منقب سید
محفلین
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام
ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔ نئی نسل سے ربط نہ رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مجھ جیسوں کا خودساختہ خول برقرار رہتا ہے اور میں ماضی کے عصا سے ٹیک لگائے کمر پر ہاتھ دھرے کہہ سکتا ہوں کہ میاں ہم نے جو زمانہ گزار لیا وہ آج کے لمڈوں لپاڑوں کو کہاں نصیب۔
پڑھائی لکھائی ہوتی تھی ہمارے زمانے میں۔اب تو تعلیم کے نام پے گھاس کھودی جارہی ہے۔ ادب تو لکھا جا چکا ہمارے لڑکپن میں اب نہ وہ زبان رہی اور نہ وہ دماغ باقی ہیں۔ شاعری تو پڑھی ہے ہم نے۔ آج کا لڑکا مصرعہ چھوڑ ایک جملہ ہی درستی سے پڑھ دکھائے تو سمجھو معجزہ ہے۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔پتہ نہیں اس نسل کا کیا بنے گا۔
مگر اے میرے ہم عمر ادھیڑ عمرو اور بوڑھو یقین کر لو کہ تمہارے دورِ جوانی کی طرح اس نسل کو بھی کسی سرپرستانہ ترس کی محتاجی نہیں ہے۔
یہ لڑکے لڑکیاں بھی اتنے ہی باغی ، مایوس ، پرجوش ، صلح جو ، جھگڑالو ، زہین ، بےوقوف ، پڑھےلکھے ، جاہل اور درست و نادرست کی تمیز رکھتے ہیں جتنی تمیز میری یا میرے باپ یا دادا کی نسل کو تھی۔ نہ کم نہ زیادہ۔ یہ ہمارے تمہارے فلانے زمانے کا مسئلہ نہیں جینیات و سرشت کا معاملہ ہے۔
ہرن کا بچہ ہرن ہی ہوتا ہے اور ہاتھی کا بچہ کمزور بھی ہو تو ہاتھی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
آج کا نوجوان بھی گردو پیش کو ایسے ہی محسوس کر رہا ہے جیسے ایک صدی پہلے سیالکوٹ کا ایک برخوردار فیض احمد یا ان سے بھی پہلے محمد اقبال نامی لڑکا محسوس کر رہا تھا۔
ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔
کل ہی مجھے ایک نوجوان اتفاقاً ٹکرا گیا ۔دیکھنے میں ویسا ہی لاابالی سا جیسے ہر دور کے لڑکے بالے عموماً ہوتے ہیں۔اور پھر اس نے یہ نظم سنا دی۔
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے
نہ کوئی غم ستاتا ہے ،
شکست و نارسائی کا کوئی ردِ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا،
خطِ غربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و ننگ و غربت پر کوئی جنبش ہی کرتے ہیں
نہ آوازہ اٹھاتے ہیں،
انہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ مردہ ہیں
کہ ان کی روح ان کے جسم میں ہی مرچکی ہے
اور اب یہ لوگ زندہ لاش کی مانند جیتے ہیں
یہ شہرِ رم کے قبرستان کی گنتی کا حصہ ہیں
تعجب ہے کہ یہ لاشیں ہی جلسہ گاہوں کو آباد کرتی ہیں
ذرا سی دیر میں ان کے شکستہ اور مردہ جسم میں پھر جان پڑتی ہے
یہ اپنے ناخدا کی شان میں بیٹھی ہوئی آواز سے نعرے لگاتی ہیں
ترانوں کی لہک میں جھومتی ہیں اور گاتی ہیں
یہ مردے
بھول جاتے ہیں کہ اگلے سامراجی جانشینوں نے انہیں کیسے دبوچا تھا ،
ملی جب خلعتِ شاہی تو کیونکر روند ڈالا تھا
سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو ایسا نہیں ہوگا
ہوا تھا پہلے جیسے کم سے کم ویسا نہیں ہوگا۔
مگر افسوس کہ ان سامراجی جانشینوں کی بس اتنی سی حقیقت ہے
یہ اپنے نفس کی چوٹی پے بیٹھے گدھ ہیں
اور مردار کھاتے ہیں۔
( نعیم سمیر )
(کالم نگار کی تحریر محفلین کے ملاحظے کی نیت سے پیش کی جا رہی ہے بشکریہ بی بی سی لنک )
ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔ نئی نسل سے ربط نہ رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مجھ جیسوں کا خودساختہ خول برقرار رہتا ہے اور میں ماضی کے عصا سے ٹیک لگائے کمر پر ہاتھ دھرے کہہ سکتا ہوں کہ میاں ہم نے جو زمانہ گزار لیا وہ آج کے لمڈوں لپاڑوں کو کہاں نصیب۔
پڑھائی لکھائی ہوتی تھی ہمارے زمانے میں۔اب تو تعلیم کے نام پے گھاس کھودی جارہی ہے۔ ادب تو لکھا جا چکا ہمارے لڑکپن میں اب نہ وہ زبان رہی اور نہ وہ دماغ باقی ہیں۔ شاعری تو پڑھی ہے ہم نے۔ آج کا لڑکا مصرعہ چھوڑ ایک جملہ ہی درستی سے پڑھ دکھائے تو سمجھو معجزہ ہے۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔پتہ نہیں اس نسل کا کیا بنے گا۔
مگر اے میرے ہم عمر ادھیڑ عمرو اور بوڑھو یقین کر لو کہ تمہارے دورِ جوانی کی طرح اس نسل کو بھی کسی سرپرستانہ ترس کی محتاجی نہیں ہے۔
یہ لڑکے لڑکیاں بھی اتنے ہی باغی ، مایوس ، پرجوش ، صلح جو ، جھگڑالو ، زہین ، بےوقوف ، پڑھےلکھے ، جاہل اور درست و نادرست کی تمیز رکھتے ہیں جتنی تمیز میری یا میرے باپ یا دادا کی نسل کو تھی۔ نہ کم نہ زیادہ۔ یہ ہمارے تمہارے فلانے زمانے کا مسئلہ نہیں جینیات و سرشت کا معاملہ ہے۔
ہرن کا بچہ ہرن ہی ہوتا ہے اور ہاتھی کا بچہ کمزور بھی ہو تو ہاتھی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
آج کا نوجوان بھی گردو پیش کو ایسے ہی محسوس کر رہا ہے جیسے ایک صدی پہلے سیالکوٹ کا ایک برخوردار فیض احمد یا ان سے بھی پہلے محمد اقبال نامی لڑکا محسوس کر رہا تھا۔
ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔
کل ہی مجھے ایک نوجوان اتفاقاً ٹکرا گیا ۔دیکھنے میں ویسا ہی لاابالی سا جیسے ہر دور کے لڑکے بالے عموماً ہوتے ہیں۔اور پھر اس نے یہ نظم سنا دی۔
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے
نہ کوئی غم ستاتا ہے ،
شکست و نارسائی کا کوئی ردِ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا،
خطِ غربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و ننگ و غربت پر کوئی جنبش ہی کرتے ہیں
نہ آوازہ اٹھاتے ہیں،
انہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ مردہ ہیں
کہ ان کی روح ان کے جسم میں ہی مرچکی ہے
اور اب یہ لوگ زندہ لاش کی مانند جیتے ہیں
یہ شہرِ رم کے قبرستان کی گنتی کا حصہ ہیں
تعجب ہے کہ یہ لاشیں ہی جلسہ گاہوں کو آباد کرتی ہیں
ذرا سی دیر میں ان کے شکستہ اور مردہ جسم میں پھر جان پڑتی ہے
یہ اپنے ناخدا کی شان میں بیٹھی ہوئی آواز سے نعرے لگاتی ہیں
ترانوں کی لہک میں جھومتی ہیں اور گاتی ہیں
یہ مردے
بھول جاتے ہیں کہ اگلے سامراجی جانشینوں نے انہیں کیسے دبوچا تھا ،
ملی جب خلعتِ شاہی تو کیونکر روند ڈالا تھا
سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو ایسا نہیں ہوگا
ہوا تھا پہلے جیسے کم سے کم ویسا نہیں ہوگا۔
مگر افسوس کہ ان سامراجی جانشینوں کی بس اتنی سی حقیقت ہے
یہ اپنے نفس کی چوٹی پے بیٹھے گدھ ہیں
اور مردار کھاتے ہیں۔
( نعیم سمیر )
(کالم نگار کی تحریر محفلین کے ملاحظے کی نیت سے پیش کی جا رہی ہے بشکریہ بی بی سی لنک )