ربیع م
محفلین
’کشمیری کبھی بھی اتنا بدظن نہیں ہوئے‘
شکیل اختربی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی- 5 گھنٹے پہلے
Image captionانڈیا میں ٹی وی چینلوں اور سماجی رابطوں پر کشمیر کے مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کےمسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ ایک ہفتے میں مظاہروں اور احتجاج کے دوران 40 سے زیادہ کشمیری نوجوان سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
مظاہروں کےدوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حالت ان لوگوں کی ہے جن کی آنکھوں اور چہرے پر لوہے کے چھرے لگے ہیں جبکہ ہسپتال زخمی مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کےہاتھوں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت پر ہندوستان میں خاموشی ہے۔ بعض اخبارات میں کچھ تجزیےاور مضامین ضرور شائع ہوئے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا کچھ ذکر کیا گیا ہے۔
Image captionکشمیر کے نوجوان انڈیا پر ذرہ برابر اعتماد کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہے ہیں
کشمیر کے سلسلے میں بیشتر ٹی وی چینل جارحانہ قوم پرستی کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ان کے بحث ومباحثے میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت اہم خبر نہیں ہوتی بلکہ ان کی توجہ اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے سبھی نوجوان ایک دہشتگرد کی حمایت میں باہر آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں جن میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کوجائز قرار دیا جا رہا ہے۔
دراصل کشمیر ایک ایسے مرحلے میں ہے جب انڈیا کی حکومت اور کشمیر وادی کےعوام کےدرمیان تعلق پوری طرح منقطع ہے۔ کشمیر میں مظاہرے، جلسے جلوس، میٹنگیں کرنے اور مخالفت اور مزاحمت کے ہر جمہوری طریقے پر پابندی عائد ہے۔
Image captionڈیڑھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں
کشمیری علیحدگی پسندوں کی تمام سرگرمیوں پر موثر طریقے سےروک لگی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن کی بہتر نگہبانی اور پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کےسبب شدت پسند سرگرمیوں اور مسلح جد وجہد کے راستے کافی حد تک بند ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ ان سے پہلے منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران بھی یہی صورتحال تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ کسی نے بھی کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن مودی حکومت نے ایک بات ضرور واضح کی ہے اور وہ یہ کہ حکومت علیحدگی پسندوں سے ہرگز بات نہیں کرے گی۔
Image captionان لوگوں کی حالت بہت خراب ہے جنھیں چہروں اور آنکھوں پر چھرے لگے ہیں
مرکز میں بی جے پی کی ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ کشمیر میں بھی بی جے پی کا اقتدار ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کشمیر مسئلے کا حل پاکستان سےتعلقات بہتر کرنے میں پنہاں ہے لیکن دس برس تک منموہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
گذشتہ دو برس میں جو کچھ تعلقات باقی بچے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔ پچھلے پندرہ بیس برس یوں ہی ضائع کیے گئے۔ اس مدت میں کشمیر میں ایک نئی نسل نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ مایوسی اور بےبسی ان کی نفسیات کا حصہ ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے گزرے ہوئے برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ وہ ان پر ذرہ بھر بھی اعتبار کر سکیں۔
Image captionکشمیر ایک عرصے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حل طلب مسئلہ ہے
گذشتہ 70 برس میں وادی کے عوام انڈیا سےکبھی بھی اتنا بدظن اور متنفر نہیں ہوئے جتنا تاریخ کی اس منزل پر ہیں۔ انڈیا میں کشمیریوں کے لیےکسی طرح کے ہمدردی کےجذبات نہیں ہیں۔ انڈیا کی نئی قوم پرست نسل کی نفسیات میں کشمیری، دہشت گرد، علیحدگی پسند، پاکستان نواز اور ملک دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کے مرنے، اندھے اور اپاہج ہونے سے یہاں ہمدردی کے جزبات نہیں پیدا ہوتے بلکہ مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے۔
یہ ایک مکمل تعطل کی صورتحال ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لیے جذبات کے اظہار کے راستے بند ہیں۔ دونوں جانب باہمی نفرتیں اپنی انتہا پر ہیں۔ برہان وانی اسی بے بسی اور گھٹن کا عکاس تھا۔ اس کے جنازے میں لاکھوں نوجوانوں کی شرکت بھی اسی گھٹن اور بے بسی کا اظہار تھی۔
ماخذ