’ڈاکٹروں کی قلت بہت بڑا چیلنج ہے‘
عنبر شمسیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
Image captionپاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں
اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں میڈکل کالج کے چوتھے سال کے طلبا کی کلاس جاری ہے جس کا موضوع گلے کی بیماریاں ہیں۔
اس کلاس کے استاد عملی مظاہرے کے لیے ایک اصلی مریضہ کا معائنہ 20 طلبا کے سامنے کر رہے ہیں۔ چونکہ مریضہ مرد ڈاکٹروں سے معائنہ نہیں کروانا چاہتیں، اسی لیے استاد خواتین طلبا کو بلاتے ہیں۔
اس مظاہرے کے لیے انھیں خواتین طالبِ علموں کے چناؤ میں کوئی مسلہ نہیں ہے، کیونکہ کلاس میں 17 لڑکیاں ہیں اور صرف تین لڑکے ہیں۔
پاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں۔
ان کالجوں میں داخلہ آسان نہیں ہوتا۔ مجھے ایک کالج کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے کالج میں 100 نشستوں کے لیے دس ہزار درخواستیں آتی ہیں۔ بعض کالج میں داخلے کے لیے 90 فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم
میں نے ایک مرد طالبِ علم سے پوچھا کہ خواتین کیسے ان سے زیادہ نمبر لے لیتی ہیں۔ وہ میڈکل کے پانچوے سال میں ہیں اور کان، ناک اور گلے کی بیماریوں کے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’لڑکے باہر جاتے ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ لڑکیاں گھر بیٹھتی اور رٹا لگاتی ہیں۔‘
یعنی خواتین طلبا کی کامیابی کی وجہ ان کی اپنی محنت نہیں ہے، بلکہ معاشرتی تقاضوں کے باعث ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لڑکیوں کی اکثریت تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار ہی نہیں کرتیں۔
پی ایم ڈی سی کے پاس اندراج شدہ ڈاکٹروں کی فہرست میں صرف 23 فیصد خواتین ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کے مقابلے نہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف زیادہ متوجہ ہیں بلکہ وہ کام کو بھی اتنی ہی توجہ دیتی ہیں۔ تاہم، ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے کریئر سے زیادہ شوہر کے تلاش میں ہوتی ہیں۔
’اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘
بہت سے مرد اور خواتین ڈاکٹر یہ بات شاید کھل کر نہیں بتاتے کہ ایک میڈکل ڈگری اچھے رشتے کے لیےگارنٹی ہے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے میں نے عائیشہ میرج بیورو چلانے والے جوڑے، کامران احمد اور وجیہہ کامران سے ملاقات کی۔
کامران نے مجھے بتایا کہ آدھے گاہک وہ والدین ہیں جو ڈاکٹر بہو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ’اصل میں جب آپ اپنی بہو یا بیوی کا تعارف ڈاکٹر کے طور پر کرتے ہیں تو آپ کی جاننے والوں میں عزت بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر لڑکی دیکھنے میں ذرا سی بھی خوب صورت ہو اور اس کی بول چال اچھی ہو تو اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔
لیکن ایک ڈاکٹر بیوی صرف نمائش کے لیے نہیں ہے، ہسپتالوں میں خواتین ڈاکروں کی غیر موجودگی پاکستان کے صحتِ عامہ کے نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔
یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
ڈاکٹر شائستہ فیصل پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ہیں اور ان کی تحقیق کو بنیاد بنا کر کونسل نے فیصلہ کیا کہ داخلوں میں مرد اور خواتین کی تعداد برابر رکھنی چاہیے لیکن جب پی ایم ڈی سی کا یہ فیصلہ گذشتہ سال عام ہوا، تو اس پر بہت تنقید بھی ہوئی۔
پی ایم ڈی سی اصرار کرتا ہے کہ اس مسلے کا یہی بہترین حل ہے۔
ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ’یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے وکیل شہزاد اکبر کا موقف مختلف ہے۔ ’اس کوٹے سے پی ایم ڈی سی لڑکیوں کوذہین ہونے پر سزا دے رہا ہے۔‘
شہزاد اکبر نے اس کوٹے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کے خلاف ایک اور پٹیشن دائر ہوئی ہے۔
Image captionعائیشہ میرج بیورو چلانے والے کامران احمد
شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ یہ قدم غیر آئینی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پیشہ نہ چھوڑیں۔
کالم نگار فسی زکا کا بھی خیال ہے کہ حکومت اس کو داخلوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگانی چاہیے جو پیشہ چھوڑ رہے ہیں۔
’صرف خواتین ہی تو ڈاکٹری نہیں چھوڑ دیتیں، بہت سارے مرد بھی سی ایس ایس یا ایم بی اے کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین سال تک کام کرنے پر پابند کیا جانا چاہیے یا پھر وہ حکومت کو ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی سرکاری رقم واپس دیں۔
میڈکل کالج میں دو خواتین نے مجھے یقین دلایا کہ وہ ڈاکٹری نہیں چھوڑیں گی۔ تاہم، جب میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان پر اپنے خاندان یا کریئر کے درمیان چناؤ کرنے کے لیے مجبور کیا جائے، تو وہ کیا چنیں گی؟
بیس سالہ ایلیا خاور نے کہا ’میں انھیں منانے کی کوشش کروں گی لیکن اگر وہ نہیں مانے تو خاندان کو منتخب کروں گی۔‘
ان کی ساتھی منزا مقصود نے جواب دیا۔ ’میں بھی خاندان کو ہی چنوں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان ہی اولین ہوتا ہے۔‘
عنبر شمسیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
Image captionپاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں
اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں میڈکل کالج کے چوتھے سال کے طلبا کی کلاس جاری ہے جس کا موضوع گلے کی بیماریاں ہیں۔
اس کلاس کے استاد عملی مظاہرے کے لیے ایک اصلی مریضہ کا معائنہ 20 طلبا کے سامنے کر رہے ہیں۔ چونکہ مریضہ مرد ڈاکٹروں سے معائنہ نہیں کروانا چاہتیں، اسی لیے استاد خواتین طلبا کو بلاتے ہیں۔
اس مظاہرے کے لیے انھیں خواتین طالبِ علموں کے چناؤ میں کوئی مسلہ نہیں ہے، کیونکہ کلاس میں 17 لڑکیاں ہیں اور صرف تین لڑکے ہیں۔
پاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں۔
ان کالجوں میں داخلہ آسان نہیں ہوتا۔ مجھے ایک کالج کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے کالج میں 100 نشستوں کے لیے دس ہزار درخواستیں آتی ہیں۔ بعض کالج میں داخلے کے لیے 90 فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم
میں نے ایک مرد طالبِ علم سے پوچھا کہ خواتین کیسے ان سے زیادہ نمبر لے لیتی ہیں۔ وہ میڈکل کے پانچوے سال میں ہیں اور کان، ناک اور گلے کی بیماریوں کے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’لڑکے باہر جاتے ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ لڑکیاں گھر بیٹھتی اور رٹا لگاتی ہیں۔‘
یعنی خواتین طلبا کی کامیابی کی وجہ ان کی اپنی محنت نہیں ہے، بلکہ معاشرتی تقاضوں کے باعث ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لڑکیوں کی اکثریت تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار ہی نہیں کرتیں۔
پی ایم ڈی سی کے پاس اندراج شدہ ڈاکٹروں کی فہرست میں صرف 23 فیصد خواتین ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کے مقابلے نہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف زیادہ متوجہ ہیں بلکہ وہ کام کو بھی اتنی ہی توجہ دیتی ہیں۔ تاہم، ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے کریئر سے زیادہ شوہر کے تلاش میں ہوتی ہیں۔
’اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘
بہت سے مرد اور خواتین ڈاکٹر یہ بات شاید کھل کر نہیں بتاتے کہ ایک میڈکل ڈگری اچھے رشتے کے لیےگارنٹی ہے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے میں نے عائیشہ میرج بیورو چلانے والے جوڑے، کامران احمد اور وجیہہ کامران سے ملاقات کی۔
کامران نے مجھے بتایا کہ آدھے گاہک وہ والدین ہیں جو ڈاکٹر بہو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ’اصل میں جب آپ اپنی بہو یا بیوی کا تعارف ڈاکٹر کے طور پر کرتے ہیں تو آپ کی جاننے والوں میں عزت بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر لڑکی دیکھنے میں ذرا سی بھی خوب صورت ہو اور اس کی بول چال اچھی ہو تو اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔
لیکن ایک ڈاکٹر بیوی صرف نمائش کے لیے نہیں ہے، ہسپتالوں میں خواتین ڈاکروں کی غیر موجودگی پاکستان کے صحتِ عامہ کے نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔
یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ڈاکٹر شائستہ فیصل
ایک طرف سرکاری میڈکل کالج میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو حکومت کی جانب سے ان کی فیس میں 35 لاکھ روپے کی رعایت ملتی ہے تو دوسری جانب ملک میں ڈاکٹروں کی بھی کمی ہے، خاص کر دیہاتی علاقوں میں جہاں خواتین صرف خواتین ڈاکٹروں سے ہی علاج کروانا پسند کرتی ہیں۔ڈاکٹر شائستہ فیصل پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ہیں اور ان کی تحقیق کو بنیاد بنا کر کونسل نے فیصلہ کیا کہ داخلوں میں مرد اور خواتین کی تعداد برابر رکھنی چاہیے لیکن جب پی ایم ڈی سی کا یہ فیصلہ گذشتہ سال عام ہوا، تو اس پر بہت تنقید بھی ہوئی۔
پی ایم ڈی سی اصرار کرتا ہے کہ اس مسلے کا یہی بہترین حل ہے۔
ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ’یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے وکیل شہزاد اکبر کا موقف مختلف ہے۔ ’اس کوٹے سے پی ایم ڈی سی لڑکیوں کوذہین ہونے پر سزا دے رہا ہے۔‘
شہزاد اکبر نے اس کوٹے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کے خلاف ایک اور پٹیشن دائر ہوئی ہے۔
Image captionعائیشہ میرج بیورو چلانے والے کامران احمد
شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ یہ قدم غیر آئینی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پیشہ نہ چھوڑیں۔
کالم نگار فسی زکا کا بھی خیال ہے کہ حکومت اس کو داخلوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگانی چاہیے جو پیشہ چھوڑ رہے ہیں۔
’صرف خواتین ہی تو ڈاکٹری نہیں چھوڑ دیتیں، بہت سارے مرد بھی سی ایس ایس یا ایم بی اے کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین سال تک کام کرنے پر پابند کیا جانا چاہیے یا پھر وہ حکومت کو ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی سرکاری رقم واپس دیں۔
میڈکل کالج میں دو خواتین نے مجھے یقین دلایا کہ وہ ڈاکٹری نہیں چھوڑیں گی۔ تاہم، جب میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان پر اپنے خاندان یا کریئر کے درمیان چناؤ کرنے کے لیے مجبور کیا جائے، تو وہ کیا چنیں گی؟
بیس سالہ ایلیا خاور نے کہا ’میں انھیں منانے کی کوشش کروں گی لیکن اگر وہ نہیں مانے تو خاندان کو منتخب کروں گی۔‘
ان کی ساتھی منزا مقصود نے جواب دیا۔ ’میں بھی خاندان کو ہی چنوں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان ہی اولین ہوتا ہے۔‘