں سلفی حضرات کہیں گے کہ عین سے مراد تو عین ہی ہے لیکن اس کی کیفیت کیاہے تواس کو ہم نہیں جانتے لیکن آیت پر بغیر کسی تشبیہ اورتمام تنزیہہ کے ساتھ یقین رکھتے ہیں۔
اشاعرہ اورماتریدیہ کہیں گے کہ عین سے ایک مراد نگرانی بھی ہوتی ہے لہذا یہاں پر عین کی تاویل نگرانی سے کی جاسکتی ہے۔
اس تناظر میں دیکھیں تو یہود عمومایعنی ان کے تمام فرقے تجسیم کی جانب مائل ہیں بلکہ تجسیم کی جانب مائل کیوں کہیں سرے سے تجسیم کا عقیدہ ہی رکھتے ہیں لیکن اسلامی معاشرہ سے متاثر ہوکر بالخصوص جب کہ موسی بن میمون کے وقت میں اشاعرہ اورماتریدیوں کا غلبہ تھااس نے انہی کے افکار سے متاثر ہوکر یہودیوں کے تجسیمی عقیدہ کو تنزیہہسےبدلناچاہا۔اسی بناء پر اس کو یہودی فرقہ میں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھاگیا۔