بلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مطلع عمدہ ہے، خوش رہئے۔
وہ لجا کر کچھ اگر کہہ نہ سکے
کہہ دیا کِس نے ہماے کان میں
اس میں ایک تو ’’نہ‘‘ کا مسئلہ ہے۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ نہ سکے (فاعلن)۔ اہلِ ذوق نہ کی یہ بندش قبول نہیں کرتے۔ دوسرے کچھ بات جیسے رہ گئی۔ کان میں کس نے کہہ دیا، بجا، مگر کیا کہہ دیا؟ ۔۔ دیکھ لیجئے گا۔
روکنے کا یوں بہانہ ہوگیا
ہم نے پیالہ رکھ دیا سامان میں
پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے۔ ’’روکنے کا اِک بہانہ ہی سہی‘‘؟۔ پیالہ کی ’’ی‘‘ کو پیاس، پیار کی ’’ی‘‘ پر قیاس نہ کیجئے۔ غالب کا شعر ہے غالباً؟ دوسرا مصرعہ ذہن میں ہے۔ پہلا مصرع
فاتح صاحب اور
الف عین صاحب یاد دلوا دیں۔
ع: پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
تلمیح کو جس بھرپور انداز میں آنا چاہئے تھا، آ نہیں پائی۔ گستاخی معاف!۔
خلق اُن کے دیکھنا ہوں گر تمہیں
دیکھ لو بس جھانک کر قرآن میں
نعت کے حوالے سے مجھے شاعر سے ایک توقع ہوتی ہے، پتہ نہیں بجا ہے بھی کہ نہیں۔ محسوساتی سطح پر نعت کے شعر کو دھڑکنا چاہئے، اور لسانی سطح پر ایسی شوکتِ لفظی تو ہو، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان نہ سہی، قاری کے ذوق کو بلند تر کی طرف تو بلائے۔
ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
آخر میں وہی بات! کہ میری گزارشات کو کلی یا جزوی طور پر رد کر دینا، یا قبول کر لینا، اور ان کو در خورِ اعتنا سمجھنا یا نہ سمجھنا آپ پر ہے۔ جو ’’مزاجِ شاعر‘‘ میں آئے!۔