’60 فیصد سے زیادہ ڈرون حملے عام مکانات پر کیے گئے‘
قندیل شام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
ایک نئی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کا بنیادی ہدف گھریلو مکانات تھے
ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی دس سالوں سے جاری ڈرون مہم میں بڑا ہدف عام شہریوں کے مکانات رہے۔
برطانیہ میں قائم غیر سرکاری ادارے ’دا بیورو آف انوسٹیگیٹو جرنلزم‘ (ٹی بی آئی جے) نے کہا ہے کہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملوں میں دو تہائی حملے عام مکانات پر کیے گئے تھے اور ہر حملے میں اوسطاً ایک شہری مارا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک دہائی سے جاری (جون 2004 سے لے کر مئی 2014 تک) ڈرون حملوں کے بارے میں تحقیق کے بعد تیار کی گئی ہے۔
اس کے مطابق عام مکانات پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے 1500 افراد میں سے کم از کم 222 عام شہری تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونے والے ڈرون حملوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ حملے مکانات پر کیے گئے اور ان 380 حملوں میں کم از کم 132 مکانات تباہ ہوئے۔
رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ گاڑیوں پر ڈرون حملوں کے ممقابلے میں مکانات پر حملوں سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سب سے زیادہ ہلاکتیں مدارس پر ہونے والے حملوں میں ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کے وقت کا بھی اس امر سے گہرا تعلق رہا کہ ان میں کتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
دوپہر کے مقابلے میں رات کو حملوں کا امکان دوگنا تھا اور رات کو کیے جانے والے حملے خاص طور پر مہلک ثابت ہوئے۔
ٹی بی آئی جے کا اس رپورٹ میں یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈرون مہم کے برعکس افغانستان میں 2008 کے بعد رہائش گاہوں پر ڈرون حملوں پر پابندی لگا دی گئی تھی تا کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے لیکن پاکستان میں سی آئی اے کی مہم کے دوران عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف متعدد بار احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ڈرون حملے کے بعد احتجاجاً صوبے سے نیٹو سپلائی بند کر دی تھی
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ حکومت کی جانب سے متعدد بار احتجاج کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی تنظیموں نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار ہیں جس سے عام شہریوں کی ہلاکت کے امکان کم از کم ہوتے ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق اگر ڈرون حملوں میں رات کے اوقات میں مکانات کو نشانہ بنایا جائے گا تو اس میں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے سال 2008 سے مکانات پر ڈرون حملے پر پابندی عائد کی تھی کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے ان واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے کیئی بار کے احتجاج اور ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے متعدد واقعات سامنے آنے کے باوجود ان ڈرون حملوں کو قبائلی علاقوں میں ایسے ٹھکانوں کو کیوں ٹارگٹ کیا جہاں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے امکانات تھے۔
قندیل شام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
ایک نئی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کا بنیادی ہدف گھریلو مکانات تھے
ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی دس سالوں سے جاری ڈرون مہم میں بڑا ہدف عام شہریوں کے مکانات رہے۔
برطانیہ میں قائم غیر سرکاری ادارے ’دا بیورو آف انوسٹیگیٹو جرنلزم‘ (ٹی بی آئی جے) نے کہا ہے کہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملوں میں دو تہائی حملے عام مکانات پر کیے گئے تھے اور ہر حملے میں اوسطاً ایک شہری مارا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک دہائی سے جاری (جون 2004 سے لے کر مئی 2014 تک) ڈرون حملوں کے بارے میں تحقیق کے بعد تیار کی گئی ہے۔
اس کے مطابق عام مکانات پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے 1500 افراد میں سے کم از کم 222 عام شہری تھے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونے والے ڈرون حملوں میں سے 60 فیصد سے زیادہ حملے مکانات پر کیے گئے اور ان 380 حملوں میں کم از کم 132 مکانات تباہ ہوئے۔
رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ گاڑیوں پر ڈرون حملوں کے ممقابلے میں مکانات پر حملوں سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سب سے زیادہ ہلاکتیں مدارس پر ہونے والے حملوں میں ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کے وقت کا بھی اس امر سے گہرا تعلق رہا کہ ان میں کتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
دوپہر کے مقابلے میں رات کو حملوں کا امکان دوگنا تھا اور رات کو کیے جانے والے حملے خاص طور پر مہلک ثابت ہوئے۔
ٹی بی آئی جے کا اس رپورٹ میں یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈرون مہم کے برعکس افغانستان میں 2008 کے بعد رہائش گاہوں پر ڈرون حملوں پر پابندی لگا دی گئی تھی تا کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے لیکن پاکستان میں سی آئی اے کی مہم کے دوران عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف متعدد بار احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ڈرون حملے کے بعد احتجاجاً صوبے سے نیٹو سپلائی بند کر دی تھی
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ حکومت کی جانب سے متعدد بار احتجاج کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی تنظیموں نے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک موثر ہتھیار ہیں جس سے عام شہریوں کی ہلاکت کے امکان کم از کم ہوتے ہیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق اگر ڈرون حملوں میں رات کے اوقات میں مکانات کو نشانہ بنایا جائے گا تو اس میں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے سال 2008 سے مکانات پر ڈرون حملے پر پابندی عائد کی تھی کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے ان واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے کیئی بار کے احتجاج اور ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے متعدد واقعات سامنے آنے کے باوجود ان ڈرون حملوں کو قبائلی علاقوں میں ایسے ٹھکانوں کو کیوں ٹارگٹ کیا جہاں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کے امکانات تھے۔