“بحر مُتقارب مثمن سالم” ایک کتاب

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شروع شروع میں جب شاعری کا شوق پڑا تو کوئی اصلاح کرنے والا نہیں ملارہا تھا۔ جس کے پاس جاتا اس کی اپنی ہی کہانی اور داستان ہوتی۔ غزل کی اصلاح کرتے لیکن یہ نا بتاتے کہ اس میں یہ تبدیلی کیوں کی ہے۔ یہی مسئلہ میرے دوست ایم اے راجا کا بھی تھا جو کراچی کے رہنے والے ہیں ہم دونوں فون پر ہی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ میری ملاقات پرفیسر عثمان خاور صاحب سے ہوئی جنوں نے میری مدد کی اور پھر ذوالفقار علی زلفی صاحب نے میری اصلاح کی اور کچھ بنیادی باتوں کے بارے میں بھی بتایا۔

اس کے بعد نیٹ گردی کرتے ہوئے مجھے اردو محفل فورم مل گیا۔ اس پر اصلاح سخن کا ایک الگ سے سکیشن تھا وہاں میں ایک دو غزلیں اصلاح کے لیے رکھیں تو فوراَ ہی جواب ملا اردو محفل پر میری ملاقات بہت ہی اچھا اساتذہ سی ہوئی جن میں محمد وارث صاحب "وارث صاحب کا ایک بلاگ صریرِ خامۂ وارث بھی ہے "اور اعجاز عبید صاحب بہت اہم رہے ۔ پھر میں نے راجا بھائی کو بھی محفل کا راستہ بتایا اور ہم نے مل کر محمد وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب سے کلاسیز لنا شروع کر دیں سب سے پہلے ہم نے "بحر مُتقارب مثمن سالم" کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا اور ہم کافی حد تک باوزن شاعری کرنے لگ گے۔

اردو محفل کے اصلاح سخن والے سیکشن میں یہ سب موجود ہے لیکن میں نے اعجاز عبید صاحب کی مدد سے اور محمد وارث صاحب کی اجازت سے اس کو ایک کتابی شکل دے دی ہے جس کو اعجاز عبید صاحب نے اپنی ویب سائیٹ "اردو کی برقی کتابیں" میں جگہ دیدی ہے یہ کتاب وہاں سے پڑھی اور ڈنلوڈ کی جا سکتی ہے۔

میں نے اس کو کتابی شکل میں اس لیے ترتیب دیا ہے کہ جتنی مشکل مجھے اور ایم اے راجا بھائی کو ہوئی ہے کسی نئے لکھنے والے کو نا ہو شکریہ



آپ اس کتاب کو یہاں پڑھ اور ڈنلوڈ کر سکتے ہیں



کچھ اقتباس

"(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا)"



"دراصل روایتی عربی علم عروض، جو کہ پہلے فارسی اور پھر اردو میں منتقل ہوا، اس میں کچھ سقم تھے جن کو دور کرنے کے لیئے پچھلی صدی کے آخری نصف میں بہت کام ہوا، خاص طور علوم السنہ الشرقیہ کے مغربی ماہرین اور ایرانی عالموں نے اس پر بہت کام کیا اور اب ماشاءاللہ اردو میں بھی اس پر کام ہو چکا ہے۔"



" نوٹ کریں کہ اخفا کا عمل کیوں کرتے ہیں، ظاہر ہے وزن پورا کرنے لیکن یاد رہے کہ حروفِ علت کے گرانے سے صوت اور تلفظ پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی تیرا کا الف گرا بھی دیں بھی تو تیرَ ہوگا جو تیرا ہی پڑھا جائے گا، عروض میں صوت کا بہت عمل دخل ہے۔ یعنی اخفا میں ایک بڑھے حرفِ علت (الف، و، ی) کو چھوٹے حرفِ علت (زیر، زبر، پیش) سے بدل لیتے ہیں۔ اسی طرح اسکا الٹ عمل اشباع ہے۔ اب کسی حرف صحیح consonant کو گرا کر دیکھیں، مثلاً ساگر کی آخری 'ر' گرا دیں، اسکے بعد جو لفظ باقی رہے گا وہ دریا کو کھیت میں بند کر دے گا ، کیا سے کیا ہو گیا، سو غلط ہے بلکہ ناجائز ہے۔"



"مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔"



"افسوس کہ لفظ ’دسترس‘ کسی طرح اس بحر میں فٹ نہیں ہوتا۔ دسترس بر وزن فاعلن ہے، جو نہ فعلن فعلن میں کہیں گھس سکتا ہے اور نہ فعل فعولن میں، یہی دو ارکان ممکن ہیں اس بحر میں۔"
 
Top