’’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘

’’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘​
(تظمینِ اقبال)​
محمد خلیلؔ الرحمٰن​
’’کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد‘‘
پسِ نگاہ نہیں آج کوفہ و بغداد
یہی ہے شاعرِ مشرق کا وہ ادھورا خواب​
سجایا جِس نے جہاں میں یہ بے نظیر آباد​
کیے تھے فاش رموزِ قلندری جِس نے
اُسی کی فکرِ میں غلطاں ہےآج دِل کی کشاد​
وہ جس چمن کی شہیدوں نے آبیاری کی​
اسے تباد کرے ہیں سگانِ بست و کُشاد​
مری دُعا ہے سلامت رہے قیامت تک​
یہ میری پاک زمیں ، یہ مرا حسیں نوشاد​
جہاں میں اہلِ وطن یوں ہی سر اُٹھا کے جئیں​
وطن ہمارا سدا ، یوں ہی اب رہے آزاد​
الٰہی سُن لے دُعائیں خلیل ؔ کی اب تو​
یہی ہے میرا ترانہ، یہی مری فریاد​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خوب ! خلیل بھائی !

مری دُعا ہے سلامت رہے قیامت تک
یہ میری پاک زمیں ، یہ مرا حسیں نوشاد
آمین
بہت اچھا لگا یہ کلام۔ ہماری طرف سے بہت سی داد حاضر ہے۔
 
Top