’قونصل خانے پر حملے میں امریکی سفیر ہلاک‘

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ مسلم ممالک ميں بے چينی اور تشدد کی فضا امريکہ کے ليے کسی بھی طرح سودمند ہے وہ يہ نظرانداز کر رہے ہيں کہ تمام تر دھمکيوں اور حملوں کا محور امريکی سفارت خانے، قونصل خانے اور مختلف ممالک ميں تعنيات امريکی سفارتی عملہ ہے۔

جو تبصرہ نگار اس صورت حال کو امريکہ کی دانستہ سازش قرار دے رہے ہيں ان کے ليے عرض ہے کہ يہ شايد انسانی تاريخ کی سب سے عجيب وغريب سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اور دانستہ اپنا ہی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے جو کہ سنير سفارتی عملے سميت امريکی شہريوں کی موت اور دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں اور املاک کے نقصان کی صورت ميں سامنے آ رہا ہے۔ صرف يہی نہيں سازش کرنے والے مسلسل اپنے خلاف پروپيگنڈہ کر کے تشدد کی ايک ايسی لہر کو جلا دے رہے ہيں جس کی زد ميں خود ان کے اپنے ہی شہری نشانہ بن رہے ہيں۔

امريکی حکومت کی جانب سے ان آئينی حدود کی وضاحت اور آزادی رائے کے اظہار کا ذکر جو امريکہ ميں رہنے والے شہريوں کا حاصل ہے اس بات کی غمازی نہيں کرتا کہ ہم کسی بھی زاويے سے اس مواد کی حمايت، تائيد يا پشت پناہی کر رہے ہيں جو موجودہ صورت حال کا سبب بنا ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اپنے بيان ميں اس فلم کو "نفرت انگيز" اور "قابل مذمت" قرار ديا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ انھوں نے تو يہ تک کہا کہ " يہ انتہائ سنکی پن سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کا مقصد اعلی وارفع مذہب کی تحقير کرنا اور اشتعال اور تشدد پر اکسانا ہے"۔

امريکی حکومت کے تمام اعلی عہديداروں کی جانب سے اس ايشو کے حوالے سے واضح بيانات امريکی شہريوں، سول سوسائٹی کے نمانيدگان اور تعليمی ميدان ميں سرکردہ قائدين کی اکثريت کے خيالات کی غمازی کرتے ہيں، جو اس بات پرتو پختہ يقين رکھتے ہيں کہ افراد کواپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے ليکن اس بات کو بھی مانتے ہيں کہ امريکہ ميں بسنے والے مسلمانوں سميت دنيا بھر ميں کئ بلين مسلمانوں کے جذبات اور مذہبی احساسات کو زک پہنچانے کے ليے کيا جانے والا کوئ بھی اقدام قابل نفرت ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہيے۔

ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ طيش ميں آئے ہوئے افراد اور احتجاج کے نام پر مظاہرين کو اس بات کا حق حاصل ہو گيا ہے کہ وہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کر ديں جن ميں بيرون ممالک کے تعنيات سفير بھی شامل ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عسکری

معطل
ہم تو کریں گے جاؤ جو کرنا ہے کر لو اور ویسے بھی تم لوگ کر ہی رہے ہو کونسی کمی چھوڑی ہے :D
 

علی خان

محفلین
ميں جانتی ہوں کہ دنيا ميں بعض لوگوں کے ليے يہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ امريکہ کيوں اس ويڈيو پر مکمل طور پر پابندی نہيں لگا سکتا۔ ميں يہ کہنا چاہوں گی کہ آج کی دنيا ميں جديد ٹيکنالوجی کے ہوتے ہوئے ايسا کرنا ناممکن ہے۔ ليکن اگر ايسا کرنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ہمارے ملک ميں آزادی اظہار رائے کی ايک ديرينہ روايت ہے جس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ہماری حکومت لوگوں کو انفرادی طور پر اپنی آراء کے اظہار کرنے سے نہيں روکتی اور نہ روک سکتی ہے چاہے وہ کتنی ہی قابل نفرت ہی کيوں نہ ہوں

اگر آپ کے ملک میں اتنی ہی آزادی اظہار رائے موجود ہے۔ تو پھر کوئی شخص انفرادی یا اجتماعی طور پر ہولوکاسٹ پر ریسرچ کیوں نہیں کر سکتا۔ ریسیرچ تو دور کی بات ہولوکاسٹ کے متعلق بات کرنا بھی قانونی جرم ہے۔ کیا یہ ہے امریکہ کی اظہاررائے کا حق جسمیں ایک جھوٹی کہانی پر بات کرنا بھی گناہ ہے۔ اور دوسری طرف جب بات مسلمانوں کی آتی ہے۔ تو پھر آزادی اظہار رائے کا راگ شروع کر دیتے ہوں تم لوگ۔ شیم آن دس۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

وہ رائے دہندگان جو يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت غير منصفانہ طرزعمل اختيار کرتے ہوئے آزادی رائے کے اظہار کے آئينی قوانين کا سہارا لے رہی ہے اور اس آڑ ميں ان لوگوں کی پشت پناہی کر رہی ہے جو اس فلم کے پيچھے ہيں، انھيں يہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہيے کہ وہی آئينی حقوق اور قواعد وضوابط جن کی بنياد پر ہمارے معاشرے کا تانا بانا قائم ہے وہ معاشرے کے کسی ايک مکتبہ فکر يا ايک مخصوص گروہ کے ليے نہيں ہيں۔ امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں سميت لاکھوں مسلمان بھی اسی آزادی اور آئينی حقوق کے اتنے ہی مستحق ہيں جو ديگر امريکی شہريوں کو حاصل ہيں۔ آپ کے خيال ميں اگر امريکی حکومت کسی مخصوص گروہ يا شخص کے احتجاج يا ايما پر امريکہ ميں بسنے والے مسلمانوں پر مذہبی تعليمات کی ترويج کے ضمن ميں پابندياں عائد کر دے تو اس صورت ميں ردعمل کيا ہو گا؟ اگر امريکی حکومت دنيا بھر سے آئے ہوئے تبليغی جماعتوں کو امريکہ بھر ميں سفر کرنے اور اسلامی تعليمات کی تبليغ سے نہيں روکتی تو پھر اسی مروجہ اصول اور آئينی فريم ورک کے تحت امريکی معاشرے ميں بسنے والے ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، باوجود اس کے کہ يہ رائے معاشرے کے ديگر طبقوں کے ليے کتنی ہی قابل نفرت يا قابل مذمت کيوں نہ ہو۔

اس ميں کوئ شک نہیں کہ جن افراد نے يہ اشعال انگيز فلم بنائ ہے ان کی اس حرکت کے نتيجے ميں مقامی مسلم کميونٹی اور دنيا بھر ميں اضطراب اور بے چينی پيدا ہونے کا امکان موجود ہے۔ يہی وجہ ہے کہ امريکيوں کی ايک کثير تعداد نے اس حرکت کی شديد مذمت کی ہے اور واضح الفاظ میں اسے غلط قرار ديا ہے۔ ليکن محض ايک فرد يا مختصر سے گروہ کی وجہ سے ان ہمہ گير اصولوں کو پس پشت نہيں ڈال دينا چاہيے جو آزادی رائے کے قوانين کی بنيادی اساس ہيں۔ يہ ياد رکھنا چاہیے کہ امريکہ ميں مسلمانوں سميت آبادی کے ايک بڑے حصے کے لیے انھی اصولوں اور قوانين کی بدولت خير اور اچھائ کا پہلو بھی نکلتا ہے جس ميں مسلمانوں کے لیے بغیر کسی خوف وخطر کے اسلام کی تبليغ کرنا بھی شامل ہے۔

امريکہ کا مذہبی آزادی اور رائے کی آزادی کے حوالے سے مصمم ارادہ قوم کے بانيوں کے دور سے ہی انتہائ مضبوط رہا ہے اور يہ سوچ اب آئين کا حصہ بن چکی ہے۔ ہم قطعی طور پر مذہبی عدم برداشت کو مضبوطی سے رد کرتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

طالوت

محفلین
بڑا سادہ سا سوال فواد صاحب جس پر اعتراض بھی ہزار ہا بار ہوتا ہے ۔ امریکی قانون ہولو کاسٹ پر اظہار رائے میں کتنی آزادی دیتا ہے ؟

اگر ہولوکاسٹ پر کہنے کی آزادی نہیں تو آپ اس کو کیسے جسٹی فائی کریں گے ؟؟

یورپی ممالک کے بارے میں تو میں جانتا ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ ميں آزادی رائے کے اظہار سے متعلق قوانين اور استحقاق صرف مسلمانوں پر تنقيد کے ليے ہی استعمال ہوتا ہے۔ ايسی بے شمار مثاليں موجود ہيں جن ميں يہوديوں اور عيسائيوں سميت ديگر مذائب کو بھی ہدف تنقيد بنايا گيا اور ان پر منفی انداز ميں بحث کی گئ۔ يہ بات بھی حقيقت پر مبنی نہيں ہے کہ امريکہ ميں کوئ بھی ہالوکاسٹ کے حوالے سے بات نہيں کر سکتا۔ بلکہ ايران کے صدر نے اس حوالے سے جو مشہور زمانہ بيان ديے تھے، ان ميں سے کچھ امريکی ميڈيا کے پليٹ فارمز کو استعمال کر کے ديے گئے تھے۔ کسی نے بھی ان کو اپنے نقطہ نظر پيش کرنے سے روکنے کی کوشش نہيں کی۔

امريکی فيڈرل حکومت اور اسٹيٹ کی سطح پر حکومتی نظام پر امريکی آئين کے اظہار رائے کی آزادی سے متعلق شق کی بدولت يہ پابندی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی تقرير يا بيان پر قدغن لگائيں۔ يہاں تک کہ وہ تقارير جو غير قانونی تشدد کی حوصلہ افزائ کرتی ہيں ان کے حوالے سے سے صرف وہی عمل جرم سے تعبير کيا جاتا ہے جہاں تشدد کے حوالے سے خطرات ناگزير ہو جائيں۔

جہاں تک امريکہ ميں "اينٹی سيميٹزم" اور "ہيٹ سپيچ" کے حوالے سے رائج قوانين سے متعلق سوال ہے تو میں واضح کر دوں کہ اس کا اطلاق اسی صورت ميں ہوتا ہے جب کوئ فرد يا گروہ کسی مخصوص گروپ سے متعلق دانستہ تشدد کی ترغيب میں ملوث ہو۔ قانون کی تشريح کے مطابق "ہيٹ سپيچ" وہ تقرير ہوتی ہے جو نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائ اور ترغيب ديتی ہے۔
[SIZE=5[/SIZE]
میں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکی حکومت يقينی طور پر اظہار رائے کی آزادی کا مکمل احترام کرتی ہے ليکن ملک کے اندر مسلمانوں سميت کسی بھی گروہ کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی روک تھام کے ليے پوری طرح پرعزم ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

قیصرانی

لائبریرین
نہ جانے کیوں امریکیوں کو جھوٹ بولتے وقت شرم ہرگز نہیں آتی۔ ٹیری جونز اتنا کاکا تھا کہ اس نے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حُرمتی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور ان کے اپنے امریکی اس رد عمل میں اپنے انجام کو پہنچے لیکن ابھی بھی یہ ان مذموم حرکات کو شعوری کوشش نہیں سمجھتے۔ ایک لاشعور امریکی کی حرکت سے یہ سب ہو گیا تو جب یہ ٹیری جونز اور اس کے چیلے چانٹے متعصب مذہبی دہشت گرد شعوری طور پر کچھ کریں گے تو دنیا خود ہی سمجھ لے کہ یہ کیا کریں گے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب و دھرم ان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گا اور یہ سب کیا جائے گا آزادی اظہار کے نام پر۔



جواز تو بہت ساری باتوں کا بھی نہیں تھا ۔ عراق اور افغانستان کو مکمل تباہ کرنے کا بھی جواز نہیں تھا۔ اس ملعون نام نہاد فسادی پادری کی مکروہ حرکتوں کا بھی کوئی جواز نہ تھا۔ جب اس کی حرکتوں پر توجہ نہ دی گئی تو ناروے کے دہشت گرد اور امریکہ میں سکھوں کے مذہبی مقام پر حملہ کرنے والوں کو تقویت ملی ۔ اب آپ کے اپنے سرکاری درباری لوگ اس آگ کا ایندھن بنے ہیں تو چلائیے مت بلکہ اپنے اندر موجود مذہبی دہشت گردوں کی خبر لیجئے ورنہ یہ آگ اب بڑی تیزی سے تمہاری طرف بڑھ رہی ہے۔ منافقانہ واویلا اب کچھ اثر نہیں کرنے والا۔


ذرا غور فرمائیے کہ ان کی سوچ کس قدر سطحی ہے ۔ دل آزار فلم کو اشتعال انگیز کہہ رہے ہیں اور اس کے رد عمل کو شیطانی فعل۔ امریکیو صدقے تمہاری عقل اور کاریگری کے۔ شیطانی فعل تمہارے اپنے امریکی نے انجام دیا ہے اور اس کے رد عمل میں اشتعال پھیلا ہے ۔ ہم پاکستانی اشتعال و تشدد کی کبھی حمایت نہیں کرتے اور کسی قسم کے خون خرابے کو پسند نہیں کرتے لیکن جب جب تُم اپنی کاریگری سے مجرموں کو تحفظ دینے کا عمل جاری رکھو گے تب تب ہم اپنی آواز سے تمہارے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
ساجد بھائی، سنا ہے کہ اصل فلم قابل اعتراض نہیں بعد میں اس پر جو سب ٹائٹل اور ڈبنگ کی گئی ہے، وہ اصل قابل اعتراض ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی، سنا ہے کہ اصل فلم قابل اعتراض نہیں بعد میں اس پر جو سب ٹائٹل اور ڈبنگ کی گئی ہے، وہ اصل قابل اعتراض ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
سب ٹائٹل اور ڈبنگ میں تو انہوں نے کسی اخلاقی پہلو کا پاس ہی نہیں رکھا ۔ فلم کا تھیم بھی اسلام کو نعوذ بااللہ شیطان کی تعلیم بتانے کی کوشش پر مبنی ہے۔ اور اس کام کے لئے بخاری شریف کی احادیث اور قرآنی آیات کو انتہائی غلط طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ 1942 میں مکہ میں آنے والے سیلاب کو انتہائی مذموم طریقے سے ایک نہایت واہیات بات کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ غرضیکہ اسلام اور اسلامی عقائد کو ہر لحاظ سے مطعون کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے۔
 
Top