’کشمیری کبھی بھی اتنا بدظن نہیں ہوئے‘

ربیع م

محفلین
’کشمیری کبھی بھی اتنا بدظن نہیں ہوئے‘
شکیل اختربی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
  • 5 گھنٹے پہلے
شیئر
160714170303_kashmir_july_2016_3_624x351_epa.jpg
Image copyrightEPA
Image captionانڈیا میں ٹی وی چینلوں اور سماجی رابطوں پر کشمیر کے مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کےمسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ ایک ہفتے میں مظاہروں اور احتجاج کے دوران 40 سے زیادہ کشمیری نوجوان سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

مظاہروں کےدوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حالت ان لوگوں کی ہے جن کی آنکھوں اور چہرے پر لوہے کے چھرے لگے ہیں جبکہ ہسپتال زخمی مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔

سکیورٹی فورسز کےہاتھوں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت پر ہندوستان میں خاموشی ہے۔ بعض اخبارات میں کچھ تجزیےاور مضامین ضرور شائع ہوئے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا کچھ ذکر کیا گیا ہے۔

160714170000_kashmir_july_2016_640x360_ap_nocredit.jpg
Image copyrightAP
Image captionکشمیر کے نوجوان انڈیا پر ذرہ برابر اعتماد کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہے ہیں
کشمیر کے سلسلے میں بیشتر ٹی وی چینل جارحانہ قوم پرستی کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ان کے بحث ومباحثے میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت اہم خبر نہیں ہوتی بلکہ ان کی توجہ اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے سبھی نوجوان ایک دہشتگرد کی حمایت میں باہر آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں جن میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کوجائز قرار دیا جا رہا ہے۔

دراصل کشمیر ایک ایسے مرحلے میں ہے جب انڈیا کی حکومت اور کشمیر وادی کےعوام کےدرمیان تعلق پوری طرح منقطع ہے۔ کشمیر میں مظاہرے، جلسے جلوس، میٹنگیں کرنے اور مخالفت اور مزاحمت کے ہر جمہوری طریقے پر پابندی عائد ہے۔

160713174812_kashmir_injured_in__hospitals_bilal_bahadur_640x360_bilalbahadur_nocredit.jpg
Image copyrightBILAL BAHADUR
Image captionڈیڑھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں
کشمیری علیحدگی پسندوں کی تمام سرگرمیوں پر موثر طریقے سےروک لگی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن کی بہتر نگہبانی اور پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کےسبب شدت پسند سرگرمیوں اور مسلح جد وجہد کے راستے کافی حد تک بند ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ ان سے پہلے منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران بھی یہی صورتحال تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ کسی نے بھی کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن مودی حکومت نے ایک بات ضرور واضح کی ہے اور وہ یہ کہ حکومت علیحدگی پسندوں سے ہرگز بات نہیں کرے گی۔

160713173501_kashmir_injured_in_hospitals_majid_jahangir_624x351_majidjahangir.jpg
Image copyrightMAJID JAHANGIR
Image captionان لوگوں کی حالت بہت خراب ہے جنھیں چہروں اور آنکھوں پر چھرے لگے ہیں
مرکز میں بی جے پی کی ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ کشمیر میں بھی بی جے پی کا اقتدار ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کشمیر مسئلے کا حل پاکستان سےتعلقات بہتر کرنے میں پنہاں ہے لیکن دس برس تک منموہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

گذشتہ دو برس میں جو کچھ تعلقات باقی بچے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔ پچھلے پندرہ بیس برس یوں ہی ضائع کیے گئے۔ اس مدت میں کشمیر میں ایک نئی نسل نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ مایوسی اور بےبسی ان کی نفسیات کا حصہ ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے گزرے ہوئے برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ وہ ان پر ذرہ بھر بھی اعتبار کر سکیں۔

160712173111_kashmir_protest_zakir_supporter_1_640x360_epa_nocredit.jpg
Image copyrightEPA
Image captionکشمیر ایک عرصے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک حل طلب مسئلہ ہے
گذشتہ 70 برس میں وادی کے عوام انڈیا سےکبھی بھی اتنا بدظن اور متنفر نہیں ہوئے جتنا تاریخ کی اس منزل پر ہیں۔ انڈیا میں کشمیریوں کے لیےکسی طرح کے ہمدردی کےجذبات نہیں ہیں۔ انڈیا کی نئی قوم پرست نسل کی نفسیات میں کشمیری، دہشت گرد، علیحدگی پسند، پاکستان نواز اور ملک دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کے مرنے، اندھے اور اپاہج ہونے سے یہاں ہمدردی کے جزبات نہیں پیدا ہوتے بلکہ مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے۔

یہ ایک مکمل تعطل کی صورتحال ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لیے جذبات کے اظہار کے راستے بند ہیں۔ دونوں جانب باہمی نفرتیں اپنی انتہا پر ہیں۔ برہان وانی اسی بے بسی اور گھٹن کا عکاس تھا۔ اس کے جنازے میں لاکھوں نوجوانوں کی شرکت بھی اسی گھٹن اور بے بسی کا اظہار تھی۔

ماخذ
 
گذشتہ 70 برس میں وادی کے عوام انڈیا سےکبھی بھی اتنا بدظن اور متنفر نہیں ہوئے جتنا تاریخ کی اس منزل پر ہیں
:waiting:
انڈیا کی نئی قوم پرست نسل کی نفسیات میں کشمیری، دہشت گرد، علیحدگی پسند، پاکستان نواز اور ملک دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔
کاش یہ بات ہمارے کچھ نام نہاد امن پسندوں و امن کی آشاؤں والوں کو بھی سمجھ آ جائے
 

ربیع م

محفلین
اتنی نہ بڑھا پاکیء دامان کی حکایت

پاکستانی کونسے کشمیریوں کے خیر خواہ ہیں؟؟؟

چلئے خیر خواہ نہ صحیح (بقول آپ کے)

لیکن ایک تو اس لڑی میں" کشمیر کیلئے پاکستان کی خیر خواہی" کا موضوع چھڑا ہی نہیں گیا

اور دوسرا یہ کہ پاکستان نے اہل کشمیر پر اس طرح کے مظالم کا 100 واں حصہ بھی نہیں ڈھایا ہو گا۔
 
چلئے خیر خواہ نہ صحیح (بقول آپ کے)

لیکن ایک تو اس لڑی میں" کشمیر کیلئے پاکستان کی خیر خواہی" کا موضوع چھڑا ہی نہیں گیا

اور دوسرا یہ کہ پاکستان نے اہل کشمیر پر اس طرح کے مظالم کا 100 واں حصہ بھی نہیں ڈھایا ہو گا۔
جو مظالم پختونوں نے آزادی کے وقت کشمیریوں پر ڈھائے تھے وہ بھی کچھ کم نہیں تھے۔
اگر آپ آزادی پسند ہیں تو ظلم آپ کو سہنا ہوگا۔ چاہے آپ کشمیری ہوں یا بلوچی۔
یہ برطانیہ نہیں ہے جہاں ریفرنڈم کروایا جائے۔
کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
 
جو مظالم پختونوں نے آزادی کے وقت کشمیریوں پر ڈھائے تھے وہ بھی کچھ کم نہیں تھے
کون سے مظالم اور کون سی خون کی ندیاں جناب جنہیں اوراق نگل گئے۔

برطانیہ کیا بات کی ہے یہ وہی برطانیہ ہے جس نے بنگال برباد کیا، کالا پانی کو جس نے آباد کیا جس نے جلیانوالہ باغ کو مذبح خانہ بنایا۔
ریفرنڈم تو یاد رہ گیا آپ کو سکاٹ لینڈ کو بھول ہی گئے آپ۔
کشمیریوں کو بلوچیوں سے پتا نہیں کس منطق سے ملا دیا گیا ہے۔
 
اتنی نہ بڑھا پاکیء دامان کی حکایت

پاکستانی کونسے کشمیریوں کے خیر خواہ ہیں؟؟؟

پاکستانی نہ کہیں نا اہل حکومتیں شکومتیں کہہ لیں تو بات شاید بن جائے۔
ادھر تو بھٹو جیسے مقبول شخص کو بھی کشمیر ایشو کا سہارا لینا پڑا تھا۔
نسلیں جب چلتی ہیں تو جذبے کم ہوتے ہوتے دم توڑ جاتے ہیں۔ ابن خلدون نے بھی غالباً تین نسلوں تک کا لکھا ہے۔
مگر ادھر آج بھی لوگ کشمیر کا نام لیتے ہیں، کشمیر کے لئے خون دیتے ہیں اور کچھ گھسے پھسے کشمیر ڈے تو منا ہی لیتے ہیں۔۔
 

ربیع م

محفلین
کون سے مظالم اور کون سی خون کی ندیاں جناب جنہیں اوراق نگل گئے۔

برطانیہ کیا بات کی ہے یہ وہی برطانیہ ہے جس نے بنگال برباد کیا، کالا پانی کو جس نے آباد کیا جس نے جلیانوالہ باغ کو مذبح خانہ بنایا۔
ریفرنڈم تو یاد رہ گیا آپ کو سکاٹ لینڈ کو بھول ہی گئے آپ۔
کشمیریوں کو بلوچیوں سے پتا نہیں کس منطق سے ملا دیا گیا ہے۔

پاکستانی نہ کہیں نا اہل حکومتیں شکومتیں کہہ لیں تو بات شاید بن جائے۔
ادھر تو بھٹو جیسے مقبول شخص کو بھی کشمیر ایشو کا سہارا لینا پڑا تھا۔
نسلیں جب چلتی ہیں تو جذبے کم ہوتے ہوتے دم توڑ جاتے ہیں۔ ابن خلدون نے بھی غالباً تین نسلوں تک کا لکھا ہے۔
مگر ادھر آج بھی لوگ کشمیر کا نام لیتے ہیں، کشمیر کے لئے خون دیتے ہیں اور کچھ گھسے پھسے کشمیر ڈے تو منا ہی لیتے ہیں۔۔

بالکل متفق
 
کون سے مظالم اور کون سی خون کی ندیاں جناب جنہیں اوراق نگل گئے۔

برطانیہ کیا بات کی ہے یہ وہی برطانیہ ہے جس نے بنگال برباد کیا، کالا پانی کو جس نے آباد کیا جس نے جلیانوالہ باغ کو مذبح خانہ بنایا۔
ریفرنڈم تو یاد رہ گیا آپ کو سکاٹ لینڈ کو بھول ہی گئے آپ۔
کشمیریوں کو بلوچیوں سے پتا نہیں کس منطق سے ملا دیا گیا ہے۔
تاریخ کا دوسرا رخ بھی کبھی پڑھیے گا۔

برطانیہ کے مظالم جسٹیفائی میں نہیں کرتا۔
مقصد یہ تھا کہ جو لوگ آزادی مانگیں اوران کی اکثریت ہو تو انھیں آزادی ملنی چاہیے۔
چاہے وہ کشمیری ہوں یا بلوچ۔
 

ربیع م

محفلین
تاریخ کا دوسرا رخ بھی کبھی پڑھیے گا۔

برطانیہ کے مظالم جسٹیفائی میں نہیں کرتا۔
مقصد یہ تھا کہ جو لوگ آزادی مانگیں اوران کی اکثریت ہو تو انھیں آزادی ملنی چاہیے۔
چاہے وہ کشمیری ہوں یا بلوچ۔

کچھ حوالہ تو دیجئے دوسرے رخ کا برادر
 
کچھ حوالہ تو دیجئے دوسرے رخ کا برادر
آزادی کے دوران جو کشمیری کمشنر کی بیوی تھی۔ اس نے ایک کتاب لکھی تھی۔ ایک ماں کی سچی کہانی یا کچھ ایسا ہی نام تھا۔ لیکن اس پر پابندی ہے اس لیے اس کا ملنا مشکل ہے۔
 
آزادی کے دوران جو کشمیری کمشنر کی بیوی تھی۔ اس نے ایک کتاب لکھی تھی۔ ایک ماں کی سچی کہانی یا کچھ ایسا ہی نام تھا۔ لیکن اس پر پابندی ہے اس لیے اس کا ملنا مشکل ہے۔
کمشنر کی بیوی۔ عوامی سوچ کی کا ہی پرتو ہو گی۔
ویسے آپ کسی بھی موضوع پر مختلف آرا اوراق کے سینوں سے نکال سکتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات نصف النہار سچ کے سامنے تاراے یا تاریاں جچتی نہیں ہیں۔
بہت سے غیر جانبدار اور معتدل مشہور مصنف بھی ہوتے ہیں جن کی بات یونیورسل فیکٹ ہوتی ہے یا اس کے موافق ہوتی ہے۔
لیکن پھر بھی آپ کی بات کو استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
 
دیکھا جائے تو انڈیا اور پاکستان دونوں اپنی جگہ درست ہیں مگر کشمیریوں کا دونوں میں سے کسی کو سپورٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

پاکستانی ایجنسیوں کو آزادی پسند عناصر کو ابھارنا بند کرنا چاہیے اور انڈیا کو بھی اپنی فوج کشمیر سے واپس بلانی چاہیے۔ در حقیقت کشمیر کے ساتھ دونوں ملکوں کے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔
 
جو لوگ آزادی مانگیں اوران کی اکثریت ہو تو انھیں آزادی ملنی چاہیے۔
چاہے وہ کشمیری ہوں یا بلوچ۔

ایک حریت تحریک ہوتی ہے جو غاصبانہ حکومت اور بیرونی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے لیے کھڑی ہوتی ہے جیسے پاکستان کی تحریک آزادی یا ہندوستان کی تحریک آزادی اسی طرح کشمیر اور فلسطین کی تحاریک۔

ایک وہ تحریک ہوتی ہے جو محض استعماری ہاتھوں میں استعمال ہو کر ملک و قوم کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ جس میں عیاش طبقہ اپنی کرسی پر ٹھاٹھ باٹھ سے بیٹھ کر مقہور و مجبور عوام کے بچوں کا خون کرواتا ہے تاکہ اپنے مزموم مقاصد میں سرخرو ہو سکے۔ ایسی تحریک کا کوئی نظریہ اور کوئی مستقبل نہیں ہوتا نہ قتل ہونے والے کا پتا ہوتا کہ میں کیوں قتل کر رہا ہوں نہ مقتول کو کہ مجھے کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔
اس میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں مروجہ نظام سے ان کو پادشاہی کی خلعت فاخرہ نصیب نہیں ہو گی اور اس کے لیے وہ کسی اصلاحات سے قاصر نظر آتے ہیں تو وہ پھر مار دھاڑ اور عصبیت و قومیت کا علم بلند کر لیتے ہیں ایسی تحاریک کا قضیہ مختلف ہوتا ہے۔
ایسی تحریکوں کی مثال بہت سی نام نہاد تحریکیں ہیں۔
بعض اوقات محرومیاں بھی اس چیز کو جنم دیتی ہیں۔ اور ان لوگوں کا نعرہ بھی اپنے حقوق کا ہوتا ہے۔ جس کا حل ان اس محرومی کو دور کرنا ہوتا ہے اور ان کے حقوق کا پورا کرنا نہ کہ پہلے بازو کو کاٹ دیا جائے اور پھر ٹانگ کو اور پھر آخر میں صرف دھڑ وھڑ بھی شاید نہ بچے
 
دیکھا جائے تو انڈیا اور پاکستان دونوں اپنی جگہ درست ہیں مگر کشمیریوں کا دونوں میں سے کسی کو سپورٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

پاکستانی ایجنسیوں کو آزادی پسند عناصر کو ابھارنا بند کرنا چاہیے اور انڈیا کو بھی اپنی فوج کشمیر سے واپس بلانی چاہیے۔ در حقیقت کشمیر کے ساتھ دونوں ملکوں کے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔

کشمیر پاکستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ تقسیم کے مطابق ہر حوالے سے اسے ہمارا حصہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
ابھارا دو چار افراد کو جا سکتا ہے مگر دہائیوں تک لاکھوں جوانوں کو کندن نہیں کیا جا سکتا۔ اگر تقسیم کے ستر سال بعد بھی توپوں، ٹینکوں اور بارود کے مقابلے میں صرف خالی ہاتھ اور عزم ہو تو پھر اسے صرف مداخلت کا نام دینا اس عزم کی توہین ہے۔
اگر آپ صرف پانی، دریاؤں اور زمین کو سامنے رکھیں تو امید ہے بات کافی حد تک سمجھ میں آ جائے گی۔
 
کشمیر پاکستان کا ناگزیر حصہ ہے۔ تقسیم کے مطابق ہر حوالے سے اسے ہمارا حصہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
ابھارا دو چار افراد کو جا سکتا ہے مگر دہائیوں تک لاکھوں جوانوں کو کندن نہیں کیا جا سکتا۔ اگر تقسیم کے ستر سال بعد بھی توپوں، ٹینکوں اور بارود کے مقابلے میں صرف خالی ہاتھ اور عزم ہو تو پھر اسے صرف مداخلت کا نام دینا اس عزم کی توہین ہے۔
اگر آپ صرف پانی، دریاؤں اور زمین کو سامنے رکھیں تو امید ہے بات کافی حد تک سمجھ میں آ جائے گی۔
کشمیر کے حالات اتنے برے بھی نہیں ہیں جتنے ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ زیادہ تر کشمیری آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
آزاد کشمیر سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جموں کشمیر جاتے ہیں اور واپس بھی آ جاتے ہیں۔
 
کشمیر کے حالات اتنے برے بھی نہیں ہیں جتنے ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ زیادہ تر کشمیری آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
آزاد کشمیر سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جموں کشمیر جاتے ہیں اور واپس بھی آ جاتے ہیں۔
ضرور۔۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر ادھر قبضہ کے لیے فوج بھی کتنی بٹھائی گئی ہے۔
ادھر کا ریفرنڈم تو ابھی تک ڈیو ہے جو اقوام متحدہ کی طرف سے تھا۔
 

ربیع م

محفلین
کشمیر کے حالات اتنے برے بھی نہیں ہیں جتنے ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ زیادہ تر کشمیری آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
آزاد کشمیر سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جموں کشمیر جاتے ہیں اور واپس بھی آ جاتے ہیں۔

اگر کشمیر کے حالات اتنے بھی برے نہیں تو حالیہ واقعات کو آپ کس نگاہ سے دیکھیں گے ؟

یاد رہے کہ یہ رپورٹ بی بی سی کی تیار کردہ ہے جو کسی حد تک غیر جانبدار ادارہ سمجھا جاتا ہے اور دلی میں موجود نامہ نگار نے اسے لکھا ہے۔

اور حالیہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری واقعات کا تسلسل ہے!!
 

ربیع م

محفلین
کشمیر کے حالات اتنے برے بھی نہیں ہیں جتنے ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں۔ زیادہ تر کشمیری آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
آزاد کشمیر سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے جموں کشمیر جاتے ہیں اور واپس بھی آ جاتے ہیں۔

اگر کشمیر کے حالات اتنے بھی برے نہیں تو حالیہ واقعات کو آپ کس نگاہ سے دیکھیں گے ؟

یاد رہے کہ یہ رپورٹ بی بی سی کی تیار کردہ ہے جو کسی حد تک غیر جانبدار ادارہ سمجھا جاتا ہے اور دلی میں موجود نامہ نگار نے اسے لکھا ہے۔

اور حالیہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری واقعات کا تسلسل ہے!!
 
Top