سعادت
تکنیکی معاون
پچھلے افسانے کی طرح یہ افسانہ بھی میرے ”ریٹائرڈ“ بلاگ کے آرکائیو کا حصہ ہے۔ (۱۲ اکتوبر، ۲۰۰۸ء کو لکھا گیا)
”اختتام“
اپنے آخری الفاظ تحریر کرنے کے بعد اُس نے وہ چھوٹا سا زرد کاغذ گاڑی کے ڈیش بورڈ کے ساتھ چِپکا دیا۔
گود میں رکھا ہوا ریوالور اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ اُس نے اپنی انگلیوں سے اُس ہتھیار کے سرد لوہے کو ٹٹولا۔ ہمیشہ کی طرح وہ ریوالور اپنے اندر ایک عجیب سا تاثر سموئے ہوئے تھا، جیسے وہ اپنی قوت کا ادراک رکھتا ہو اور اپنے ارد گرد موجود ہر چیز کا مضحکہ اڑا رہا ہو۔ بہت ساری دوسری چیزوں کی طرح وہ ریوالور بھی اُس کے دادا نے اُسے تحفے میں دیا تھا۔ اُس نے البتہ یہ تصور کبھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن وہ انہی تحفوں میں سے ایک کے ذریعے اپنے زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔
کچھ دیر پہلے جب اُس نے اپنی گاڑی وہاں پارک کی تھی تو اپنی دکان کا شٹر گراتے دکاندار نے اُسے حیرت سے دیکھا تھا۔ رات کے اس پہر جب تمام دکانیں بند ہو چکی تھیں، اور آخری کُھلی دکان بھی بند ہو رہی تھی، تو ایک شخص کا اپنی گاڑی وہاں لا کھڑا کرنا حیران کُن ہی تھا۔ اُس دکاندار نے چند لمحوں کے لیے اُس کا اور اُس کی گاڑی کا جائزہ لیا تھا، پھر کندھے اُچکا کر اپنی راہ لی تھی۔ شہر میں متموّل سر پھروں کی کمی نہیں تھی۔
اُس نے ریوالور کے سلنڈر کو سِرکا کر اندر موجود گولیوں کا جائزہ لیا؛ تمام چھ چیمبرز بھرے ہوئے تھے۔ وہ استہزائیہ انداز میں ہنس پڑا۔ زندگی ختم کرنے کے لیے ایک گولی ہی کافی ہوتی، لیکن وہ پورا ریوالور ہی بھر لایا تھا۔ ادھورے کام کرنا اُس کی عادت جو نہیں تھی۔
اپنے دوسری ہاتھ کی انگلیوں کو سر کے بالوں میں چلاتے ہوئے اُس نے اگلی صبح کا سوچا۔ اُس کا چھوٹا بھائی ہمیشہ کی طرح ورزش کرنے کے لیے اُٹھے گا اور پھر اُس کی گاڑی پورچ سے غائب پا کر پریشان ہو گا۔ پھر وہ موبائل فون پر اُس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے گا اور جلد ہی یہ بھی جان جائے گا کہ جس موبائل فون پر وہ کال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ گھر کے لاؤنج ہی میں موجود ہے۔ اُس موبائل فون کے نیچے ایک کاغذ بھی رکھا ہوا ہو گا جس پر ایک چھوٹے سے بازار کا پتہ درج ہو گا۔ اُس کا بھائی پھر دوڑا دوڑا وہاں پہنچے گا اور ۔۔۔
اُس کی انگلیاں ساکت ہو گئیں۔ آخر اُس کا بھائی یہاں پہنچ کر کرے گا کیا؟ روئے گا؟ چیخے گا؟ پاگل ہو جائے گا؟ یا محض اُس کی لاش کو کھڑا دیکھتا رہے گا؟ کیا وہ خود اُس کی لاش کو لے جانے کی کوشش کرے گا یا کسی کو بلائے گا؟ اور اگر کسی کو بلائے گا تو کیا کہے گا؟ کیا وہ ڈیش بورڈ پر چِپکے زرد کاغذ کو دیکھے گا؟ اور کیا وہ اِس بات کا یقین کر سکے گا کہ اُس کے بڑے بھائی نے خود کُشی کر لی ہے؟
سڑک کے دوسرے کنارے پر کوئی آوارہ کتّا بھونک رہا تھا۔ اُس نے آواز کی سمت میں سر گھمایا اور تاریکی میں گھورنے لگا۔ یکا یک اُس کا دل چاہا تھا کہ وہ بھی بھونکنا شروع کر دے۔ کسی بھی قسم کی لگی لِپٹی رکھے بغیر بھونکے اور بھونکتا چلا جائے۔ اُس نے اپنا منہ کھولا بھی، لیکن اُس کے حلق سے برآمد ہونے والی آواز بھونکنے کی نہیں، ہنسنے کی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اُسے اپنے آپ پر حیرت ہوئی تھی لیکن وہ رکا نہیں، بس ہنستا گیا۔ اِسی طرح ہنستے ہنستے وہ اپنی سِیٹ پر دُہرا ہو گیا تھا۔
کچھ دیر کے بعد وہ اپنی ہنسی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکا تھا۔ اپنی آنکھیں بند کیے اور اسٹئیرنگ وِھیل کے ساتھ اپنی پیشانی ٹِکائے وہ اسی طرح دُہرا بیٹھا رہا۔ دیر تک ہنسنے کی وجہ سے اُس کا دل اب کچھ زیادہ ہی زور سے دھڑک رہا تھا۔ اُس نے ریوالور کی نال کو سینے سے لگا کر اپنی دھڑکن کو محسوس کیا۔ پھر اپنی آنکھیں کھول دیں۔
ایک طویل سانس لے کر وہ سیدھا ہوا لیکن پھر فوراً ہی ٹھٹک کر عجیب سے انداز میں ڈیش بورڈ پر چِپکے ہوئے کاغذ کو دیکھنے لگا۔ اُس کاغذ پر لکھی ہوئی وہ مختصر تحریر اب اُس کے دل کے ساتھ ساتھ دھڑک رہی تھی۔ اُس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو بھی دھڑکتا محسوس کیا۔ اور پھر جیسے اُس کے آس پاس موجود ہر چیز دھڑکنے لگی تھی۔ وہ گُنگ سا بیٹھا ان تمام دھڑکنوں کو اپنی سماعت میں دھمکتا محسوس کرنے لگا۔ اپنی آنکھیں بند کر کے اُس نے دھک دھک کی اُس گونج کو کم کرنا چاہا۔ پھر ریوالور کو سائیڈ سِیٹ پر پھینک کر اُس نے اپنی ہتھیلیاں کانوں پر رکھ لیں۔ وہ زور آور دھڑکن البتہ کم ہونے کی بجائے اُس کے اعصاب پر مزید سوار ہوتی گئی۔ ایک ہلکی سی غرّاہٹ کے ساتھ اُس نے اپنا ریوالور دوبارہ اٹھایا اور پھر ٹریگر دبا دیا۔
گولی چلنے کی اُس سفاک سی گونج نے تمام دھڑکنوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔
اگلی صبح جب اُس کا بھائی وہاں پہنچا تو گاڑی کی سائیڈ سِیٹ پر ریوالور کی چار گولیوں کو بکھرا ہوا پایا۔ الجھن زدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اُس نے ڈیش بورڈ سے وہ زرد کاغذ اتارا اور اپنے بھائی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر پڑھنے لگا۔
”مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ خدا حافظ۔“