ابن انشا ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں“

سیما علی

لائبریرین

ابن انشاء نے اپنے سفرنامے ”ابن بطوطہ کے تعاقب میں“ جو نجمی اور جمشید کے کارٹونوں کے ساتھ1974ءمیں طبع اول ہوا، ابن انشاءلکھتے ہیں کہ:
” ابن بطوطہ ایران گئے۔ابن انشا ءبھی ایران گئے۔ابن بطوطہ نے لنکا کا سفر اختیار کیا ۔ ابن انشا ءنے بھی کیا ۔ مصر،شام، روم، افغانستان، ہند، بنگال، انڈونیشیا اور چین کی سیاحت بھی دونوں نے کی لیکن باہم فاصلہ 6صدیوں کا رہا۔ اس سفر نامے میں ایران اور لنکا کے علاوہ احوال تازہ پورب پچھم کے دوسرے ملکوں اور شہروں لندن، پیرس، جرمنی، فلپاین، ہانگ کانگ اور جاپان کا سفربھی شامل ہے۔ انہوں نے اپنے سفر نامے کے پہلے صفحے پر’ ’رتن ناتھ سرشار، فسانہ آزاد“ کی نظم شامل اشاعت کی ہے، ملاحظہ ہو:​

اکتا گیا جی یہاں سے بھائی
پھر چلنے کی دل میں جھک سمائی
ایسی صد ہا پڑی ہیں افتاد
روکے سے کہیں رکے ہیں آزاد
گردش میں ہے ان دنوں جو اختر
پاﺅں پر سوار ہے سنیچر
چھپر پہ دھرا ہے عیش و آرام
سیاحوں کو ایک جا پہ کیا کام
بس یہی ہے لطف زندگانی
دانہ ہو نیا، نیا ہو پانی
چشمہ نہ بہے تو اس میں بو آئے
خنجر نہ چلے تو مورچہ کھائے
لیتے ہیں خبر ادھر ادھر کی
اب بھرتے ہیں سدھیاں سفر کی
سیٹی بجی ریل کی مری جاں
لو جاتے ہیں اب، خدا نگہبان​

ایک مختصر سے سیاہ و سفید رنگ کے کارٹون میں ایک شخص کو سفر کرتے دکھایا گیا ہے جس کے پس منظر میں اس کا گھر نظر آرہا ہے اور وہ ایک بڑے درخت کے پاس سے گزر رہا ہے ۔اس میں اس سیاحتی اشعار کا قرار واقعی تصویری منظر پیش کیا گیا ہے۔ اس سیاحت پر کمربستہ شخص ،اسلامی لباس میں ملبوس ہے اور سر پر صافہ باندھ رکھا ہے ۔
ظاہر ہے کہ کائنات کی سیاحت ،علم حاصل کرنے کے لئے ہی کی جانی چاہئے ۔ قدرت کی صناعی دیکھ کر اس کا دل یقین میں اور مستحکم ہوتا جاتا ہے ۔ہر کتاب کا مصنف جس جگہ پر پیش لفظ یا مقدمہ تحریر کرتا ہے، وہاں ابن انشاءنے ”سیاح کی منا جات “ کے عنوان سے کچھہ لکھ کر اس کو خاص بنا دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔​

 
Top