ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
’’حدائقِ بخشش ‘‘ کی ایک مناجات
سلیم شہزاد 09890331137
حسان الہند اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی کے شعری مجموعے موسوم بہ ’’حدائقِ بخشش‘‘ کانمایاں وصف یہ ہے کہ اس میں حمد، نعت ، منقبت، مناجات اور سلام وغیرہ اصناف کے علاوہ غزلوں اور رباعیوں میں بھی تقدیسی شاعری کے رنگ خاصے نمایاں ہیں ۔ اس شاعری کے ہیئتی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں غزل کی ہیئت کو فوقیت حاصل ہے اور اس ہیئت میں شاعر نے بڑی فن کارانہ آزادیوں اور دومصرعوں اور ردیف قافیے پر مشتمل ایک خاصی محدود ہیئت میں معنوی گہرائی اور گیرائی کے بروے کار لاکر اسے بیکراں وسعتوں سے ہم کنار کردیا ہے۔ ’’حدائق‘‘ کی تخلیقات میں شاعر کا مخصوص فکر و فلسفہ ، اس کی عقیدت و ارادت اور شاعرانہ خلوص وغیرہ جن بے شمار پہلوؤں سے اپنااظہار کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے حمد و نعت وغیرہ اصناف کی یہ غزلیہ ہیئت دیگر صنفی خواص سے بھی متصف ہوگئی ہے۔ مثلاً اس میں مسلسل غزل، قصیدے ، مثنوی اور نظم کا فکری ربط اور موضوعی ارتکاز نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتاہے۔ ’’حدائق‘‘ کے مطالعے سے یہ ایک وصف بھی اجاگر ہوتا ہے کہ رضاؔ کی شاعری میں رسولِ اکرم ﷺ کا کردار نعت گوئی کا روایتی کردار نہیں بل کہ یہاں تقدیسِ بیانی اور شعریت کے امتزاج کے ساتھ ساتھ شاعری کی ہر تخلیق میں سببِ واقعہ اور معلول کی علّتِ غائی کے طور پر آں حضرت ﷺ کانامِ نامی شاعر کی زبان پرآجاتا ہے۔ ’’حدائق‘‘ کے مطالعے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے تخلیقی تحت الشعور میں پنہاں رسولِ اکرم ﷺ کا اسمِ مبارک شعری اظہار کے وقت قرطاس و قلم کے ربط کی شرط پوری ہوتے ہی اس کے شعور کی سطح پر آکرتخیل اور وجدان سے وصل کرتا اور گہرِ آب دار کی طرح شعر میںچمکنے لگتا ہے ۔ اس تخلیقی صورت کی مثالیں دی جائیں تو یہ مضمون درکنار رہ جائے۔ ’’حدائق‘‘سے ماخوذ صرف شعری لفظیات ملاحظہ ہو کہ اس کتاب کے صفحات پر عشقِ رسول ﷺ کے اظہار کے اور آپ ﷺ سے تخاطب کے کون کون سے لسانی تعملات شعری ترکیبوں میں اپنی بہار دکھارہے ہیں:
شہ بطحا/ شہ تسنیم / رافع و نافع و شافع / مظہرِ کامل/ ماہِ طیبہ / شہ کوثر/ بدرالوجہ الاجمل / نیرِ جاں/ جانِ عجم، شانِ عرب / شافع امم/ سید والا/ گل مدینہ / ساقیِ تسنیم / شہ گردوں جناب / شہ سوارِ طیبہ/ باغِ عرب کا سروِ ناز / مدینے کی آرزو/ عالمِ امکاں کے شاہ/ خورشیدِ رسالت / بادشاہِ کون و مکاں / شمعِ طیبہ / شہِ جودو عطا / سیدِ بے سایا/ غم خوارِ امم / ملیحِ دل آرا / رحمت کا دریا / چاند بدلی کا / خضرِ ہاشمی / شمع رِ روزِ جزا وغیرہ وغیرہ ۔
اس کتاب کے تمام حدیقوں سے گذر جائیے ، شاعر اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اصحاب و اولیا، کو جگہ جگہ مخاطب کرتا سنائی دیتا ہے البتہ کتاب کے حصۂ اول میں ایک چیز ایسی ہے کہ جس میں شاعر کا تخاطب (ایک شعر سے قطعِ نظر) ضمیرِ مخاطب ’’تو‘‘ کے توسط سے ، آغاز میں تو معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے قاری سے ہے لیکن مقطع کہتا ہے کہ ان اشعار میں شاعر اپنے آپ سے خطاب کررہا ہے ۔ پندرہ اشعار پر مشتمل اس تخلیق کی بحر منفرد اور شاعر کے جذبات کو پوری طرح ظاہر کرنے والی ہے یعنی بحر متقارب مثمن اثرم مضاعف ( فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع) پہلاشعر جو مطلع ہے ؎
سوٗنا جنگل ، رات اندھیری ، چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو ، جاگتے رہیو ، چوروں کی رکھوالی ہے
یہاں پہلے مصرعے سے جو ڈراونا منظر سامنے آرہا ہے ، اس کی لفظی تصویر ( جسے آج کل کی تنقیدی اصطلاح میں شعری پیکر کہتے ہیں )صرف تین فقروں میں ماحول کی عکاسی کیے دے رہی ہے ۔ شاعر یہاں ’’سونے والوں ‘‘ یعنی ظاہر ہے کہ معاشرے کے افراد سے مخاطب ہے کہ یہ وقت تو سونے کا ضرور ہے مگر تم نے چوروں کو اپنے رکھوالی پر مقرر کردیا ہے ۔ کیا ایسے میں تمہارا نیند کے مزے لینا مناسب ہے؟ جب کہ پہرے پر لگائے گئے یہ چور بھی ایسے ہیں کہ ؎
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں ، یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
سیدھا سادہ شعر ہے مگر شاعر کے گہرے تجربے کا غماز اور ’’تجھے ‘‘ یعنی معاشرے کے عام فرد کو خبردار کرنے والا کہ آنکھیں کھول اور ان چالاک چوروں سے اپنی گٹھری ہوسکے تو بچالے ( اس شعر میں ’’ نیند نکالی ہے‘‘ کا فقرہ ممکن ہے کہ علاقائی روز مرہ ہو۔ یہ اردو کا روایتی محاورہ نہیں)
اگلے شعر ؎
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے ، یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہاے مسافر ، دم میں نہ آنا ، مت کیسی متوالی ہے
میں ’’تجھ ‘‘ کا تخاطب ’’ مسافر ‘‘ سے ہے جو ظاہر ہے کہ ہر زمانے کا ( بل کہ خاص طور سے ’’آج‘‘ کا) عام آدمی ہے جسے بلانے والے کو شاعر ٹھگ کہہ رہا ہے۔ اس لفظ کے معنی ہمارے زمانے کے سیاسی ماحول سے پوری طرح ربط رکھتے ہیں کہ بھولی عوام کو سیاست داں جس چالاکی سے ٹھگ رہے ہیں ، شاعر اس کا بالاعلان تذکرہ کررہا ہے مگر اسے افسوس ہے کہ ’’ مسافر‘‘ کی مت ماری گئی ہے جو ایسے ٹھگوں کے دم میں آسانی سے آجاتا ہے ۔ شاعر واضح طور پر کہتا ہے ؎
سونا پاس ہے ، سوٗنا بن ہے ، سونا زہرہے ، اٹھ پیارے
تو کہتا ہے : نیند ہے میٹھی ، تیری مت ہی نرالی ہے
مسافر کے پاس سونا ہے (جس کی حفاظت ضروری ہے) کیوں کہ سوٗنے سنسان بن میں وہ لُٹ سکتا ہے اس لیے سونا یعنی نیند اس کے لیے زہر ہے ۔ پس شاعر اسے ’’پیارے‘‘ کہہ کر جگا رہا ہے مگر یہ پیارا مسافر تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے ، وہ اپنی میٹھی نیند سے جاگنا نہیں چاہتا ۔ اس کی اِس بے حسی پر شاعر کڑھ رہا ہے کہ نرالی مت ہے تیری ۔
اس شعر میں ایک لفظ کے مختلف تلفظ اور مختلف معنوں سے شاعر نے بڑی فن کاری سے کام لیا ہے۔ پہلا ’’سونا‘‘ ایک قیمتی دھات ہے ۔ دوسرے لفظ (بمعنی سنسان) کے تلفظ میں واو معروف لاکر شاعر نے تجنیسِ محرف سے شعر کو سجادیا ہے ۔پھر تیسری بار’’ سونا‘‘ بمعنی نیند بھی تجنیسِ تام نظم کی ہے جو پہلے لفظ ’’سونا‘‘ سے تلفظ میں یکساں ہے۔
آنکھیں ملنا ، جھنجھلا پڑنا ، لاکھ جماہی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے ، اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
اس شعر میں بھی سوئے ہوئے مسافر سے شاعر مخاطب ہے مگر اس کا لہجہ بتارہا ہے کہ اب وہ مسافر کے سوئے رہنے پر کڑھ رہا ہے بل کہ اس کی بے حسی اور بے خبری پر اپنے آپ سے لڑرہا ہے ۔ پہلے وہ مسافر کے نیند میں کسمسانے کا ذکر کرتا پھر اس پر بگڑتا ہے کہ تو نیند سے جگانے کو گالی سمجھتا ہے ۔ پہلے مصرع میں مسافر کی حالت کا پیکری بیا ن بڑا مصورانہ ہے۔
بعدکے چار شعر جنگل کی اندھیری رات میں طوفانِ بادوباراں کا منظر بڑے حقیقی رنگوں میں سامنے لارہے ہیں ۔ اس منظر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہے کیوں کہ سوئے ہوئے مسافر کو چھوڑ کر وہ اپنے سفر میں تنہا آگے بڑھ چکا ہے ؎
جگنو چمکے ، پتّا کھڑکے ، مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجھائے : کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے ، بجلی تڑپے ، دھک سے کلیجا ہوجائے
بن میں گھٹا کی بھیانک صورت کیسی کالی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی ، کچھ سنبھلا پھر اوندھے منہ
مینہ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
’’ساتھی ساتھی ‘‘ کہہ کے پکاروں ، ساتھی ہو تو جواب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پٹکوں ، چل رے ، مولا والی ہے
ان شعروں میں شاعرانہ فن کاریوں کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے :
(۱) کھڑکے / دھڑکے ، قافیوں کی تکرار خوف کے ماحول کو اجاگر کررہی ہے۔
(۲)اگیا بیتالی یا اگیا بیتال ، گھور اندھیرے جنگل میں ملنے والے بھوت کی طرف اشارہ ہے ۔ اگرچہ شاعر یعنی امام احمدرضا ایسی وہمی باتوں کو نہیں مانتے مگر شعری اظہار کا تقاضا ہے کہ تاریک جنگل کی طوفانی رات میں شدید خوف کی صورت کو اسی بھوت کے نام سے اجاگر کیا جائے ۔ (اگیا بیتال: ہندوستانی عقیدے کے مطابق ایک آگ ہے جو جنگل کے اندھیرے میں کبھی نظر آتی، کبھی غائب ہوجاتی ہے ۔ بھٹکا ہوا کوئی مسافر اسے حقیقی روشنی سمجھ کر اس کے پیچھے جاتا اور اس کا شکار ہوجاتا ہے)
(۳) گھٹا کی بھیانک کالی کالی صورت کا پیکر ہندی جمالیات کے مطابق خوف کا تصور پیدا کرنے اور دیکھنے سننے اور پڑھنے والے کو اسی خوف سے متاثر کرنے کی کوشش ہے۔
(۴) ’’ پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی‘‘ والے شعر میں جو لسانی تعمل ملتا ہے وہ مخصوص صورتِ حال میں زبان کے عاجلانہ استعمال کی مثال ہے۔ یہاں ’’اوندھے منہ‘‘کہہ کر جملہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے اور مان لیا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس سے مسافر کے گر جانے کا تصور کرلے گا۔ اس شعر میں سنسکرت لفظ ’’ دُھر‘‘ ( بمعنی قطب، زمین کاا نتہائی سرا، لامحدود دوری ) مبالغے کے لیے لایا گیا ہے۔
(۵) چوتھا شعر شاعر / مسافر / راوی ، کی مجبوری کی منہ بولتی تصویر ہے۔
تنہائی اور مایوسی کے اندھیرے میں ؎
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں ، کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں ، اک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے
شاعر یعنی مَیں ایک ٹوٹی ہوئی آس کی رفاقت میں اپناراستہ طے کررہا ہوں ۔ اس شعر میں فن کاری یہ ہے کہ پہلے مصرع میں فقرے’’ آس پاس‘‘ کو دو لخت کرکے شاعر نے ’’ آس پاس ‘‘ کے بے معنی ٹکڑے ’’آس‘‘ کو بامعنی کردیا ہے۔ کہنا یہی ہے کہ کوئی آس پاس نہیں لیکن ’’ آس نہ پاس ‘‘ کہہ کر اس میں ’’امید‘‘ کے معنی جوڑ دیے ہیں اور بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے ۔ اس پر بھی بس نہ کرتے ہوئے دوسرے مصرع کے لفظ ’’آس‘‘ کو اپنے معنوں میں برت کر پہلے مصرع کے بے معنی لفظ ’’ آس‘‘ کے ساتھ ایسی تجنیسِ تام کی صورت خلق کردی ہے جس کی دوسری مثال اردو شاعری میں مشکل ہی سے ملے گی۔ مستزاد یہ کہ ان ہم تلفظ لفظوں سے تضاد کی صنعت بھی پیدا ہوگئی ہے ۔
اگلا شعر ؎
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے ، تم تو عجم کے سور ج ہو
دیکھو ، مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
پچھلے تمام شعروںسے معنوی اور موضوعی طور پر غیر متعلق ہے۔ اس کی یہاں ضرورت نہ تھی مگر جیسا کہ کہا گیا ہے ، شاعر کے تخلیقی تحت الشعور میں رسولِ اکرم ﷺ کا تصور چوں کہ آرکی ٹائپ (نقشِ اولیں) کی طرح محجر ہے ، یہاں وہ شعوری سطح پر آکر کاغذ پر رقم ہوگیا ہے جب کہ فنی اور تکنیکی تقاضوں کے پیشِ نظر رسولِ اکرم ﷺ سے تخاطب کا اس نظم میں کہیں محل نہیں ۔ اس شعر کے بعد اس کا ثبوت ملتا ہے کہ شاعر اپنے اظہار میں اب دنیا کو لتاڑنے لگا ہے ۔ کہتے ہیں ؎
دنیا کو تو کیا جانے ، یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے ، زہر پلائے ، قاتل ، ڈائن ، شوہر کُش
اس مردار پہ کیا للچانا ، دنیا دیکھی بھالی ہے
ابتدا میں جن چوروں اور ٹھگوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، یہ دنیا انھیں کی آماجگہ ہے۔ دنیا کہہ کر شاعر انسانی معاشرے کو مزید وسعت دیتا اور مکانی کے ساتھ ساتھ زمانی لحاظ سے بھی اسے اپنے زمانے سے ہمارے زمانے تک پھیلا دیتا ہے۔ شاعری میں دنیا کو عام طور پر انھیں تشبیہوں اور کنایوں وغیرہ سے پکارا جاتا ہے یعنی حرافہ ، ظالم ، قاتل ، ڈائن ، مرداراور شوہر کُش ۔ اس آخری صفت میں تاریخ اور اساطیر کی بہت سی کہانیوں کی طرف اشارے سمائے ہوئے ہیں ۔
موضوعی لحاظ سے غیر متعلق شعر ’’ تم تو چاند عرب کے ہو ……‘‘ کی طرح بعد کا شعر ؎
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں ، اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
بھی اس تخلیق کے اندھیرے ماحول میں ٹوٹی ہوئی آس کی کرن کے شعری اظہار سے میل نہیں کھاتا پھر اس شعر میں تخاطب اچانک ’’ وہ‘‘ ( جمع غائب) اور ضمیر تقابل ’’ ہم ‘‘ ( جمع متکلم) جیسے لسانی تعملات استعما ل کیے گئے ہیں جن کا شعر میں محل نہیں ہے کیوں کہ پہلے شعر میں جو کردار ’’ تو‘‘ ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ وہی کردار آگے چل کر ’’ مَیں ‘‘ میں بدل گیا ہے اور بڑی فن کاری سے بدلا ہے۔ یہاں وہ اور ہم کے اجتماع میں وہ بات نہیں ملتی۔
آخری شعر جس میں شاعر نے اپنا تخلص نظم کرکے خود کو مخاطبین( چور اور ٹھگ) سے مماثل قرار دیا ہے ، اس مقطع سے پہلے ’’ تم تو چاند عرب کے ہو……‘‘ والے شعر کی ضرورت تھی اگرچہ اس شعر اور مقطع میں استعمال کی گئی ضمیریں شتر گربہ کے عیب کی مثالیں ہیں ؎
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے ، تم تو عجم کے سور ج ہو
دیکھو ، مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
اور مقطع ؎
مولا ، تیرے عفو وکرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضاؔ سے چور پہ تیری ڈگری تو اقبالی ہے
اگر یہ دونوں اشعار اوپر دیے گئے طور پر ہوتے تو مقطع میں مولا کا تخاطب رسولِ اکرم ﷺ سے ہوتا، بصورتِ دیگر (یعنی دونوں اشعار کے ساتھ نہ ہونے پر) یہ تخاطب اللہ تعالیٰ کی طرف مرجوع ہے کہ تیرے رحم و کرم کی صفت کو مَیں اپنی صفائی کے گواہ کے طور پر پیش کرتا اور تو نے جو مجھ پر نالش کی ہے ، اسے مَیں اس دنیا کے ایک عام گناہ گار فرد ہونے کے اعتراف کے طور پر قبول کرتا ہو ں ۔ اس تاریک رات میں مجھے ایک تیرے رسول ہی سے آس ہے اور تیرے عفو کرم سے مجھے یقین ہے کہ تیرے حضور وہ میری صفائی پیش کریں گے۔
یہ پندرہ اشعار مجموعی طور پر دراصل ایک مناجاتی نظم تخلیق کرتے ہیں جس میں شاعر چوروں ، ٹھگوں اور گناہ گاروں سے بھری ہوئی دنیا کی آفات کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے کہ اندھیروں نے مجھے گھیر رکھا ہے ، اب مجھ جیسے گناہ گار کی بخشش صرف اللہ تعالی کے عفو کرم اور استمدادِ رسول ﷺ پر منحصر ہے ۔
سلیم شہزاد 09890331137
حسان الہند اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی کے شعری مجموعے موسوم بہ ’’حدائقِ بخشش‘‘ کانمایاں وصف یہ ہے کہ اس میں حمد، نعت ، منقبت، مناجات اور سلام وغیرہ اصناف کے علاوہ غزلوں اور رباعیوں میں بھی تقدیسی شاعری کے رنگ خاصے نمایاں ہیں ۔ اس شاعری کے ہیئتی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں غزل کی ہیئت کو فوقیت حاصل ہے اور اس ہیئت میں شاعر نے بڑی فن کارانہ آزادیوں اور دومصرعوں اور ردیف قافیے پر مشتمل ایک خاصی محدود ہیئت میں معنوی گہرائی اور گیرائی کے بروے کار لاکر اسے بیکراں وسعتوں سے ہم کنار کردیا ہے۔ ’’حدائق‘‘ کی تخلیقات میں شاعر کا مخصوص فکر و فلسفہ ، اس کی عقیدت و ارادت اور شاعرانہ خلوص وغیرہ جن بے شمار پہلوؤں سے اپنااظہار کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے حمد و نعت وغیرہ اصناف کی یہ غزلیہ ہیئت دیگر صنفی خواص سے بھی متصف ہوگئی ہے۔ مثلاً اس میں مسلسل غزل، قصیدے ، مثنوی اور نظم کا فکری ربط اور موضوعی ارتکاز نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتاہے۔ ’’حدائق‘‘ کے مطالعے سے یہ ایک وصف بھی اجاگر ہوتا ہے کہ رضاؔ کی شاعری میں رسولِ اکرم ﷺ کا کردار نعت گوئی کا روایتی کردار نہیں بل کہ یہاں تقدیسِ بیانی اور شعریت کے امتزاج کے ساتھ ساتھ شاعری کی ہر تخلیق میں سببِ واقعہ اور معلول کی علّتِ غائی کے طور پر آں حضرت ﷺ کانامِ نامی شاعر کی زبان پرآجاتا ہے۔ ’’حدائق‘‘ کے مطالعے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے تخلیقی تحت الشعور میں پنہاں رسولِ اکرم ﷺ کا اسمِ مبارک شعری اظہار کے وقت قرطاس و قلم کے ربط کی شرط پوری ہوتے ہی اس کے شعور کی سطح پر آکرتخیل اور وجدان سے وصل کرتا اور گہرِ آب دار کی طرح شعر میںچمکنے لگتا ہے ۔ اس تخلیقی صورت کی مثالیں دی جائیں تو یہ مضمون درکنار رہ جائے۔ ’’حدائق‘‘سے ماخوذ صرف شعری لفظیات ملاحظہ ہو کہ اس کتاب کے صفحات پر عشقِ رسول ﷺ کے اظہار کے اور آپ ﷺ سے تخاطب کے کون کون سے لسانی تعملات شعری ترکیبوں میں اپنی بہار دکھارہے ہیں:
شہ بطحا/ شہ تسنیم / رافع و نافع و شافع / مظہرِ کامل/ ماہِ طیبہ / شہ کوثر/ بدرالوجہ الاجمل / نیرِ جاں/ جانِ عجم، شانِ عرب / شافع امم/ سید والا/ گل مدینہ / ساقیِ تسنیم / شہ گردوں جناب / شہ سوارِ طیبہ/ باغِ عرب کا سروِ ناز / مدینے کی آرزو/ عالمِ امکاں کے شاہ/ خورشیدِ رسالت / بادشاہِ کون و مکاں / شمعِ طیبہ / شہِ جودو عطا / سیدِ بے سایا/ غم خوارِ امم / ملیحِ دل آرا / رحمت کا دریا / چاند بدلی کا / خضرِ ہاشمی / شمع رِ روزِ جزا وغیرہ وغیرہ ۔
اس کتاب کے تمام حدیقوں سے گذر جائیے ، شاعر اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اصحاب و اولیا، کو جگہ جگہ مخاطب کرتا سنائی دیتا ہے البتہ کتاب کے حصۂ اول میں ایک چیز ایسی ہے کہ جس میں شاعر کا تخاطب (ایک شعر سے قطعِ نظر) ضمیرِ مخاطب ’’تو‘‘ کے توسط سے ، آغاز میں تو معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے قاری سے ہے لیکن مقطع کہتا ہے کہ ان اشعار میں شاعر اپنے آپ سے خطاب کررہا ہے ۔ پندرہ اشعار پر مشتمل اس تخلیق کی بحر منفرد اور شاعر کے جذبات کو پوری طرح ظاہر کرنے والی ہے یعنی بحر متقارب مثمن اثرم مضاعف ( فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع) پہلاشعر جو مطلع ہے ؎
سوٗنا جنگل ، رات اندھیری ، چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو ، جاگتے رہیو ، چوروں کی رکھوالی ہے
یہاں پہلے مصرعے سے جو ڈراونا منظر سامنے آرہا ہے ، اس کی لفظی تصویر ( جسے آج کل کی تنقیدی اصطلاح میں شعری پیکر کہتے ہیں )صرف تین فقروں میں ماحول کی عکاسی کیے دے رہی ہے ۔ شاعر یہاں ’’سونے والوں ‘‘ یعنی ظاہر ہے کہ معاشرے کے افراد سے مخاطب ہے کہ یہ وقت تو سونے کا ضرور ہے مگر تم نے چوروں کو اپنے رکھوالی پر مقرر کردیا ہے ۔ کیا ایسے میں تمہارا نیند کے مزے لینا مناسب ہے؟ جب کہ پہرے پر لگائے گئے یہ چور بھی ایسے ہیں کہ ؎
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں ، یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
سیدھا سادہ شعر ہے مگر شاعر کے گہرے تجربے کا غماز اور ’’تجھے ‘‘ یعنی معاشرے کے عام فرد کو خبردار کرنے والا کہ آنکھیں کھول اور ان چالاک چوروں سے اپنی گٹھری ہوسکے تو بچالے ( اس شعر میں ’’ نیند نکالی ہے‘‘ کا فقرہ ممکن ہے کہ علاقائی روز مرہ ہو۔ یہ اردو کا روایتی محاورہ نہیں)
اگلے شعر ؎
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے ، یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہاے مسافر ، دم میں نہ آنا ، مت کیسی متوالی ہے
میں ’’تجھ ‘‘ کا تخاطب ’’ مسافر ‘‘ سے ہے جو ظاہر ہے کہ ہر زمانے کا ( بل کہ خاص طور سے ’’آج‘‘ کا) عام آدمی ہے جسے بلانے والے کو شاعر ٹھگ کہہ رہا ہے۔ اس لفظ کے معنی ہمارے زمانے کے سیاسی ماحول سے پوری طرح ربط رکھتے ہیں کہ بھولی عوام کو سیاست داں جس چالاکی سے ٹھگ رہے ہیں ، شاعر اس کا بالاعلان تذکرہ کررہا ہے مگر اسے افسوس ہے کہ ’’ مسافر‘‘ کی مت ماری گئی ہے جو ایسے ٹھگوں کے دم میں آسانی سے آجاتا ہے ۔ شاعر واضح طور پر کہتا ہے ؎
سونا پاس ہے ، سوٗنا بن ہے ، سونا زہرہے ، اٹھ پیارے
تو کہتا ہے : نیند ہے میٹھی ، تیری مت ہی نرالی ہے
مسافر کے پاس سونا ہے (جس کی حفاظت ضروری ہے) کیوں کہ سوٗنے سنسان بن میں وہ لُٹ سکتا ہے اس لیے سونا یعنی نیند اس کے لیے زہر ہے ۔ پس شاعر اسے ’’پیارے‘‘ کہہ کر جگا رہا ہے مگر یہ پیارا مسافر تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے ، وہ اپنی میٹھی نیند سے جاگنا نہیں چاہتا ۔ اس کی اِس بے حسی پر شاعر کڑھ رہا ہے کہ نرالی مت ہے تیری ۔
اس شعر میں ایک لفظ کے مختلف تلفظ اور مختلف معنوں سے شاعر نے بڑی فن کاری سے کام لیا ہے۔ پہلا ’’سونا‘‘ ایک قیمتی دھات ہے ۔ دوسرے لفظ (بمعنی سنسان) کے تلفظ میں واو معروف لاکر شاعر نے تجنیسِ محرف سے شعر کو سجادیا ہے ۔پھر تیسری بار’’ سونا‘‘ بمعنی نیند بھی تجنیسِ تام نظم کی ہے جو پہلے لفظ ’’سونا‘‘ سے تلفظ میں یکساں ہے۔
آنکھیں ملنا ، جھنجھلا پڑنا ، لاکھ جماہی انگڑائی
نام پر اٹھنے کے لڑتا ہے ، اٹھنا بھی کچھ گالی ہے
اس شعر میں بھی سوئے ہوئے مسافر سے شاعر مخاطب ہے مگر اس کا لہجہ بتارہا ہے کہ اب وہ مسافر کے سوئے رہنے پر کڑھ رہا ہے بل کہ اس کی بے حسی اور بے خبری پر اپنے آپ سے لڑرہا ہے ۔ پہلے وہ مسافر کے نیند میں کسمسانے کا ذکر کرتا پھر اس پر بگڑتا ہے کہ تو نیند سے جگانے کو گالی سمجھتا ہے ۔ پہلے مصرع میں مسافر کی حالت کا پیکری بیا ن بڑا مصورانہ ہے۔
بعدکے چار شعر جنگل کی اندھیری رات میں طوفانِ بادوباراں کا منظر بڑے حقیقی رنگوں میں سامنے لارہے ہیں ۔ اس منظر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہے کیوں کہ سوئے ہوئے مسافر کو چھوڑ کر وہ اپنے سفر میں تنہا آگے بڑھ چکا ہے ؎
جگنو چمکے ، پتّا کھڑکے ، مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجھائے : کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے
بادل گرجے ، بجلی تڑپے ، دھک سے کلیجا ہوجائے
بن میں گھٹا کی بھیانک صورت کیسی کالی کالی ہے
پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی ، کچھ سنبھلا پھر اوندھے منہ
مینہ نے پھسلن کردی ہے اور دُھر تک کھائی نالی ہے
’’ساتھی ساتھی ‘‘ کہہ کے پکاروں ، ساتھی ہو تو جواب آئے
پھر جھنجھلا کر سر دے پٹکوں ، چل رے ، مولا والی ہے
ان شعروں میں شاعرانہ فن کاریوں کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے :
(۱) کھڑکے / دھڑکے ، قافیوں کی تکرار خوف کے ماحول کو اجاگر کررہی ہے۔
(۲)اگیا بیتالی یا اگیا بیتال ، گھور اندھیرے جنگل میں ملنے والے بھوت کی طرف اشارہ ہے ۔ اگرچہ شاعر یعنی امام احمدرضا ایسی وہمی باتوں کو نہیں مانتے مگر شعری اظہار کا تقاضا ہے کہ تاریک جنگل کی طوفانی رات میں شدید خوف کی صورت کو اسی بھوت کے نام سے اجاگر کیا جائے ۔ (اگیا بیتال: ہندوستانی عقیدے کے مطابق ایک آگ ہے جو جنگل کے اندھیرے میں کبھی نظر آتی، کبھی غائب ہوجاتی ہے ۔ بھٹکا ہوا کوئی مسافر اسے حقیقی روشنی سمجھ کر اس کے پیچھے جاتا اور اس کا شکار ہوجاتا ہے)
(۳) گھٹا کی بھیانک کالی کالی صورت کا پیکر ہندی جمالیات کے مطابق خوف کا تصور پیدا کرنے اور دیکھنے سننے اور پڑھنے والے کو اسی خوف سے متاثر کرنے کی کوشش ہے۔
(۴) ’’ پاؤں اٹھا اور ٹھوکر کھائی‘‘ والے شعر میں جو لسانی تعمل ملتا ہے وہ مخصوص صورتِ حال میں زبان کے عاجلانہ استعمال کی مثال ہے۔ یہاں ’’اوندھے منہ‘‘کہہ کر جملہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے اور مان لیا گیا ہے کہ پڑھنے والا اس سے مسافر کے گر جانے کا تصور کرلے گا۔ اس شعر میں سنسکرت لفظ ’’ دُھر‘‘ ( بمعنی قطب، زمین کاا نتہائی سرا، لامحدود دوری ) مبالغے کے لیے لایا گیا ہے۔
(۵) چوتھا شعر شاعر / مسافر / راوی ، کی مجبوری کی منہ بولتی تصویر ہے۔
تنہائی اور مایوسی کے اندھیرے میں ؎
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں ، کوئی آس نہ پاس کہیں
ہاں ، اک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے
شاعر یعنی مَیں ایک ٹوٹی ہوئی آس کی رفاقت میں اپناراستہ طے کررہا ہوں ۔ اس شعر میں فن کاری یہ ہے کہ پہلے مصرع میں فقرے’’ آس پاس‘‘ کو دو لخت کرکے شاعر نے ’’ آس پاس ‘‘ کے بے معنی ٹکڑے ’’آس‘‘ کو بامعنی کردیا ہے۔ کہنا یہی ہے کہ کوئی آس پاس نہیں لیکن ’’ آس نہ پاس ‘‘ کہہ کر اس میں ’’امید‘‘ کے معنی جوڑ دیے ہیں اور بات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے ۔ اس پر بھی بس نہ کرتے ہوئے دوسرے مصرع کے لفظ ’’آس‘‘ کو اپنے معنوں میں برت کر پہلے مصرع کے بے معنی لفظ ’’ آس‘‘ کے ساتھ ایسی تجنیسِ تام کی صورت خلق کردی ہے جس کی دوسری مثال اردو شاعری میں مشکل ہی سے ملے گی۔ مستزاد یہ کہ ان ہم تلفظ لفظوں سے تضاد کی صنعت بھی پیدا ہوگئی ہے ۔
اگلا شعر ؎
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے ، تم تو عجم کے سور ج ہو
دیکھو ، مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
پچھلے تمام شعروںسے معنوی اور موضوعی طور پر غیر متعلق ہے۔ اس کی یہاں ضرورت نہ تھی مگر جیسا کہ کہا گیا ہے ، شاعر کے تخلیقی تحت الشعور میں رسولِ اکرم ﷺ کا تصور چوں کہ آرکی ٹائپ (نقشِ اولیں) کی طرح محجر ہے ، یہاں وہ شعوری سطح پر آکر کاغذ پر رقم ہوگیا ہے جب کہ فنی اور تکنیکی تقاضوں کے پیشِ نظر رسولِ اکرم ﷺ سے تخاطب کا اس نظم میں کہیں محل نہیں ۔ اس شعر کے بعد اس کا ثبوت ملتا ہے کہ شاعر اپنے اظہار میں اب دنیا کو لتاڑنے لگا ہے ۔ کہتے ہیں ؎
دنیا کو تو کیا جانے ، یہ بِس کی گانٹھ ہے حرافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے ، زہر پلائے ، قاتل ، ڈائن ، شوہر کُش
اس مردار پہ کیا للچانا ، دنیا دیکھی بھالی ہے
ابتدا میں جن چوروں اور ٹھگوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، یہ دنیا انھیں کی آماجگہ ہے۔ دنیا کہہ کر شاعر انسانی معاشرے کو مزید وسعت دیتا اور مکانی کے ساتھ ساتھ زمانی لحاظ سے بھی اسے اپنے زمانے سے ہمارے زمانے تک پھیلا دیتا ہے۔ شاعری میں دنیا کو عام طور پر انھیں تشبیہوں اور کنایوں وغیرہ سے پکارا جاتا ہے یعنی حرافہ ، ظالم ، قاتل ، ڈائن ، مرداراور شوہر کُش ۔ اس آخری صفت میں تاریخ اور اساطیر کی بہت سی کہانیوں کی طرف اشارے سمائے ہوئے ہیں ۔
موضوعی لحاظ سے غیر متعلق شعر ’’ تم تو چاند عرب کے ہو ……‘‘ کی طرح بعد کا شعر ؎
وہ تو نہایت سستا سودا بیچ رہے ہیں جنت کا
ہم مفلس کیا مول چکائیں ، اپنا ہاتھ ہی خالی ہے
بھی اس تخلیق کے اندھیرے ماحول میں ٹوٹی ہوئی آس کی کرن کے شعری اظہار سے میل نہیں کھاتا پھر اس شعر میں تخاطب اچانک ’’ وہ‘‘ ( جمع غائب) اور ضمیر تقابل ’’ ہم ‘‘ ( جمع متکلم) جیسے لسانی تعملات استعما ل کیے گئے ہیں جن کا شعر میں محل نہیں ہے کیوں کہ پہلے شعر میں جو کردار ’’ تو‘‘ ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ وہی کردار آگے چل کر ’’ مَیں ‘‘ میں بدل گیا ہے اور بڑی فن کاری سے بدلا ہے۔ یہاں وہ اور ہم کے اجتماع میں وہ بات نہیں ملتی۔
آخری شعر جس میں شاعر نے اپنا تخلص نظم کرکے خود کو مخاطبین( چور اور ٹھگ) سے مماثل قرار دیا ہے ، اس مقطع سے پہلے ’’ تم تو چاند عرب کے ہو……‘‘ والے شعر کی ضرورت تھی اگرچہ اس شعر اور مقطع میں استعمال کی گئی ضمیریں شتر گربہ کے عیب کی مثالیں ہیں ؎
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے ، تم تو عجم کے سور ج ہو
دیکھو ، مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے
اور مقطع ؎
مولا ، تیرے عفو وکرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضاؔ سے چور پہ تیری ڈگری تو اقبالی ہے
اگر یہ دونوں اشعار اوپر دیے گئے طور پر ہوتے تو مقطع میں مولا کا تخاطب رسولِ اکرم ﷺ سے ہوتا، بصورتِ دیگر (یعنی دونوں اشعار کے ساتھ نہ ہونے پر) یہ تخاطب اللہ تعالیٰ کی طرف مرجوع ہے کہ تیرے رحم و کرم کی صفت کو مَیں اپنی صفائی کے گواہ کے طور پر پیش کرتا اور تو نے جو مجھ پر نالش کی ہے ، اسے مَیں اس دنیا کے ایک عام گناہ گار فرد ہونے کے اعتراف کے طور پر قبول کرتا ہو ں ۔ اس تاریک رات میں مجھے ایک تیرے رسول ہی سے آس ہے اور تیرے عفو کرم سے مجھے یقین ہے کہ تیرے حضور وہ میری صفائی پیش کریں گے۔
یہ پندرہ اشعار مجموعی طور پر دراصل ایک مناجاتی نظم تخلیق کرتے ہیں جس میں شاعر چوروں ، ٹھگوں اور گناہ گاروں سے بھری ہوئی دنیا کی آفات کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے کہ اندھیروں نے مجھے گھیر رکھا ہے ، اب مجھ جیسے گناہ گار کی بخشش صرف اللہ تعالی کے عفو کرم اور استمدادِ رسول ﷺ پر منحصر ہے ۔