’لڑائی بہت ہو چکی، سیاسی حل ہونا چاہیے‘

افغانستان میں امریکی فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل سٹینلے میکرسٹل نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال میں پیش رفت کے لیے طالبان سے امن بات چیت کی جانی چاہیے۔

جنرل سٹینلے میکرسٹل نے برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑائی بہت ہوچکی‘ اور اب وہ اس جنگ کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔

کلِک ’افغانستان میں مکمل ناکامی کا خطرہ ہے‘

انہوں نے کہا کہ صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوج کی تعیناتی سے طالبان اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ انہیں امن معاہدے کے لیے مجبور کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان مستقبل میں اس ملک کو چلانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغانستان سے متعلق لندن میں عالمی اجلاس ہونے والا ہے۔

جنرل سٹینلے میکرسٹل نے کہا ’میں چاہوں گا کہ سب لوگ لندن سے ایک نئے عزم کے ساتھ نکلیں۔ اور وہ عزم افغان عوام کے لیے بہترین حل کا ہونا چاہیے۔‘

حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پیسے یا روزگار کی پیشکش کے منصوبے کے ذریعے طالبان جنگجوؤں کو عام زندگی کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔
’امن کی پیشکش کرنا میرا کام نہیں ہے لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد کروں جہاں صحیح عہدوں پر بیٹھے افراد کے لیے آگے بڑھنے کے لیے مختلف حل موجود ہوں۔‘

صدر حامد کرزئی لندن میں ہونے والے اجلاس میں طالبان سے بات چیت کرنے کے معاملے پر بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

جنرل سٹینلے میکرسٹل نے فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک فوجی کی حیثیت سے مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کافی ہو چکی ہے۔میرا ماننا ہے کہ آخر کار جنگوں کا سیاسی حل ہی نکلتا ہے جو کہ ایک صحیح نتیجہ ہے۔‘

جنرل سٹینلے میکرسٹل نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے افغانستان میں تیس ہزار امریکی فوجییوں کی تعیناتی اور اس کے علاوہ نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے سات ہزار اضافی فوج بھیجنے سے مثبت نتائج حاصل ہونے چاہئیں۔

’امن کی پیشکش کرنا میرا کام نہیں ہے لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ایسے حالات پیدا کرنے میں مدد کروں جہاں صحیح عہدوں پر بیٹھے افراد کے لیے آگے بڑھنے کے لیے مختلف حل موجود ہوں۔‘

جنرل سٹینلے میکرسٹل نے یہ بھی کہا کہ طالبان مستقبل میں افغان حکومت میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

’میرے خیال میں اگر افغان ماضی کی بجائے مستقبل پر غور کریں تو کوئی بھی افغانی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/01/100125_taliban_talks_aw.shtml
 

Fari

محفلین
900 چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔۔۔ :skull:

جنرل صاحب کی تھوڑی تصیح کرانی ضروری ہے کہ جس کو وہ لڑائی کا نام دے رہے ہیں وہ "مزاحمت" کہلاتی ہے شاید-
اپنی پوری طاقت کے ساتھ کسی بھی مسلمان ملک پر حملہ کردو اور جب مزاحمت کا سامنا ہو تو مزید فوجیں لے آؤ- دہشت گردوں کا لقب بھی ان "مزاحمتیوں" کو عطا کرو جو اپنی جان بچانا چا ہیں---- کیا پالیسی ہے--:applause:
 
آج کی دو خبریں بلاتبصرہ پیش خدمت ہیں:

لندن کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی جائیگی، ہالبروک
.پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اس ہفتے کے آخر میں ہونے والی لندن انٹرنیشنل کانفرنس میں عالمی طاقتیں طالبان سے مذاکرات کی تجویز کی حمایت کریں گی۔افغانستان کے مستقبل پر لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 28جنوری کو لندن میں عالمی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں عالمی قوتوں سمیت65ممالک کے وفود شرکت کر رہے ہیں۔افغان صدر حامد کرزئی کانفرنس میں افغان طالبان کو مذاکرات میں شامل کرکے معاشرے کا حصہ بنانے کی تجویز دیں گے۔ جس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خطے کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کانفرنس میں صدر کرزئی کی اس تجویز کی حمایت کی جائے گی ۔اگر افغانستان میں مقامی سطح کی طالبان قیادت القاعدہ سے تعلق ختم کر دیتی ہے اورلڑائی چھوڑ کر افغان معاشرے کا حصہ بننے کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

پاکستان انتہاپسندی کیخلاف جنگ میں مزید تیزی لائے، امریکا
واشنگٹن ... امریکا نے کہا ہے کہ پاک افغان خطے کے مستقبل کیلئے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس لیے وہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں مزید تیزی لائے۔صدر براک اوباما کے قومی سلامتی مشیر جنرل ریٹائرڈ جیمز جونز نے تھنک ٹینک سینٹرآف امریکن پراگریس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں تیزی سے مقاصد حاصل کرنے کا انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عزم سے براہ راست تعلق ہے۔ جیمز جونز کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات یقینی بنائے گی۔ اور پاکستان کو باور کرایا جائے گا کہ نہ صرف افغانستان بلکہ خود اس کیلئے بھی یہ وقت بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ طویل مدتی اسٹریٹیجک تعلقات کا خواہاں ہے۔ جس کا مقصد صرف سیکیورٹی کے میدان میں ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کے جمہوری مستقبل کیلئے فائدہ مند تعاون ہے۔
 

arifkarim

معطل
ہاہااہاہاہا۔ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ امریکہ کی جب آتی ہے تو مذاکرات کی میز کی طرف بھاگتا ہے!
امریکی ہر مسئلے کا حل پہلے دھمکیوں سے، پھر لڑائی سے اور اگر اس سے بھی کام نہ بنے تو مذاکرات سے ڈھونڈتے ہیں!
 

ساجد

محفلین
آج کی دو خبریں بلاتبصرہ پیش خدمت ہیں:

لندن کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی جائیگی، ہالبروک
.پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ افغانستان کے مستقبل پر اس ہفتے کے آخر میں ہونے والی لندن انٹرنیشنل کانفرنس میں عالمی طاقتیں طالبان سے مذاکرات کی تجویز کی حمایت کریں گی۔افغانستان کے مستقبل پر لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 28جنوری کو لندن میں عالمی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں عالمی قوتوں سمیت65ممالک کے وفود شرکت کر رہے ہیں۔افغان صدر حامد کرزئی کانفرنس میں افغان طالبان کو مذاکرات میں شامل کرکے معاشرے کا حصہ بنانے کی تجویز دیں گے۔ جس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خطے کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کانفرنس میں صدر کرزئی کی اس تجویز کی حمایت کی جائے گی ۔اگر افغانستان میں مقامی سطح کی طالبان قیادت القاعدہ سے تعلق ختم کر دیتی ہے اورلڑائی چھوڑ کر افغان معاشرے کا حصہ بننے کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

پاکستان انتہاپسندی کیخلاف جنگ میں مزید تیزی لائے، امریکا
واشنگٹن ... امریکا نے کہا ہے کہ پاک افغان خطے کے مستقبل کیلئے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس لیے وہ انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں مزید تیزی لائے۔صدر براک اوباما کے قومی سلامتی مشیر جنرل ریٹائرڈ جیمز جونز نے تھنک ٹینک سینٹرآف امریکن پراگریس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں تیزی سے مقاصد حاصل کرنے کا انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عزم سے براہ راست تعلق ہے۔ جیمز جونز کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات یقینی بنائے گی۔ اور پاکستان کو باور کرایا جائے گا کہ نہ صرف افغانستان بلکہ خود اس کیلئے بھی یہ وقت بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ طویل مدتی اسٹریٹیجک تعلقات کا خواہاں ہے۔ جس کا مقصد صرف سیکیورٹی کے میدان میں ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کے جمہوری مستقبل کیلئے فائدہ مند تعاون ہے۔
ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔
دو خبروں کے تقابل سے ہی امریکی انتظامیہ کی منافقت عیاں ہے۔
 

آفت

محفلین
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی امریکہ اس علاقے سے نکل گیا تھا اور افغانیوں کو آپس میں لڑنے کے لیے چھوڑ گیا اور اب پھر امریکہ کسی نہ کسی بہانے افغانستان سے نکلنے کی سوچ رہا ہے ۔ کاش امریکہ کسی بھی عمل سے پہلے اس کے نتیجے پر بھی دھیان دے لیا کرے ۔ دہشت گردی کے اسباب ختم کرے ، دنیا سے بھوک افلاس ختم کرے تو سب مسئلے خود حل ہو جائیں گے ۔ امن کے لیے مزید امن کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ جنگ کی ۔
 

Fari

محفلین
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی امریکہ اس علاقے سے نکل گیا تھا اور افغانیوں کو آپس میں لڑنے کے لیے چھوڑ گیا اور اب پھر امریکہ کسی نہ کسی بہانے افغانستان سے نکلنے کی سوچ رہا ہے ۔ کاش امریکہ کسی بھی عمل سے پہلے اس کے نتیجے پر بھی دھیان دے لیا کرے ۔ دہشت گردی کے اسباب ختم کرے ، دنیا سے بھوک افلاس ختم کرے تو سب مسئلے خود حل ہو جائیں گے ۔ امن کے لیے مزید امن کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ جنگ کی ۔


اگر امریکہ :devil: یہ سب کر ے گا تو اس کی "اس دنیا پر حکومت" کے خواب کا کیا ہوگا:confused:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

افغانستان ميں امريکہ کی پاليسی کے حوالے سے جرنل مککرسٹل اور رچرڈ ہالبروک نے جو حاليہ بيانت ديے ہيں وہ دراصل اسی سوچ اور موقف کا اعادہ ہے کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان، عراق اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں پر يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے براہراست طالبان سے مذاکرات زير غور نہيں ہيں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتيں کی جانب سے مصالحتی عمل کے ضمن ميں پاليسياں موجود ہيں۔ ہم پہلے بھی اور اب بھی ان پاليسيوں کی حمايت کرتے ہيں۔

رچرڈ ہالبروک نے مقامی جنگجوؤں کو سياسی دائرے ميں شامل کرنے سے متعلق پروگرام کی افاديت اور اس سے متعلق اپنی سوچ اور منطق کو اس بيان سے واضح کيا ہے

"قريب 70 فيصد افراد جو طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ کر رہے ہيں وہ طالبان اور القائدہ کی سوچ اور نظريات سے منسلک نہيں ہيں۔ وہ يا تو مقامی سطح پر محروميوں کے نتيجے ميں لڑائ ميں شامل ہوئے ہيں يا اتحادی افواج کی افغانستان ميں موجودگی کے مقاصد کے حوالے سے انھيں بہکايا گيا ہے۔ اب تک ايسا کوئ پروگرام موجود نہيں ہے جو ان افراد کو دوبارہ سياسی دائرے ميں واپس لا سکے۔ يہ ايک طرح سے روزگار کی فراہمی کا پروگرام بھی ہے۔ اگر ان افراد کو روزگار اور تحفظ فراہم کيا جائے اور انھيں اتحادی افواج کی افغانستان ميں موجودگی کے مقاصد کے حوالے سے اعتماد ميں ليا جائے تو ميرے خيال ميں ان ميں سے بہت سے افراد دوبارہ معاشرے کا حصہ بن سکتے ہيں۔ کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ انھيں روزگار کے مناسب مواقعوں اور زمين کی فراہمی کے پروگرام کے ذريعے لڑائ کے ميدان سے واپس لا کر معاشرے کا حصہ بنايا جائے؟"

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ رچرڈ ہالبروک نے جنگجوؤں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے پروگرام اوراس مصالحتی عمل ميں فرق واضح کيا ہے جو طالبان کی نظرياتی ليڈرشپ سے متعلق ہے۔

امريکی حکومت کا اصل ہدف، فوکس اور کوشش ہميشہ سے يہی رہی ہے کہ مسلسل عمل اور صلاحيتوں ميں اضافے کے ذريعے سيکورٹی کی تمام تر ذمہ داری افغان باشندوں کے سپرد کی جا سکے تا کہ وہ خود اپنے ملک کے تحفظ اور ترقی کو يقينی بنا سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fari

محفلین
افغانستان ميں امريکہ کی پاليسی کے حوالے سے جرنل مککرسٹل اور رچرڈ ہالبروک نے جو حاليہ بيانت ديے ہيں وہ دراصل اسی سوچ اور موقف کا اعادہ ہے کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان، عراق اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

www.state.gov


امریکہ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟:yawn: امریکہ اپنی عالمی دہشت گردی کب بند کرے گا؟:hurryup:
کیا امریکہ کو اتنی چھوٹی سی بات معلوم نہیں کہ باقی دنیا کو امریکہ کی کسی نام نہاد مدد کی ضرورت نہیں ہے- امریکہ اگر صرف اس دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دے تو یہ ہی بڑا احسان عظیم ہو گا اس دینا پر اس کا- :rolleyes::
 

arifkarim

معطل
امريکی حکومت کا اصل ہدف، فوکس اور کوشش ہميشہ سے يہی رہی ہے کہ مسلسل عمل اور صلاحيتوں ميں اضافے کے ذريعے سيکورٹی کی تمام تر ذمہ داری افغان باشندوں کے سپرد کی جا سکے تا کہ وہ خود اپنے ملک کے تحفظ اور ترقی کو يقينی بنا سکيں۔
یہاں تک کہ امریکی دوبارہ انپر وارد ہو سکیں! :)
 

شاہ حسین

محفلین
امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

افغانستان ميں امريکہ کی پاليسی کے حوالے سے جرنل مککرسٹل اور رچرڈ ہالبروک نے جو حاليہ بيانت ديے ہيں وہ دراصل اسی سوچ اور موقف کا اعادہ ہے کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان، عراق اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں پر يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے براہراست طالبان سے مذاکرات زير غور نہيں ہيں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتيں کی جانب سے مصالحتی عمل کے ضمن ميں پاليسياں موجود ہيں۔ ہم پہلے بھی اور اب بھی ان پاليسيوں کی حمايت کرتے ہيں۔

رچرڈ ہالبروک نے مقامی جنگجوؤں کو سياسی دائرے ميں شامل کرنے سے متعلق پروگرام کی افاديت اور اس سے متعلق اپنی سوچ اور منطق کو اس بيان سے واضح کيا ہے

"قريب 70 فيصد افراد جو طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ کر رہے ہيں وہ طالبان اور القائدہ کی سوچ اور نظريات سے منسلک نہيں ہيں۔ وہ يا تو مقامی سطح پر محروميوں کے نتيجے ميں لڑائ ميں شامل ہوئے ہيں يا اتحادی افواج کی افغانستان ميں موجودگی کے مقاصد کے حوالے سے انھيں بہکايا گيا ہے۔ اب تک ايسا کوئ پروگرام موجود نہيں ہے جو ان افراد کو دوبارہ سياسی دائرے ميں واپس لا سکے۔ يہ ايک طرح سے روزگار کی فراہمی کا پروگرام بھی ہے۔ اگر ان افراد کو روزگار اور تحفظ فراہم کيا جائے اور انھيں اتحادی افواج کی افغانستان ميں موجودگی کے مقاصد کے حوالے سے اعتماد ميں ليا جائے تو ميرے خيال ميں ان ميں سے بہت سے افراد دوبارہ معاشرے کا حصہ بن سکتے ہيں۔ کيا يہ بہتر نہيں ہے کہ انھيں روزگار کے مناسب مواقعوں اور زمين کی فراہمی کے پروگرام کے ذريعے لڑائ کے ميدان سے واپس لا کر معاشرے کا حصہ بنايا جائے؟"

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ رچرڈ ہالبروک نے جنگجوؤں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے پروگرام اوراس مصالحتی عمل ميں فرق واضح کيا ہے جو طالبان کی نظرياتی ليڈرشپ سے متعلق ہے۔

امريکی حکومت کا اصل ہدف، فوکس اور کوشش ہميشہ سے يہی رہی ہے کہ مسلسل عمل اور صلاحيتوں ميں اضافے کے ذريعے سيکورٹی کی تمام تر ذمہ داری افغان باشندوں کے سپرد کی جا سکے تا کہ وہ خود اپنے ملک کے تحفظ اور ترقی کو يقينی بنا سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

آپ اچھا لکھتے ہیں ۔

مگر جب کوئی منافقت کرتا ہے تو مجھے بہت غصہ آتا ہے ۔ :timeout:
 
Top