“کئی چاند تھے سرِ آسماں” کے انگریزی اور اُردونسخہ جات :ایک جائزہ (مہک غفور، ڈاکٹر محمد خرم یاسین)

شمس الرحمٰن فاروقی اردو ادب کے نہایت اہم ادبا و ناقدین کی صفِ اول میں شمار ہوتے ہیں۔انھوں نے اپنے دورِ حیات میں جہاں "شعرِ شور انگیز " لکھ کر اپنی تنقیدی بصیرت کا لوہا منوایا وہیں "کئی چاند تھے سرِ آسماں "تحریر کر کے تخلیق کے میدان میں سکہ بٹھایا اور یہ ناول بجاطورپر "آگ کا دریا "کے بعد اردو ادب کا سب سے بڑا ناول کہلاتا ہے ۔ ناول کو پڑھتے ہوئے کئی مرتبہ قدیم تہذیب و ثقافت کی لغات کو ہاتھ لگانا پڑتاہے، اس لیے اس کا ترجمہ خاصا مشکل کام ہے۔ اس مشکل کو بھی شمس الرحمٰن فاروقی ہی نے اپنے دورِ حیات میں " The Mirror Of Beauty کے تحت آسا ن بنا لیا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں اس میں بہت سے اضافے اور ترمیمات کرنا پڑیں جس کی وجہ سے یہ ترجمہ ہوتے ہوئے بھی ایک الگ نسخہ دکھائی دیتا ہے۔ اس مضمون میں ان دونوں نسخہ جات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مختصر مضمون میں تو دونوں نسخہ جات کی تبدیلیوں کے زیادہ تر اشارات ہی موجود ہیں، طویل مقالے میں اس پر مکمل بات کی گئی ہے جو دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ مضمون یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔


 
Top