شکیب
محفلین
کئی عروض کی کتب نظر سے گزریں۔ ایک بہت کافی پرانی تھی جس میں بڑے مشکل انداز میں، بلکہ کلاسیکی اردو میں سمجھایا گیا تھا۔ بقیہ دو میں سے ایک کا نام شاید آسان عروض تھا۔ اس میں کافی آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی، پھر بھی آسان بناتے بناتے وہ کافی دماغ پچی کراگئے تھے(یہ تو ہمارا ہی قصور تھا سراسر)
ان کتب سے ہٹ کر سب سے پہلے یو ایس اے کے گرامی قدر شاعر سرور عالم راز کی لڑیاں دیکھیں، جو ایک فورم بھی چلاتے ہیں۔ اس پر انہوں نے آسان الفاظ میں کانوں میں بات اتار دی تھی۔
ایک دن بیت بازی کے مقابلے یو ٹیوب پر تلاش کر رہا تھا، اسی دوران ریختہ کی بیت بازی سامنے آئی۔ ڈاؤنلوڈ کر کے سنتے ہی گویا ”اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے“ میں سمجھتا تھا پتہ نہیں دنیا میں وزن سمجھنے والے کہاں ہوں گے، یہ بیت بازی سن کر پتہ چلا کہ دہلی میں ہی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے،میں ان سے رابطہ کرنے کی سبیل تلاش کرنے لگا تھا۔
اور اس کے فوراً بعد مجھے محفل کا پتہ مل گیا، یہاں تو وارے نیارے۔ ایک سے ایک استاد بیٹھے ہیں، جہاں ہم دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے۔ یہیں پر عروض کے کئی آسان سلسلے دیکھے۔ جس کی طرف دیکھو وہ عروض سکھانے کا ٹیوٹوریل لیے موجود، اور سچ میں بہت آسان الفاظ میں۔ یہیں آسی صاحب کی کتاب بھی پائی۔
ان کتب اور لڑیوں سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔اب تک ”کچھ“ کو چھوڑ کے میں نے تمام لوگ وہی پائے ہیں جو عروض سے ناواقف تھے، اور حد تو یہ کہ سمجھانے پر (بلکہ سر پٹک ڈالنے پر بھی) ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ایسی صورت میں عروض کا خدائی عطا کردہ ترازو عوام الناس کو بھی تھمانے کی ایک کوشش شروع کی جس کانام رکھا علمِ عروض۔ یہ عروض کتابوں والا کم، اور وہبی زیادہ تھا۔(اور میں مانتا ہوں کہ اب بھی مجھ میں کتابی عروض نسبتا کم ہی ہے)
مجھے افسوس ہے کہ میں نے کہیں تاریخ نہیں ڈالی تھی، یادگار کے طور پر کام آتی۔
3ڈی ٹائٹل کَوَر بنایا تھا۔ ملاحظہ ہو:
مصنف کو اس عاجز نے دیکھا بھی ہے، پڑھا بھی ہے۔ طالبِ علمی کے دور میں ہم دونوں ساتھ ہی تھے۔ زمانہء طالبِ علمی ہی سے شاعری کا شغف تھا، لیکن جماعت کے سارےطلباء گواہ ہیں کہ قواعدِ شاعری اور وزن کے حوالے سے موصوف کے علاوہ ساری جماعت کوری تھی۔ اور سبھی نے صرف ردیف و قافیہ کو شاعری سمجھ رکھا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے،ہمارے ساتھی مختلف اشعار سنایا کرتے اور بھائی شکیب انہیں رد کردیا کرتے کہ بھائی یہ شعر نہیں ہے۔ ظاہرہے طبیعت پر گراں گزرتا تھا۔ بعض اوقات مجھے بھی جناب نے ٹوکا(فجزاہم اللہ احسن الجزاء) لیکن ہمارے تعلق نے ہمارے بیچ کچھ ٹیڑھ نہیں آنے دیا۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت عاجز کو بھی وزن اور بحر سے کچھ آشنائی ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ علمِ عروض کو جتنا مشکل زبان و بیان میں پیش کیا جائے گااتنا اسکے علم کو خشک کیا جائے گا۔۔۔۔چنانچہ اگر اسے عام فہم الفاظ میں اور سادگی سے کسی رسالہ کی مانند لیا جائے تو زیادہ درست ہوگا، بجائے اس کے کہ اسے کوئی حوالہ جاتی کتاب سمجھا جائے۔
میں کالج جانے کے لیے بس میں سوار ہوا۔ میرے ایک نہایت محترم سینیئر ساتھی بھی ساتھ ہی سوار ہوئے۔ سلام جواب کے بعد میں نے ان کے متعلق دریافت کیا کہ آجکل کیا کر رہے ہیں؟ کیا مصروفیات ہیں؟ آپ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کس طرح دنیا کی دوڑ میں خود کو شریک کیا وغیرہ باتوں باتوں میں کافی وقت گزر گیا۔
میں نے انہیں سکول کے زمانے کا ایک مشاعرہ یاد دلایا۔ انہیں تو گویا اس کی ساری جزئیات یاد تھیں۔ شاعری کے ذکر پر فرازؔ کی ایک غزل سنا دی، ماشاءاللہ حافظہ کافی قوی تھا۔ ان کی دلچسپی کو دیکھ کر میں نے پوچھ لیا۔
"آپ کچھ لکھتے ہیں؟"
"لکھتے ہیں کا کیا مطلب؟"
"میرا مطلب ہے شاعری کرتے ہیں؟"
" ہاں! کبھی کبھی لکھ لیتا ہوں۔ ہماری سکول لائف میں بھی ایک نظم میں نے لکھی تھی کافی مقبول ہوئی تھی۔۔۔میں نے سر کو دکھائی بھی تھی"(انہوں نے ایک شاعر ٹیچر کا نام لیا)
ان کی ان باتوں کو سن کر میں دنگ رہ گیا۔۔۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے مختلف شعراء کے کلام سنائے جن کے بارے میں ہماری گفتگو ہو رہی تھی۔
میں نے پوچھا۔
"کوئی شعر اپنا سنائیے"
"ہاں۔ کیوں نہیں! میں نے یہ شعر کہا تھا اور دوستوں میں کافی مقبول ہوا تھا۔۔۔سوشل میڈیا پر بھی کافی پسند کیا گیا تھا۔۔۔شعر یوں ہے۔۔۔"
اور قارئین کرام! اس کے بعد انہوں نے جو شعر سنایا، اس میں بحر و وزن کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ ضرور تھا کہ الفاظ و معانی کافی سوچ کر لیے اوربشکلِ شعر(بقول ان کے) پروئے گئے تھے۔
میں نے آنکھیں پٹپٹائیں اور تھوک گھونٹا۔ وہ مجھے داد طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔میں نےزیرِ لب ان کا شعر دہرایا اور پھنسی ہوئی آواز میں کہا۔
"ماشاءاللہ! تخیل کی پرواز ہے، بات کہی ہے آپ نے ۔۔۔لیکن یہ۔۔۔"
میں کہتے کہتے رک گیا۔ یہ عاجز صاف گوئی میں کافی بدنام ہے(اور رہنا بھی چاہتا ہوں، کہ حق کو حق نہ کہا جائے تو باطل کو سر اٹھانے کا موقع میسر آتا ہے) لیکن پھر بھی ان کی دل آزاری کے خیال سے میں نے احتیاط سے لفظ چنے اور یہ کہنے کی بجائے کہ"یہ شعر نہیں ہے" یوں کہا
"اس میں وزن تو دیکھا ہوگا آپ نے؟"
وہ خاموش رہے۔ان کے چہرے پر معصومیت بھری لاعلمی دیکھ کر میں نے پھر کوشش کی۔
"یعنی کون سی بحر پر شعر کہا ہے آپ نے؟"
چہرے کے تاثرات میں کوئی فرق اب بھی نہیں پڑا۔۔۔ہمارے جونیئر کالج میں کچھ بحورکی تقطیع بھی نصاب میں شامل ہوتی تھی،اسی کے پیشِ نظر میں نے آخری کوشش کی
"آپ نے تقطیع وغیرہ کرکے دیکھا ہوگا شعر کو، اس میں وزن ہے یا نہیں ؟"
اور ان کا جواب میری ساری امیدوں پر پانی پھیر گیا۔۔۔بڑے جوش سے کہا
" اتنی تفصیل کون دیکھتا ہے یار۔۔۔بس اچھا شعر بنا، میں نے لکھ دیا"
پھر انہوں نے کافی دیر تک اس شعر کی آن لائن اور آف لائن شہرت پر گفتگو کی(غالباً وہ اپنے "شعر" کی ناقدری پر چیں بہ جبیں ہورہے ہوں گے)
اس وقت چاہے میں نے کتنا ہی خود کو سنبھالا ہو، لیکن میں نے سارے سفر میں ان کے اترنے کے بعد یہی سوچا کہ ایسے نہ جانے کتنے "شاعر" ہوں گے جو خود کو "شاعر" کہتے ہوں گے اورابجدِ فنِّ عروض سے ناواقف ہوں گے۔پہلے مجھے ہنسی آئی، پھر غصہ آیا، پھر افسوس ہوا۔۔۔اے کاش کہ کوئی انہیں سمجھا سکے کہ شعر دراصل شعر کب کہلاتا ہے۔
سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک، واٹس ایپ وغیرہم پر آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ چار لائن کوئی بھی فارورڈ کردیا کرتا ہے، یا پوسٹ بنائی جاتی ہے اور اس پر ہزاروں کی تعداد میں لائکس اور تبصرے(کمنٹس) آتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، واللہ ان میں سے 80 فیصد بھی شعر نہیں ہوتے۔ کئی تو پیج ہی ایسے بنائے جاتے ہیں جس میں ساری پوسٹ انکی نام نہاد"شاعری" سے بھری ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا کے ان "اشعار" میں صرف ردیف اور قافیہ کی پابندی کی جاتی ہے، اور اس کے بعد کسی بھی چیز کی پابندی نہیں کی جاتی۔۔۔بعض اوقات ردیف و قافیہ گڈمڈ کردیے جاتے ہیں اور کبھی قافیہ ردیف سے بدل دیا جاتا ہے۔ ماشاءاللہُ کان۔ ما لم یشاء لم یکن۔ ملاحظہ ہو فیس بک پر ایک "شاعری"۔
تم نے بھلا دیا تو شکوے کیسے
اپنوں کو تو بڑے اختیار ہوا کرتے ہیں
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی کو اردو پر عبور حاصل ہو، تو ضروری نہیں اسے شاعری کی بھی سمجھ ہو۔ اسی کو میں زبان دانی اور سخن فہمی سے تعبیر کرتا ہوں۔ آج ایک بڑا طبقہ صرف اردو سے واقفیت رکھنے کی بنیاد پر سخن فہم ہونے کی خوش فہمی میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ اور میں یہ بات اس لیے واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ان کی خوش فہمی، سخن فہمی کی طرف مائل ہو۔ شعر سمجھنا اور اس کے مضمون کو جاننا محض زبان کی واقفیت کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی" زندہ" مثال پیش ہے۔
ایک بڑا ہی خوبصورت اور ذومعنی اشعار کا گلدستہ بر عشقِ حقیقی،جو اس عاجز نے حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم کی کتب میں بارہا پڑھا ہے۔۔۔اسے پوسٹ بنا کر میں نے اپنے فیس بک پیج پر اپلوڈ کیا۔ اشعار یوں ہیں۔
واضح رہے، یہ اشعار عشقِ حقیقی پر ہیں۔
دوسری طرف ہوا یوں کہ ایک پیج نظر سے گزرا، جس پر شاعری کے نام پر بے ڈول اشعار کا ذخیرہ تھا۔ میں نے اپنی عادت کے موافق نرم لہجے میں اس پیج کے ایڈمن کو پیغام دیا کہ بھائی یہ اشعار نہیں ہیں، آپ برائے مہربانی باوزن اشعار اپلوڈ کریں، یا پھر جو "اصل شعراءِ کرام" ہیں ان کے اشعار استعمال کریں۔ اور اگر آپ کو اس موضوع(بحرو وزن،مراد علمِ عروض) کے تعلق سے کوئی پریشانی آئے تو یہ عاجز آپ کی مدد کرنے کے لیے بصد خوشی تیار ہے۔
بس اس میسج کا جانا تھا،پھر میں رہا، اور پیج ایڈمن کے تیور رہے۔ مجھ سے کچھ دیر تو بحث کی، کہ یہ میرا شوق ہے، آپ کو زیادہ اردو آتی ہوگی،لیکن میں نے پیج لائک کمانے کے لیے نہیں بنایا،اپنی تسلی کے لیے بنایا ہے وغیرہ۔۔۔
میں نے انہیں سمجھایا کہ بھائی میرے، مجھے تمہارے پیج پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے، آپ ضرور اپنا شوق پورا کریں، لیکن آپ اگر شاعری کے نام پر شاعری کو بدنام کریں گے تو بقول عزیزم مزمل اختر
"اہلِ ذوق حضرات کو تکلیف ہوگی"
بہرحال، میں نے انہیں دقتوں سے سمجھایا کہ مجھے شاعری پر نہیں، بے وزن شاعری پر اعتراض ہے۔ اور بحر و وزن کے تعلق سے میں آپکی مدد کے لیے حاضر ہوں۔
میں نے معافی مانگی، اور پھر ان سے کوئی رابطہ اور ان کے کسی "شعر" پر اعتراض نہیں کیا، کہ کیا خبر کس بات پر برانگیختہ ہوجائیں۔
مجھے کیا خبر تھی کہ آگ سلگ اٹھی تھی۔ محترم کے تیور دیکھتے ہوئے میری گفتگو کی نرمی گویا اشک آلودہ ہوگئی تھی۔ اور یہ تو ظاہر ہے
جو آگ لگائی تھی تم نے، اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے، اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
انہوں نے عشقِ حقیقی پر منحصر اس پوسٹ پر جو میں نے پیج پر کی تھی، بڑے تند لہجے میں ان اشعار پر(جو اوپر بھی گزرچکے) سوالات و اعتراضات کی بوچھار کی۔
عشق کی آتش کا جب شعلہ اٹھا
ماسوا معشوق سب کچھ جل گیا
تیغِ لا سے قتلِ غیرِ حق ہوا
پھر بتاؤ بعد اس کے کیا بچا؟
پھر بچا اللہ باقی سب فنا
مرحبا اے عشق تجھ کو مرحبا
ان کی اردو ماشاء اللہ تھی۔ بلکہ الحمد للہ تھی۔ لیکن ان سے جو مکالمہ اس عاجز کا ہوا، وہی آپ کو بتائے گا کہ زبان دانی، اور سخن فہمی، دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ملاحظہ ہو
وہ:
تیغِ لا سے قتلِ غیرِ حق ہوا
Can you explain this line, I am waiting for your reply.
(کیا آپ اس سطر کو سمجھا سکتے ہیں، میں آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں)
میں:
( مجھے اس وقت یہ خبر نہیں تھی کہ یہ وہی بندہ ہے)
لا سے مراد جزوِ اوّل کلمہ کا ہے، اور کلمہ بلاشبہ حق کی بنیاد ہے۔ چنانچہ جب حق آئے گا تو غیرِ حق مٹ جائے گا جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ۔۔۔(سورہ ۱۷بنی اسرائیل: ۸۱)
چنانچہ تیغِ لا=لا کی تلوار سے غیرِ حق کا قتل ہوجاتا ہے۔
وہ:
آہم۔ آپ کی Explanation سے پتہ چلا کہ کیوں مسلمان اتنا خون خرابہ کرتے ہیں، ان کا تو کلمہ ہی تلوار سے شروع ہوتا ہے۔
اگر کلمہ کی ابتدا ہی تلوار کے ساتھ ہے تو مسلمانوں نے دنیا میں Terrorism(دہشت گردی) پھیلا رکھا ہے، پھر تو ٹھیک ہے،according to your explanation(آپ کے کہنے کے مطابق)
اور اسلام تو قتل و غارت کا مذہب ہے نا! اس طرح کہ اس میں داخل ہونا ہی تلوار کے ساتھ ہے۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔ Could you explain this?(کیا آپ اسے واضح کر سکتے ہیں؟)
ابھی تو آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ عاشق و معشوق میں حق کون ہے؟ ذرا پہلے آپ لا کی تلوار کو تو Explain کرلیں۔
میں:
لا کی تلواربطور استعارہ کے آئے ہیں، نہ کہ حقیقی مراد ہیں۔
آپ یا تو اردو سے نابلد ہیں یا پھر آپکے عقیدے میں کوئی بات غلط ہے۔ بہرحال، سخن فہمی اور زبان دانی بالکل الگ چیزیں ہیں۔
اگر آپکے مزید اشکال عقیدے یا زبان کے تعلق سے ہوں تو ایڈمن سے رابطہ کریں۔۔۔
شکریہ!
اس کے بعد عالیجناب کا کوئی پیغام نہیں آیا!
نوٹ: چونکہ یہ پہلے ہی کہ چکا ہوں، کہ کتاب کو حوالہ جاتی کتاب نہ بناتے ہوئے میں نے عوامی سطح پر یہ کتاب لکھی ہے، تاکہ وہ سیدھی سادھی عوام جو اردو سے واقف ہے، اور اردو شاعری سے نابلد…(غالباً اب آپ جان چکے ہوں گے کہ شاعری سے مراد صرف باوزن شاعری ہے، بغیر وزن کے اشعار کو شاعری نہیں کہتے)انہیں شاعری کا شعور آجائے۔ چنانچہ کتاب میں صرف کثیر الاستعمال بحریں شامل کی ہیں۔ شاذ بحروں کو اور قلیل الاستعمال بحروں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ارکانِ عروض کل آٹھ ہیں۔
1۔ فعولن
2۔ فاعلاتُن
3۔ فاعلن
4۔ مستفعلن
5۔ مفاعیلن
6۔ مفاعلتن
7۔ مفعولات
8۔ متفاعلن
ارکانِ عروض کی ترتیب اس عاجز نے جو رکھی ہے، وہ اس لیے کہ یہ یاد رکھنے کے لیے آسان اور مندرجہ قطعہ کے مطابق ہے۔
اس قطعہ کے یاد کرنے سے آپ کا ان ارکان کو یاد رکھنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اور اگر قطعہ یاد نہ بھی ہو، تو اصل تو ارکان کا یاد کرنا ہے۔
ان تمام ارکان کے استعمال سے مختلف اوزان بنتے ہیں۔یہ عاجز کوشش کرے گا کہ آپ کو اُن کے نام کو یاد کرنے پر زور دینے کی بجائے صرف وزن پہچاننا آسان ہوجائے۔عروض کی کتبِ سابقہ میں اُن کے نام بڑے بھاری بھرکم اور عوام الناس کے لیےبوریت کا باعث ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو کتبِ سابقہ کی طرز پر پہلے نام گنوانے کی بجائے پہلے اصل بحر بتائی جائے، بعد میں اس بحر کی خصوصیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے انشاءاللہ اُن کے نام بھی بتائے جائیں گے۔
مندرجہ بالا ارکانِ عروض کی لسٹ جو آپ نے یاد کی ہے(نہ کی ہو تو یاد کرلیجیے) اسی فہرست کے مطابق ہم بحروں کو دیکھیں گے۔
×××
یہیں تک لکھا تھا، اب کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اللہ تمام احباب کو ہدایت عطا فرمائے، اور اجر عظیم سے مالا مال فرمائے۔ زبانی تو اب بھی کوشش جاری ہے اصلاح کی، البتہ اب اس موضوع پر لکھنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ محفل کا ادبی معیار دیکھ کے کبھی کبھی آنکھ میں پانی آجاتا ہے، اور بے انتہاء دعائیں نکلتی ہیں کہ پیارے اللہ، میں نے تو کچھ لوگ مانگے تھے جنہیں وزن کی شد بد ہو، یہاں تو آپ نے اساتذہ سے ملا دیا۔
اللہ حامی و ناصر ہو۔
شکیب احمد
ان کتب سے ہٹ کر سب سے پہلے یو ایس اے کے گرامی قدر شاعر سرور عالم راز کی لڑیاں دیکھیں، جو ایک فورم بھی چلاتے ہیں۔ اس پر انہوں نے آسان الفاظ میں کانوں میں بات اتار دی تھی۔
ایک دن بیت بازی کے مقابلے یو ٹیوب پر تلاش کر رہا تھا، اسی دوران ریختہ کی بیت بازی سامنے آئی۔ ڈاؤنلوڈ کر کے سنتے ہی گویا ”اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے“ میں سمجھتا تھا پتہ نہیں دنیا میں وزن سمجھنے والے کہاں ہوں گے، یہ بیت بازی سن کر پتہ چلا کہ دہلی میں ہی بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے،میں ان سے رابطہ کرنے کی سبیل تلاش کرنے لگا تھا۔
اور اس کے فوراً بعد مجھے محفل کا پتہ مل گیا، یہاں تو وارے نیارے۔ ایک سے ایک استاد بیٹھے ہیں، جہاں ہم دبک کر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے۔ یہیں پر عروض کے کئی آسان سلسلے دیکھے۔ جس کی طرف دیکھو وہ عروض سکھانے کا ٹیوٹوریل لیے موجود، اور سچ میں بہت آسان الفاظ میں۔ یہیں آسی صاحب کی کتاب بھی پائی۔
ان کتب اور لڑیوں سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔اب تک ”کچھ“ کو چھوڑ کے میں نے تمام لوگ وہی پائے ہیں جو عروض سے ناواقف تھے، اور حد تو یہ کہ سمجھانے پر (بلکہ سر پٹک ڈالنے پر بھی) ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ایسی صورت میں عروض کا خدائی عطا کردہ ترازو عوام الناس کو بھی تھمانے کی ایک کوشش شروع کی جس کانام رکھا علمِ عروض۔ یہ عروض کتابوں والا کم، اور وہبی زیادہ تھا۔(اور میں مانتا ہوں کہ اب بھی مجھ میں کتابی عروض نسبتا کم ہی ہے)
مجھے افسوس ہے کہ میں نے کہیں تاریخ نہیں ڈالی تھی، یادگار کے طور پر کام آتی۔
3ڈی ٹائٹل کَوَر بنایا تھا۔ ملاحظہ ہو:
مصنف کے بارے میں
مصنف کو اس عاجز نے دیکھا بھی ہے، پڑھا بھی ہے۔ طالبِ علمی کے دور میں ہم دونوں ساتھ ہی تھے۔ زمانہء طالبِ علمی ہی سے شاعری کا شغف تھا، لیکن جماعت کے سارےطلباء گواہ ہیں کہ قواعدِ شاعری اور وزن کے حوالے سے موصوف کے علاوہ ساری جماعت کوری تھی۔ اور سبھی نے صرف ردیف و قافیہ کو شاعری سمجھ رکھا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے،ہمارے ساتھی مختلف اشعار سنایا کرتے اور بھائی شکیب انہیں رد کردیا کرتے کہ بھائی یہ شعر نہیں ہے۔ ظاہرہے طبیعت پر گراں گزرتا تھا۔ بعض اوقات مجھے بھی جناب نے ٹوکا(فجزاہم اللہ احسن الجزاء) لیکن ہمارے تعلق نے ہمارے بیچ کچھ ٹیڑھ نہیں آنے دیا۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت عاجز کو بھی وزن اور بحر سے کچھ آشنائی ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ علمِ عروض کو جتنا مشکل زبان و بیان میں پیش کیا جائے گااتنا اسکے علم کو خشک کیا جائے گا۔۔۔۔چنانچہ اگر اسے عام فہم الفاظ میں اور سادگی سے کسی رسالہ کی مانند لیا جائے تو زیادہ درست ہوگا، بجائے اس کے کہ اسے کوئی حوالہ جاتی کتاب سمجھا جائے۔
مبشر الحسن
پس منظر
میں کالج جانے کے لیے بس میں سوار ہوا۔ میرے ایک نہایت محترم سینیئر ساتھی بھی ساتھ ہی سوار ہوئے۔ سلام جواب کے بعد میں نے ان کے متعلق دریافت کیا کہ آجکل کیا کر رہے ہیں؟ کیا مصروفیات ہیں؟ آپ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کس طرح دنیا کی دوڑ میں خود کو شریک کیا وغیرہ باتوں باتوں میں کافی وقت گزر گیا۔
میں نے انہیں سکول کے زمانے کا ایک مشاعرہ یاد دلایا۔ انہیں تو گویا اس کی ساری جزئیات یاد تھیں۔ شاعری کے ذکر پر فرازؔ کی ایک غزل سنا دی، ماشاءاللہ حافظہ کافی قوی تھا۔ ان کی دلچسپی کو دیکھ کر میں نے پوچھ لیا۔
"آپ کچھ لکھتے ہیں؟"
"لکھتے ہیں کا کیا مطلب؟"
"میرا مطلب ہے شاعری کرتے ہیں؟"
" ہاں! کبھی کبھی لکھ لیتا ہوں۔ ہماری سکول لائف میں بھی ایک نظم میں نے لکھی تھی کافی مقبول ہوئی تھی۔۔۔میں نے سر کو دکھائی بھی تھی"(انہوں نے ایک شاعر ٹیچر کا نام لیا)
ان کی ان باتوں کو سن کر میں دنگ رہ گیا۔۔۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے مختلف شعراء کے کلام سنائے جن کے بارے میں ہماری گفتگو ہو رہی تھی۔
میں نے پوچھا۔
"کوئی شعر اپنا سنائیے"
"ہاں۔ کیوں نہیں! میں نے یہ شعر کہا تھا اور دوستوں میں کافی مقبول ہوا تھا۔۔۔سوشل میڈیا پر بھی کافی پسند کیا گیا تھا۔۔۔شعر یوں ہے۔۔۔"
اور قارئین کرام! اس کے بعد انہوں نے جو شعر سنایا، اس میں بحر و وزن کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ ضرور تھا کہ الفاظ و معانی کافی سوچ کر لیے اوربشکلِ شعر(بقول ان کے) پروئے گئے تھے۔
میں نے آنکھیں پٹپٹائیں اور تھوک گھونٹا۔ وہ مجھے داد طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔میں نےزیرِ لب ان کا شعر دہرایا اور پھنسی ہوئی آواز میں کہا۔
"ماشاءاللہ! تخیل کی پرواز ہے، بات کہی ہے آپ نے ۔۔۔لیکن یہ۔۔۔"
میں کہتے کہتے رک گیا۔ یہ عاجز صاف گوئی میں کافی بدنام ہے(اور رہنا بھی چاہتا ہوں، کہ حق کو حق نہ کہا جائے تو باطل کو سر اٹھانے کا موقع میسر آتا ہے) لیکن پھر بھی ان کی دل آزاری کے خیال سے میں نے احتیاط سے لفظ چنے اور یہ کہنے کی بجائے کہ"یہ شعر نہیں ہے" یوں کہا
"اس میں وزن تو دیکھا ہوگا آپ نے؟"
وہ خاموش رہے۔ان کے چہرے پر معصومیت بھری لاعلمی دیکھ کر میں نے پھر کوشش کی۔
"یعنی کون سی بحر پر شعر کہا ہے آپ نے؟"
چہرے کے تاثرات میں کوئی فرق اب بھی نہیں پڑا۔۔۔ہمارے جونیئر کالج میں کچھ بحورکی تقطیع بھی نصاب میں شامل ہوتی تھی،اسی کے پیشِ نظر میں نے آخری کوشش کی
"آپ نے تقطیع وغیرہ کرکے دیکھا ہوگا شعر کو، اس میں وزن ہے یا نہیں ؟"
اور ان کا جواب میری ساری امیدوں پر پانی پھیر گیا۔۔۔بڑے جوش سے کہا
" اتنی تفصیل کون دیکھتا ہے یار۔۔۔بس اچھا شعر بنا، میں نے لکھ دیا"
پھر انہوں نے کافی دیر تک اس شعر کی آن لائن اور آف لائن شہرت پر گفتگو کی(غالباً وہ اپنے "شعر" کی ناقدری پر چیں بہ جبیں ہورہے ہوں گے)
اس وقت چاہے میں نے کتنا ہی خود کو سنبھالا ہو، لیکن میں نے سارے سفر میں ان کے اترنے کے بعد یہی سوچا کہ ایسے نہ جانے کتنے "شاعر" ہوں گے جو خود کو "شاعر" کہتے ہوں گے اورابجدِ فنِّ عروض سے ناواقف ہوں گے۔پہلے مجھے ہنسی آئی، پھر غصہ آیا، پھر افسوس ہوا۔۔۔اے کاش کہ کوئی انہیں سمجھا سکے کہ شعر دراصل شعر کب کہلاتا ہے۔
لطیفہ
سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک، واٹس ایپ وغیرہم پر آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ چار لائن کوئی بھی فارورڈ کردیا کرتا ہے، یا پوسٹ بنائی جاتی ہے اور اس پر ہزاروں کی تعداد میں لائکس اور تبصرے(کمنٹس) آتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، واللہ ان میں سے 80 فیصد بھی شعر نہیں ہوتے۔ کئی تو پیج ہی ایسے بنائے جاتے ہیں جس میں ساری پوسٹ انکی نام نہاد"شاعری" سے بھری ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا کے ان "اشعار" میں صرف ردیف اور قافیہ کی پابندی کی جاتی ہے، اور اس کے بعد کسی بھی چیز کی پابندی نہیں کی جاتی۔۔۔بعض اوقات ردیف و قافیہ گڈمڈ کردیے جاتے ہیں اور کبھی قافیہ ردیف سے بدل دیا جاتا ہے۔ ماشاءاللہُ کان۔ ما لم یشاء لم یکن۔ ملاحظہ ہو فیس بک پر ایک "شاعری"۔
تم نے بھلا دیا تو شکوے کیسے
اپنوں کو تو بڑے اختیار ہوا کرتے ہیں
زبان دانی اور سخن فہمی کا فرق
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی کو اردو پر عبور حاصل ہو، تو ضروری نہیں اسے شاعری کی بھی سمجھ ہو۔ اسی کو میں زبان دانی اور سخن فہمی سے تعبیر کرتا ہوں۔ آج ایک بڑا طبقہ صرف اردو سے واقفیت رکھنے کی بنیاد پر سخن فہم ہونے کی خوش فہمی میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ اور میں یہ بات اس لیے واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ان کی خوش فہمی، سخن فہمی کی طرف مائل ہو۔ شعر سمجھنا اور اس کے مضمون کو جاننا محض زبان کی واقفیت کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی" زندہ" مثال پیش ہے۔
ایک بڑا ہی خوبصورت اور ذومعنی اشعار کا گلدستہ بر عشقِ حقیقی،جو اس عاجز نے حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم کی کتب میں بارہا پڑھا ہے۔۔۔اسے پوسٹ بنا کر میں نے اپنے فیس بک پیج پر اپلوڈ کیا۔ اشعار یوں ہیں۔
واضح رہے، یہ اشعار عشقِ حقیقی پر ہیں۔
دوسری طرف ہوا یوں کہ ایک پیج نظر سے گزرا، جس پر شاعری کے نام پر بے ڈول اشعار کا ذخیرہ تھا۔ میں نے اپنی عادت کے موافق نرم لہجے میں اس پیج کے ایڈمن کو پیغام دیا کہ بھائی یہ اشعار نہیں ہیں، آپ برائے مہربانی باوزن اشعار اپلوڈ کریں، یا پھر جو "اصل شعراءِ کرام" ہیں ان کے اشعار استعمال کریں۔ اور اگر آپ کو اس موضوع(بحرو وزن،مراد علمِ عروض) کے تعلق سے کوئی پریشانی آئے تو یہ عاجز آپ کی مدد کرنے کے لیے بصد خوشی تیار ہے۔
بس اس میسج کا جانا تھا،پھر میں رہا، اور پیج ایڈمن کے تیور رہے۔ مجھ سے کچھ دیر تو بحث کی، کہ یہ میرا شوق ہے، آپ کو زیادہ اردو آتی ہوگی،لیکن میں نے پیج لائک کمانے کے لیے نہیں بنایا،اپنی تسلی کے لیے بنایا ہے وغیرہ۔۔۔
میں نے انہیں سمجھایا کہ بھائی میرے، مجھے تمہارے پیج پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے، آپ ضرور اپنا شوق پورا کریں، لیکن آپ اگر شاعری کے نام پر شاعری کو بدنام کریں گے تو بقول عزیزم مزمل اختر
"اہلِ ذوق حضرات کو تکلیف ہوگی"
بہرحال، میں نے انہیں دقتوں سے سمجھایا کہ مجھے شاعری پر نہیں، بے وزن شاعری پر اعتراض ہے۔ اور بحر و وزن کے تعلق سے میں آپکی مدد کے لیے حاضر ہوں۔
میں نے معافی مانگی، اور پھر ان سے کوئی رابطہ اور ان کے کسی "شعر" پر اعتراض نہیں کیا، کہ کیا خبر کس بات پر برانگیختہ ہوجائیں۔
مجھے کیا خبر تھی کہ آگ سلگ اٹھی تھی۔ محترم کے تیور دیکھتے ہوئے میری گفتگو کی نرمی گویا اشک آلودہ ہوگئی تھی۔ اور یہ تو ظاہر ہے
جو آگ لگائی تھی تم نے، اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے، اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
انہوں نے عشقِ حقیقی پر منحصر اس پوسٹ پر جو میں نے پیج پر کی تھی، بڑے تند لہجے میں ان اشعار پر(جو اوپر بھی گزرچکے) سوالات و اعتراضات کی بوچھار کی۔
عشق کی آتش کا جب شعلہ اٹھا
ماسوا معشوق سب کچھ جل گیا
تیغِ لا سے قتلِ غیرِ حق ہوا
پھر بتاؤ بعد اس کے کیا بچا؟
پھر بچا اللہ باقی سب فنا
مرحبا اے عشق تجھ کو مرحبا
ان کی اردو ماشاء اللہ تھی۔ بلکہ الحمد للہ تھی۔ لیکن ان سے جو مکالمہ اس عاجز کا ہوا، وہی آپ کو بتائے گا کہ زبان دانی، اور سخن فہمی، دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ملاحظہ ہو
ایک دلچسپ مکالمہ
وہ:
تیغِ لا سے قتلِ غیرِ حق ہوا
Can you explain this line, I am waiting for your reply.
(کیا آپ اس سطر کو سمجھا سکتے ہیں، میں آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں)
میں:
( مجھے اس وقت یہ خبر نہیں تھی کہ یہ وہی بندہ ہے)
لا سے مراد جزوِ اوّل کلمہ کا ہے، اور کلمہ بلاشبہ حق کی بنیاد ہے۔ چنانچہ جب حق آئے گا تو غیرِ حق مٹ جائے گا جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ۔۔۔(سورہ ۱۷بنی اسرائیل: ۸۱)
چنانچہ تیغِ لا=لا کی تلوار سے غیرِ حق کا قتل ہوجاتا ہے۔
وہ:
آہم۔ آپ کی Explanation سے پتہ چلا کہ کیوں مسلمان اتنا خون خرابہ کرتے ہیں، ان کا تو کلمہ ہی تلوار سے شروع ہوتا ہے۔
اگر کلمہ کی ابتدا ہی تلوار کے ساتھ ہے تو مسلمانوں نے دنیا میں Terrorism(دہشت گردی) پھیلا رکھا ہے، پھر تو ٹھیک ہے،according to your explanation(آپ کے کہنے کے مطابق)
اور اسلام تو قتل و غارت کا مذہب ہے نا! اس طرح کہ اس میں داخل ہونا ہی تلوار کے ساتھ ہے۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔ Could you explain this?(کیا آپ اسے واضح کر سکتے ہیں؟)
ابھی تو آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ عاشق و معشوق میں حق کون ہے؟ ذرا پہلے آپ لا کی تلوار کو تو Explain کرلیں۔
میں:
لا کی تلواربطور استعارہ کے آئے ہیں، نہ کہ حقیقی مراد ہیں۔
آپ یا تو اردو سے نابلد ہیں یا پھر آپکے عقیدے میں کوئی بات غلط ہے۔ بہرحال، سخن فہمی اور زبان دانی بالکل الگ چیزیں ہیں۔
اگر آپکے مزید اشکال عقیدے یا زبان کے تعلق سے ہوں تو ایڈمن سے رابطہ کریں۔۔۔
شکریہ!
اس کے بعد عالیجناب کا کوئی پیغام نہیں آیا!
نوٹ: چونکہ یہ پہلے ہی کہ چکا ہوں، کہ کتاب کو حوالہ جاتی کتاب نہ بناتے ہوئے میں نے عوامی سطح پر یہ کتاب لکھی ہے، تاکہ وہ سیدھی سادھی عوام جو اردو سے واقف ہے، اور اردو شاعری سے نابلد…(غالباً اب آپ جان چکے ہوں گے کہ شاعری سے مراد صرف باوزن شاعری ہے، بغیر وزن کے اشعار کو شاعری نہیں کہتے)انہیں شاعری کا شعور آجائے۔ چنانچہ کتاب میں صرف کثیر الاستعمال بحریں شامل کی ہیں۔ شاذ بحروں کو اور قلیل الاستعمال بحروں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ارکانِ عروض کل آٹھ ہیں۔
1۔ فعولن
2۔ فاعلاتُن
3۔ فاعلن
4۔ مستفعلن
5۔ مفاعیلن
6۔ مفاعلتن
7۔ مفعولات
8۔ متفاعلن
ارکانِ عروض کی ترتیب اس عاجز نے جو رکھی ہے، وہ اس لیے کہ یہ یاد رکھنے کے لیے آسان اور مندرجہ قطعہ کے مطابق ہے۔
اس قطعہ کے یاد کرنے سے آپ کا ان ارکان کو یاد رکھنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اور اگر قطعہ یاد نہ بھی ہو، تو اصل تو ارکان کا یاد کرنا ہے۔
ان تمام ارکان کے استعمال سے مختلف اوزان بنتے ہیں۔یہ عاجز کوشش کرے گا کہ آپ کو اُن کے نام کو یاد کرنے پر زور دینے کی بجائے صرف وزن پہچاننا آسان ہوجائے۔عروض کی کتبِ سابقہ میں اُن کے نام بڑے بھاری بھرکم اور عوام الناس کے لیےبوریت کا باعث ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو کتبِ سابقہ کی طرز پر پہلے نام گنوانے کی بجائے پہلے اصل بحر بتائی جائے، بعد میں اس بحر کی خصوصیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے انشاءاللہ اُن کے نام بھی بتائے جائیں گے۔
مندرجہ بالا ارکانِ عروض کی لسٹ جو آپ نے یاد کی ہے(نہ کی ہو تو یاد کرلیجیے) اسی فہرست کے مطابق ہم بحروں کو دیکھیں گے۔
×××
یہیں تک لکھا تھا، اب کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اللہ تمام احباب کو ہدایت عطا فرمائے، اور اجر عظیم سے مالا مال فرمائے۔ زبانی تو اب بھی کوشش جاری ہے اصلاح کی، البتہ اب اس موضوع پر لکھنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ محفل کا ادبی معیار دیکھ کے کبھی کبھی آنکھ میں پانی آجاتا ہے، اور بے انتہاء دعائیں نکلتی ہیں کہ پیارے اللہ، میں نے تو کچھ لوگ مانگے تھے جنہیں وزن کی شد بد ہو، یہاں تو آپ نے اساتذہ سے ملا دیا۔
اللہ حامی و ناصر ہو۔
شکیب احمد