مغزل
محفلین
‘‘ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ‘‘
محترم احباب ، آداب و سلامِ مسنون
محفلِ اردو ایک مکمل فروغِ اردو کی ویب سائٹ ہے جہاں احباب کے ذوق ِطبع کی رعایت سے لڑیاں موجود ہیں جہاں احباب اسالیبِ فنون لطیفہ کے پھول پروتے ہیں جبکہ شعر و شاعری خاصی حد تک محفل پر اغلب ہے جہاں مجھ ایسا جاہل علم کی پیاس لیکر حاضرہوتا ہے اور اپنی روح سیراب کرنے کی کوشش کرتا ہے کہا جاتا ہے علم بغیرسالک نقصان بھی دے سکتا ہے ، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ میں نے بغیرِ سالک کتابی علم سے بجائے فیوض وبرکات اٹھانے کے کئی ایک دوستوں و علم برائے حلم کی بجائے ، علم برائے شر کی راہوں میں اوندھے منھ گرتا دیکھا ہے۔ میں سراپا سپاس ہوں کہ جہاں مجھ ایسے کے لیے ہمعصروںکی ایک فوجِ مظفر موج موجود ہے وہاں الف عین (باباجانی) ،وارث ، فاتح الدین ، نوید صادق اور فرخ (سخنور) ایسے صاحبان ِ علم و حلم و فراست کی راہنمائی بھی حاصل ہے جہاں مجھ ایسا ” بے تکی“ پر بھی بجائے صرف داد وتحسین کے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔ عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ ہم اپنے اشعار پیش کرتے ہیں احباب حوصلہ بڑھاتے ہیں ، مبارکباد پیش کرتے ہیں،چونکہ دوستانہ ہے سو ٹھٹھول بھی جاری رہتی ہے بزرگ شعرا اور ادباءبھی سرسری تعریف و تنقید سے نوازتے ہیں (معاف کیجئے گا یہ میر اذاتی مشاہد ہے ، اختلاف کی صورت بہر حال مسلّم ہے)۔ جبلتِ انسانی کے تحت داد و تحسین تخلیق کاروں کے لیے امرِ واقعی ہے مزید یہ کہ ہر تخلیق اظہار کی طالب ہے مگر پھر بھی مجھے ایک بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ہمارے ہاں شعر پر بات کرنے عموماً اختراز برتا جاتا ہے شاید ہمارا معاملہ اپنا شعر ہے ” شعر“ نہیں۔۔یہ مشاہد ہ بھی عام زندگی سے لیا گیا ہے ۔آپ کہیں گے کہ یہ موصوف جیسے بسیار گوئی کے مریض ہیں وہاںذود نویسی کا عارضہ بھی لاحق ہے ۔ بہر کیف میری ایک کوشش ہے کہ یہاں مختلف شعرا کا کلام پیش کیا جائے ششماہی خرمن (جس کے اجراءکی خبریہاں موجود ہے ، تفصیلی تعارف بھی جلد پیش کرتا ہوں) میں ادارت میں معاونت کی ذمہ دادی کراچی میں مجھے تفویض کی گئی ہے ، میں ہم نے غائبانہ ”نقد و نظر “ کا سلسلہ شروع کیا ہے ذیل میں ایک غزل پیش کی گئی ہے تخلیق کار کا نام آئندہ بتایاجائیگاآپ سے التماس ہے کہ اپنی اپنی ناقدانہ رائے پیش کیجئے ، جو نہ صرف تنقیص و تعریف مبنی ہو بلکہ خالصتاً ایک تخلیقی تنقیدی جائزہ ہواس ضمن میں باقائدہ ایک الگ سے گوشہ شائع کیا جائے گا۔نفسِ مضمون کی مناسبت سے چنیدہ مضامین شاملِ اشاعت کیے جائیں گے۔ مجھے امید ہے یہ کوشش آپ کو نہ صرف پسند آئے گی بلکہ آپ اس میں اپنی شمولیت سے مباحث کے نئے ابواب رقم ہونگے اور ہمارے لیے حصولِ علم کا موقع میسر آئے گا۔ ایک گزارش ہے کم از کم اتنی سطور تو ضرور ہوں جتنی غزل کی سطریں ہیں۔ آپ احباب کے خلوص اور بزرگان کی شفقت کا طالب ہوں۔
وضاحت : جو احباب محض اظہارِ پسندیدگی کرنا چاہیں وہ صرف شکریہ ارسال کیجئے تاکہ ہم پوری یکسوئی سے ایک مثبت سرگرمی کا حصہ رہیں۔
جن احباب کی رائے شمارے کے لیے حاصل کی جائے گی انہیں ذپ کے ذریعے اطلاع دی جائے گی ، وہ احباب اپنا نام و پتہ ہمیں ارسال کیجئے گا۔
والسلام
عاقبت نا اندیش
م۔م۔مغل
غزل ملاحظہ کیجئے :
قدیم شہروں کی کالی گلیوں میں پہلے سورج کی روشنی تھی
زمیں پہ آنے سے پیشتر ہی کسی سے آدم کی دشمنی تھی
میں کچھ دعاوؤں کے خستہ تختے پہ گامزن تھا سمندروں پہ
سمندروں پہ یہ پہلی بارش تھی اور زمیں ڈوبنے لگی تھی
یہ وہ زمانے تھے جب خدانے نئے صحیفے اتارنے تھے
اندھیرے غاروں میں سونے والوں کی آنکھ خوابوں میں جاگتی تھی
مجھے کنویں میں گرانے والے گلے مجھے گلے مل کے رورہے تھے
مرے یہاں پر معاف کرنے کی ریت پرکھوں سے آرہی تھی
اور ایک دن وہ عصا کو ٹیکے کھڑے کھڑے لڑکھڑا گیا تھا
ہوا جسے اپنے بازووؤں پہ چہار جانب لیے پھری تھی
مرے مسیحا مری نگاہوں میں آخری خواب جاگتا تھا
یہ کیسا دکھ ہے کہ تیری آنکھوں میں پہلے تعبیر سورہی تھی
کئی ستارے تری طلب میں ہزار راتوں سے جاگتے تھے
تو جس گھڑی آسماں سے اترا وہ رات صدیوں کی روشنی تھی
ہوائیں خانہ بدوش ہوکے سلگتے صحرا میں خیمہ زن تھیں
فراتِ باغِ عدن کے شاہوں کو نہرِ کوثر پکارتی تھی
زمیں پہ آنے سے پیشتر ہی کسی سے آدم کی دشمنی تھی
میں کچھ دعاوؤں کے خستہ تختے پہ گامزن تھا سمندروں پہ
سمندروں پہ یہ پہلی بارش تھی اور زمیں ڈوبنے لگی تھی
یہ وہ زمانے تھے جب خدانے نئے صحیفے اتارنے تھے
اندھیرے غاروں میں سونے والوں کی آنکھ خوابوں میں جاگتی تھی
مجھے کنویں میں گرانے والے گلے مجھے گلے مل کے رورہے تھے
مرے یہاں پر معاف کرنے کی ریت پرکھوں سے آرہی تھی
اور ایک دن وہ عصا کو ٹیکے کھڑے کھڑے لڑکھڑا گیا تھا
ہوا جسے اپنے بازووؤں پہ چہار جانب لیے پھری تھی
مرے مسیحا مری نگاہوں میں آخری خواب جاگتا تھا
یہ کیسا دکھ ہے کہ تیری آنکھوں میں پہلے تعبیر سورہی تھی
کئی ستارے تری طلب میں ہزار راتوں سے جاگتے تھے
تو جس گھڑی آسماں سے اترا وہ رات صدیوں کی روشنی تھی
ہوائیں خانہ بدوش ہوکے سلگتے صحرا میں خیمہ زن تھیں
فراتِ باغِ عدن کے شاہوں کو نہرِ کوثر پکارتی تھی