”سیف_الدین_سیفؔ صاحب“ کا یومِ ولادت...20۔3۔2022

سیما علی

لائبریرین
آج - 20؍مارچ 1922
پاکستانی شاعر اور معروف نغمہ
نگار”#سیف_الدین_سیفؔ صاحب“ کا یومِ ولادت...
#سیف_الدین نام اور #سیفؔ تخلص تھا۔
20؍مارچ 1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ بعض سیاسی ومذہبی مسائل پر ارباب کالج سے الجھ پڑنے کی وجہ سے امتحان سے روک دیا گیا۔مجبوراً سیف نے تعلیم سے منہ موڑلیا اور تلاش معاش میں سرگرداں ہوگئے۔ 1946ء میں فلمی لائن اختیار کی۔ فلمی نغمہ نگاری او رمکالمے لکھنا ان کا ذریعہ معاش بن گیا۔ انھوں نے مستقل طور پر لاہور میں اقامت اختیار کرلی۔ سیف کو کم سنی ہی سی شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل ، رباعی ، طویل ومختصر نظمیں اور گیت سبھی کچھ لکھا ہے۔ مگر غزل سے فطری لگاؤ تھا۔ 12؍جولائی 1993ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ’’خم کا کل‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوگیاہے ۔ ’’کف گل فروش‘‘ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷

🌹🎊 مشہور شاعر سیف الدین سیفؔ صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 🎊🌹
آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
---
تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو
کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ ہوا
---
سیفؔ اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
---
تم کو بیگانے بھی اپناتے ہیں میں جانتا ہوں
میرے اپنے بھی پرائے ہیں تمہیں کیا معلوم
---
کتنا بیکار تمنا کا سفر ہوتا ہے
کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے
---
مری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
---
غم گسارو بہت اداس ہوں میں
آج بہلا سکو تو آ جاؤ
---
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
---
کبھی جگر پہ کبھی دل پہ چوٹ پڑتی ہے
تری نظر کے نشانے بدلتے رہتے ہیں
---
کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
---
ہمیں خبر ہے وہ مہمان ایک رات کا ہے
ہمارے پاس بھی سامان ایک رات کا ہے
---
یہ آلام ہستی یہ دور زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا
---
آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موجِ رواں گزری ہے
---
ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تری فرقت میں
جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے
---
تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
---
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسرِ اوقات پہ رونا آیا
---
قریب نزع بھی کیوں چین لے سکے کوئی
نقاب رخ سے اٹھا لو تمہیں کسی سے کیا
---
پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں
مدعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں
---
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ داستانِ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
---
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے
---
سیفؔ پی کر بھی تشنگی نہ گئی
اب کے برسات اور ہی کچھ تھی

💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐
 
Top