فاخر
محفلین
آہ قیصر سمستی پوری !
’دیکھتے ہی دیکھتے نایاب ہوجاؤں گا میں‘
افتخاررحمانی فاخرؔ
آہ ! قیصر سمستی پوری، میرے وطن’’سمستی پور‘‘ کی شناخت اور پہچان اب اس دنیا سے کوچ کرگئے گویا اپنے ایک مصرعہ ’’ دیکھتے ہی دیکھتے نایاب ہوجاؤں گا میں ‘‘ کی تفسیر بن گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ قیصرؔ سمستی پوری شعر و نغمہ کا ایک تابندہ ستارہ تھے ۔ ان کا اصل نام ’’افتخار احمد ‘‘ تھا ، قلمی نام ’’قیصر سمستی پوری‘‘ سے مشہور ہوئے ۔ ان کی پیدائش’’ ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ کے مطابق 19مارچ 1937 میںہوئی تھی ۔ ان کا پہلا مجموعہ ٔ کلام ’’صحیفہ‘‘ کے نام سے 1983میں شائع ہوا تھا ۔ ان کو ساز و آہنگ کے مزاج سے دست فیاض نے خصوصی طور پر نوازا تھا۔ وہ محض تاجرانہ شاعری ہی نہیں کرتے تھے ؛بلکہ سنجیدہ شاعری بھی کی اور اردو ادب میں اپنا ایک ممتاز مقام بنایا۔ ان کی شاعری مکمل طور پروہبی تھی ، البتہ اساتذہ سخن کی صحبت نے مزید جلا بخشی تھی ۔ ان کے نوک قلم سے نکلی کئی سپرہٹ قوالیاں ہرایک کی زبان پر مچلتی رہتی ہیں جس میں ’’اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دکھا دل نہ دکھا ‘‘ بھی ہے جس کوگا کر ننھا قوال رئیس انیس صابری نے ملک گیر شہرت پائی تھی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میںنے ا ن کا نام’’قیصر سمستی پوری ‘‘ پہلی مرتبہ قوالی کے کیسٹ پر پڑھا تھا،ہم وطن سمجھ کران کی طرف از خود کشش بڑھتی چلی گئی ؛کیوں کہ اس وقت میرے علم میں کوئی ایسا نام نہیں تھا جو میرے وطن کی نمائندگی کرتا ہو۔ یوں تو میں ان کو صرف ایک قوالی کا شاعرہی سمجھ رہا تھا ؛لیکن اس وقت از خود پشیمانی اٹھانا پڑی، جب یہ جانا کہ یہ محض قوالی کے شاعر نہیں ہیں ؛بلکہ سنجیدہ و متین شاعری بھی کرتے ہیں اور ان کی شاعری میں جو تنوع ہے وہی تنوع ان کو اس دور میں تمام شعراء سے ممتاز کرتا ہے ۔ ان کی عمر تقریباً ۸۵، ۸۶کی تھی۔ معروف ادبی سائٹ ’’ریختہ ‘‘ کے لیے دیئے گئے انٹرویو میں مرحوم قیصرؔ سمستی پوری نے برملا کہا تھا کہ مجھے بسوئے قسمت ایسے استاد ملے تھے جن کی بیجا شدت پسندی نے تعلیم سے متوحش کردیا تھااوردلبرداشتہ ہوکر تعلیم و تدریس سے بھاگ کھڑے ہوئے اور محلوں کے اوباشوں کے ساتھ گھو منا پھرنا مشغلہ بن گیا۔اسی دوران از خودشعر و نغمہ سے ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور معروف نعتوں ، اشعار ، قوالی اور گانوں کی پیروڈی بھی کرتے ۔ اسی دوران ان کو احساس ہوا کہ جس مشغلہ کو میں نے اختیار کیا ہے اس مشغلہ میں بغیر تعلیم کے ایک قدم بھی بڑھایا نہیں جاسکتا ۔ لیکن معاشی حالت اتنی بہتر نہیں تھی کہ ضخیم کتاب خرید کر یا اسکول کی فیس ادا کرکے اپنی تعلیم مکمل کرتے ؛ اس لیے وہ ایک آنہ دو آنہ جمع کرکے پاکٹ سائز کی سستی کتاب خرید کر پڑھتے۔پھر وہ کلکتہ گئے جہاں کئی نامور اساتذۂ سخن سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت و معیت نے ان کے وہبی فن کو مزید جلا بخشی ۔جن میں حضرت احسان دربھنگوی کا اسم گرامی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان کی شاعری کا آغاز بقول ظفر ا نصاری ظفرؔ 1950میں ہوئی ۔ پھر قوالی کی دنیا میں وہ آگئے ، وہ آئے نہیں ؛بلکہ ان کو معاشی مجبوری نے اس میدان میں گھسیٹ لایا ۔ اس کا جواب مرحوم قیصرسمستی پوری نے دیا ہے کہ میں بڑی ڈگری کا حامل تو تھا نہیں کہ کہیں مجھے ملازمت مل جاتی آوارگی سے جو کچھ مل سکا تھا، وہ شاعری تھی او راسی شاعری کو بطور معاش اختیار کرنا پڑا؛کیوں کہ بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کی کفالت بھی ان کے کندھوں پر تھی ۔یہی مجبوری تھی کہ ان کو واضح لفظوں میں کہنا پڑا کہ ؎ ’دیکھتے ہی دیکھتے نایاب ہوجاؤں گا میں‘
افتخاررحمانی فاخرؔ
اسے فن کار کیوں کہتے ہو قیصرؔ
جو دل کی دھڑکنوں کو بیچتا ہے
اس شق کا جواب ظفر انصاری نے ’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘کے مقدمہ میں لطیف و بلیغ انداز میں پیش کیا ہے ۔ظفر انصاری لکھتے ہیں : ’’ قیصر صدیقی اپنی شاعری کو سامان تجارت اور ذریعہ ٔ معاش بنا کر اس کی آمدنی سے اپنا اور اپنے بال بچوں کو پیٹ پالتے اور اپنے احساسات و جذبات کا بہ دست خود گلا گھونٹتے تھے ؛لیکن ان کی گزشتہ زندگی کو مدنظر رکھنے کے بعد اس حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ انہوں نے یہ کام کوئی شوق سے نہیں کیا ؛بلکہ ایسا کرنا ان کی مجبوری تھی ، یعنی وقت و حالات سے مجبور ہوکر انہوں نے شاعری کو ذریعہ ٔ معاش کے طور پر اپنایا جس کا اظہار انہوں نے کھلے لفظوں میں کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :
فن پاروں کا سودا کرنا ، قیصر کی مجبوری ہے
غربت سے مجبور ہے قیصرؔ، قیصرؔ سے کیا کہتے ہو‘‘
قیصرؔ سمستی پوری نے جس دور میں شاعری شروع کی تھی اس وقت ناصر کاظمی، شکیب جلالی ، جمیل مظہری جیسے قد آور اسماء غزلوں کو نئی ہیئت و ماہیت میں ڈھال رہے تھے ، ماحول کی اثر پذیری ہی کہہ لیں کہ قیصرسمستی پوری نے اس عہد میں غزلوں کی زلف پریشاں کو سنوارنے کا کام بحسن و خوبی کیا ۔ انہوں نے زلف پریشاں کو سنوارا ہی نہیں ؛بلکہ تزئینِ کاکلِ پریشاں میں ایجاد ات کے نقش بھی چھوڑے ۔ ظفر انصاری نے لکھا ہے کہ ’’لیکن استفادے کے مرحلے میں وہ مقلد محض بن کر نہیں رہے ؛بلکہ انہوں نے اس مرحلہ میں اجتہادی رویے کو روا رکھا جس کے باعث ان کی شاعری اپنا مخصوص رنگ و آہنگ رکھتی ہے ‘‘(ڈوبتے سورج کا منظر ) انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں فخریہ کہا کہ میں میرؔ تقی میر سے بڑی قربت رکھتا ہوں ؛کیوں کہ میر تقی میرؔنے اپنے جذبات کے دریچوں کو عوام کے لیے کھول رکھا تھا، ان کی شاعری عوامی تھی انہوں نے جو کچھ بھی کہا وہ عوام کے لیے ہی کہا خواص کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ قیصر سمستی پوری نے جو کچھ بھی کہا وہ عوام کے لیے ہی کہا ؛ اس لیے ان کے اشعار دلوں میں جا بستے تھے ۔اطلاع کے مطابق انہوں نے چار مجموعہ کلام ورثہ میں چھوڑی ہے ۔ جس کے نام یوں ہیں ۔(۱)اجنبی خواب کا چہرہ ، (۲)بے چراغ آنکھیں ، (۳)ڈوبتے سورج کا منظر ،(۴) یہ انجمنِ دل ہے ۔ یہ کتابیں قارئین کے لیے ’’ریختہ ڈاٹ کام ‘‘ پر موجود ہیں ۔ظفر انصاری ظفرؔ نے ان کی شاعری کے متعلق ’’ڈوبتے سورج کا منظر ‘‘ کے مقدمہ تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ البتہ راقم نے جو کچھ سرسری طور پر ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا خواہ وہ تاجرانہ شاعری ہو یا سنجیدہ شاعری ، اس کو عوام کے لیے ہی کہا ۔کئی غزلیں ایسی ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ سروش نے عالم کیف میں قیصرسمستی پوری کے کانوں میں پڑھ کر سنائے ہوں ۔جو زبان پر چڑھ کر اپنی تاثیرِ سحرسے مسحور کردیتی ہیں ۔عوام کے لیے جو کہا جائے اس میں سادگی ، برجستگی ، حقیقت ، صداقت اور دردِ دل ہوا کر تے ہیں اور برملا یہ کہنے میں تردد نہیں کہ قیصر سمستی پوری کے کلام کے اجزائے ترکیبی یہی عناصر محمودہ ہیں ۔’’ڈوبتے سورج کا منظر‘‘ کی حمدیہ غزل میں انہوں نے قبا و دستار کا مطالبہ نہیں کیا ،ایک بے ریا اور بے ضرر دہقان کی طرح زمین کی ہریالی اور شادابی مانگی ہے۔ اس غزل میں ایک مزدور کسان کے ا حساس نمایاں ہوتے ہیں، اپنی حمدیہ غزل میں کہتے ہیں ؎
کب تک آخر بندھے رہیں گے وقت کے پاؤں
میرے آج کو آج نہیں، کل دے اللہ
دوزخ کو پھر جنت کی تصویر دکھا
پھر ننگی دھرتی کو جنگل دے اللہ
اب کے دھان کے کھیت بہت ہی پیاسے ہیں
اب کے ساون بھادوں جل تھل دے اللہ
ننگی دھرتی کا تصور وہی انسان کرسکتا ہے جو زمین اور مٹی سے دل و جان سے جڑا ہو۔جو اونچے اونچے ایوانوں ، بالاخانوں اور غرفوں کے مکین ہیں انہیں ’’ننگی دھرتی ‘‘ کا ادراک نہیں ہوسکتا ہے ۔ ننگی دھرتی کا تصور ایک لطیف احساس ہے کہ جس احساس سے عوام ،بالخصوص کاشت کاروں اور کسانوں کا دل لبریز ہوا کرتا ہے ۔ پھر اگلے ہی مصرعہ میں انہوں نے ’’دھان کے کھیت ‘‘ کی حالت زار بیان کرکے ’’ ساون بھادوںجل تھل ‘‘کی دعا کرڈالی ۔ یہ اس بات کی تصدیق و تائید کے لیے کافی ہے کہ قیصر سمستی پوری عوام کے لیے ہی شاعری کرتے تھے ۔ ان کی ایک دوسری غزل کا مطلع اور حسن مطلع کے ساتھ کچھ اشعار یوں ہیں ؎
عالم بے چہرگی میں کون کس کا آشنا
آج کا ہر لفظ ہے مفہوم سے ناآشنا
کون ہوتا ہے زمانے میں کسی کا آشنا
لوگ ہونا چاہتے ہیں خود زمانا آشنا
سوچتا ہوں کون سی منزل ہے یہ ادراک کی
ذرہ ذرہ آشنا ہے، پتا پتا آشنا
چاٹ جاتی ہے جنہیں سورج کی پیاسی روشنی
کاش ہوجائیں کسی دن وہ بھی دریا آشنا
(ڈوبتے سورج کا منظر )
اس کے علاوہ ان کی تمام غزلیں جہاں فنی طور پر ماہ و نجوم ہیں وہیں عوامی احساسات کے ترجمان بھی ہیں ۔ یہی عوامی احساسات نے ان کو قیصرسمستی پوری بنایا ہے ۔ان کی غزلوں میں عشق و محبت کے افسانے بھی ہیں ، عاشقی کایوں ایک رنگ ملاحظہ کیجئے ؎
تشنگی یوں ہی بجھالیں گے ، ترے شہر میں ہم
خونِ دل اپنا اچھالیں گے ترے شہر میں ہم
تیری مرضی کو نہ ٹالیں گے ترے شہر میں ہم
اپنی میت بھی اٹھالیں گے ترے شہر میں ہم
جس کو دیکھو وہ نصیحت ہی کئے جاتا ہے
خود کو دیوانہ بنالیں گے ترے شہر میں ہم
اجڑا اجڑا ہے ترے شہر کی راتوں کا سہاگ
درد کا چاند نکالیں گے ترے شہر میں ہم
ان کی شاعری ہمہ گیر و ہمہ جہت ہے اوراس حوالے سے مفصل و محقق مقالہ لکھے جانے کی ضر ورت ہے ۔ چند سطروں کی یہ تحریر ان کی شاعری کا احاطہ نہیں کرسکتی۔کل بروز منگل 4ستمبر وہ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے ، آج 5ستمبر ان کی تجہیز و تکفین عمل میں آئے گی ۔ انہوں نے اپنے ایک شعرمیں کہا تھاآج یہ مکمل طور پر اس کی تفسیر بیان کرکے اردو ادب اور اپنے قارئین کویہ کہہ کر چھوڑ گئے ؎
’’دیکھتے ہی دیکھتے نایاب ہوجاؤں گا میں
ایک دن تیرے لیے بھی خواب ہوجاؤں گا میں ‘‘
اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے آمین۔