فرخ منظور
لائبریرین
”فنکاروں“ کی ناقدری کا نتیجہ!....روزن دیوار سے …عطاہء الحق قاسمی
1/15/2009
ہم لوگوں کو”ناشکری“ کی سزا تو ملنا ہی تھی، بھلے وقتوں میں چور ہوا کرتے تھے ہم نے ان کی قدر نہیں کی، چنانچہ وہ معاشرے سے غائب ہوگئے۔ اب ایک طویل عرصے سے ڈاکو سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں وہ جس گھر میں داخل ہونا چاہئیں کھلے بندوں داخل ہوجاتے ہیں ،کسی بھی پرہجوم سڑک پر کسی کو لوٹنا چاہئیں اسے پستول دکھا کر لوٹ لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا ان کی جگہ چور ہوا کرتے تھے۔ وہ بے چارے دبے پاؤں گھر میں داخل ہوتے سہمے سہمے سے، ڈرے ڈرے سے مودب اتنے کہ چوری آدھی رات کے بعد کرتے تاکہ اہل خانہ کے معمولات ڈسڑب نہ ہوں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ معمولی سا کھڑاک بھی نہ ہونے پائے تاکہ کسی کی نیند میں کوئی خلل بھی نہ پڑے ،اگر کبھی غلطی سے ایسا ہوجاتا تو درد دل رکھنے والا چور فوراً منہ سے بلی کی آواز نکالتا تاکہ اہل خانہ مطمئن ہوکر سوئے رہیں اور یوں ان کے دلوں میں کوئی خوف بھی نہ جاگے۔ چور جب کسی گھر میں داخل ہوتے توان کے تن پر صرف لنگوٹی ہوتی اور جسم پر انہوں نے تیل ملا ہوتا تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس درجہ امن پسند لوگ تھے۔ وہ یہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ اہل خانہ سے ان کا آمنا سامنا ہو اور یوں کسی بدمزگی کا امکان پیدا ہو، چنانچہ اس پرامن ماحول میں وہ اپنا کام کرتے صبح جب گھر والے جاگتے تو ان میں سے کسی کو پتہ چلتا کہ اس کے کوٹ کی جیب میں سے بارہ روپے غائب ہیں۔ ایک گھڑی جو مبلغ نوے روپے میں خریدی گئی تھی وہ نہیں مل رہی، صحن کے نکلے کی ٹونٹی غائب ہے بلکہ اس کے پاس دھری بالٹی اور ڈونگا بھی نظر نہیں آرہے۔ صاحب خانہ کی دھوتی بھی جو کہیں سوتے میں اتر گئی تھی موصوف ساتھ لے گئے ہیں، ہاں اگر کسی غیر محتاط صاحب خانہ نے زیور یا نقدی سر عام رکھی ہوئی تھی تو یہ اس کی قسمت!
اس دور میں چوروں کی طرح ایک بے ضرو مخلوق اور بھی ہوا کرتی تھی جنہیں جیب کترے کہا جاتا تھا۔ یہ صاحب فن لوگ تھے۔ اتنی مہارت سے جیب کاٹتے کہ آج کی ایلیٹ کلاس کے جیب تراش جو گزشتہ برس ہا برس سے قوم کی جیب کاٹ رہے ہیں ان کے سامنے طفل مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ ماڈرن جیب تراشوں کی ہر واردات اور ان کے ہر طریق واردات سے قوم واقف ہے ۔ بس اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،جبکہ ہمارے دور کے” عوامی جیب تراش“ اپنی دو انگلیاں اپنے ہدف کی جیب میں ڈالتے تھے اور جو کچھ اندر ہوتا تھا وہ ایک ماہر سرجن کی طرح باہر نکال لیتے تھے۔ انہیں بعض اوقات بلیڈ بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ مجال ہے اس عمل کے دوران ان کے” محسن “کو کوئی ٹک لگے یا جیب کے علاوہ اس کے ملبوس کا کوئی دوسرا حصہ بلیڈ کی زد میں آکر خراب ہو۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنے نازک آپریشن کے باوجود ان کے ہاتھ کبھی تیس بتیس روپے لگتے اور کبھی بجلی کا بل ہاتھ آتا اور اگر وہ غلطی سے کسی شاعر کی جیب پر ہاتھ ڈال بیٹھتے تھے تو اندر سے چند تصویر بتاں اورچند حسینوں کے خطوط کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا تھا ۔ اس طبقے کے افراد خلاقیات کے بھی بہت پابند تھے۔مجھے یاد ہے جب میری شادی ہوئی اور بارات اپنی”منزل مقصود “پر پہنچی تو میرے بھانجے نے دیکھا کہ ان کے محلے کا ایک جیب تراش بھی باراتی کے روپ میں مہمانوں کے درمیان موجود ہے۔ میرا بھانجا اس کے پاس گیا اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا”یار یہ میرے ماموں کی بارات ہے“۔اس پر اس نے نہایت ندامت سے”سوری“کہا اور چپکے سے مہمانوں کے ہجوم میں سے نکل گیا۔ اب ایسے وضعدار لوگ کہاں ،چنانچہ چور اور جیب تراش اپنے فن کی ناقدری کی وجہ سے ڈاکو بنتے چلے جارہے ہیں جبکہ ڈکیتی کے پیشے کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہے ۔نہ یہ کوئی فن ہے اور نہ یہ کسی بہادر آدمی کا کام ہے کہ اسلحہ کے زور پر نہتے بچوں عورتوں اور بڑوں کو یرغمال بنا کر گھر لوٹنا شروع کردے اور اگر کسی یرغمالی پر مزاحمت کا شک بھی گزرے تو اسے گولیوں سے بھون دیا جائے۔ یہ تو بزدلوں اور بے ہنروں کا رویہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ چوروں اور جیب تراشوں کے علاوہ ہمارے معاشرے میں نوسر باز بھی ہوتے تھے۔ یہ عموما نوٹ دگنے کرنے کا ڈرامہ رچاتے تھے اور اس چکر میں جو ہاتھ لگتا تھا وہ لے کر رفو چکرہوجاتے تھے۔ یہ”پیشہ”بہت تخلیقی نوعیت کا تھا۔ نوسر باز اتنی ذہانت سے اپنی واردات کا تانابانا بنتے کہ اچھے خاصے معقول اور پڑھے لکھے لوگ ان کی باتوں میں آکر اپنی جیب خالی کرابیٹھتے تھے ،بعد میں ان نوسر بازوں کی جگہ فنانس کمپنیوں کے ڈائریکٹرز نے لے لی،اگر چہ اب ”جینوئن“قسم کے نوسر باز بھی”ناقدری زمانہ“ کی وجہ سے مایوس ہورہے ہیں ،تاہم پھر بھی اس نسل کے کچھ ”دانے“ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مسافروں سے بھری چلتی بس میں ایک نورانی صورت کے بزرگ اپنی نشست سے اٹھے اور مسافروں کو مخاطب کرکے کہا”میں اپنی زندگی کے دن پورے کر چکا ہوں مجھے کینسر کا مرض لاحق ہے اور ڈاکٹر وں نے بتایا ہے کہ میں ایک ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہوں گا ، میرے ساتھ میری جوان بیٹی ہے مجھے نہیں لگتا میں اپنی زندگی میں اس کے ہاتھ پیلے کرسکوں گا، چنانچہ آپ میں سے اگر کوئی نیک دل مسافر میری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ دے تو میں سکون سے مرسکوں گا!“یہ درد انگیز تقریر سن کر ایک نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے کہا”بابا جی! میں آپ کی بیٹی کے ساتھ شادی کروں گا آپ اس کا بوجھ اپنے ذہن سے اتا ر دیں“۔اس پر مسافروں نے تالیاں بجا کر اس نوجوان کے جذبے کی داد دی ،اس دوران ایک مولوی صاحب جو یہ سب کچھ کافی دیر سے دیکھ رہے تھے حاضرین بس کو مخاطب کرکے بولے ”میرے خیال میں اس نیک کام میں اب دیر نہیں کرنا چاہئے ،اگر یہ نوجوان اور لڑکی کے والد اجازت دیں تو نکاح کی رسم ابھی ادا کردی جائے تاکہ سب حاضرین بھی اس نیک کام میں شریک ہوسکیں“۔ مولوی صاحب کی اس تجویز کو پسند کیا گیا، چنانچہ مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا اور ہر طرف سے مبارک مبارک کی آوازیں آنے لگیں۔ رستے میں ایک جگہ جب چائے وغیرہ کے لئے بس رکی تو ایک مسافر دوڑ کر مٹھائی کا ڈبہ لے آیا اور بس چلنے پر تمام مسافروں کا منہ میٹھا کرایا۔ آخر میں ڈرائیور کو بھی مٹھائی کھلائی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مسافر بمعہ ڈرائیور بے ہوش پڑے تھے اور نوسر بازان کی نقدی اور قیمتی سامان سمیٹنے میں مشغول تھے۔
یہ تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ نورانی صورت والے بزرگ ،نکاح کی پیشکش کرنے والا نوجوان ، نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب اور مٹھائی لانے والا مسافر یہ سب کے سب نوسر بازتھے لیکن کیا تخلیقی ذہن پایا تھا ان نوسر بازوں نے ان کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس بیچنے کے لئے کیا ہے؟ان سے پستول چھین لو تو ان کا سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کا شعبہ بھی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ اس میں کند ذہن ، بزدل اور سفاک لوگ ڈاکوؤں کی صورت میں داخل ہوگئے ہیں ان کی جگہ جیب تراشوں اور نوسر بازوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے، مگر یہ کام حکومتی سرپرستی کے بغیرممکن نہیں۔ اس وقت ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، چنانچہ اسے چاہئے کہ وہ ڈاکوؤں کی سرپرستی کی بجائے ان ”فنکاروں“کے سر پر ہاتھ رکھے، جن کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے کہ ان کی حفاظت اسی طرح ضروری ہے جس طرح جنگلی حیات کی حفاظت ضروری سمجھی جاتی ہے۔
1/15/2009
ہم لوگوں کو”ناشکری“ کی سزا تو ملنا ہی تھی، بھلے وقتوں میں چور ہوا کرتے تھے ہم نے ان کی قدر نہیں کی، چنانچہ وہ معاشرے سے غائب ہوگئے۔ اب ایک طویل عرصے سے ڈاکو سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں وہ جس گھر میں داخل ہونا چاہئیں کھلے بندوں داخل ہوجاتے ہیں ،کسی بھی پرہجوم سڑک پر کسی کو لوٹنا چاہئیں اسے پستول دکھا کر لوٹ لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا ان کی جگہ چور ہوا کرتے تھے۔ وہ بے چارے دبے پاؤں گھر میں داخل ہوتے سہمے سہمے سے، ڈرے ڈرے سے مودب اتنے کہ چوری آدھی رات کے بعد کرتے تاکہ اہل خانہ کے معمولات ڈسڑب نہ ہوں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ معمولی سا کھڑاک بھی نہ ہونے پائے تاکہ کسی کی نیند میں کوئی خلل بھی نہ پڑے ،اگر کبھی غلطی سے ایسا ہوجاتا تو درد دل رکھنے والا چور فوراً منہ سے بلی کی آواز نکالتا تاکہ اہل خانہ مطمئن ہوکر سوئے رہیں اور یوں ان کے دلوں میں کوئی خوف بھی نہ جاگے۔ چور جب کسی گھر میں داخل ہوتے توان کے تن پر صرف لنگوٹی ہوتی اور جسم پر انہوں نے تیل ملا ہوتا تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس درجہ امن پسند لوگ تھے۔ وہ یہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ اہل خانہ سے ان کا آمنا سامنا ہو اور یوں کسی بدمزگی کا امکان پیدا ہو، چنانچہ اس پرامن ماحول میں وہ اپنا کام کرتے صبح جب گھر والے جاگتے تو ان میں سے کسی کو پتہ چلتا کہ اس کے کوٹ کی جیب میں سے بارہ روپے غائب ہیں۔ ایک گھڑی جو مبلغ نوے روپے میں خریدی گئی تھی وہ نہیں مل رہی، صحن کے نکلے کی ٹونٹی غائب ہے بلکہ اس کے پاس دھری بالٹی اور ڈونگا بھی نظر نہیں آرہے۔ صاحب خانہ کی دھوتی بھی جو کہیں سوتے میں اتر گئی تھی موصوف ساتھ لے گئے ہیں، ہاں اگر کسی غیر محتاط صاحب خانہ نے زیور یا نقدی سر عام رکھی ہوئی تھی تو یہ اس کی قسمت!
اس دور میں چوروں کی طرح ایک بے ضرو مخلوق اور بھی ہوا کرتی تھی جنہیں جیب کترے کہا جاتا تھا۔ یہ صاحب فن لوگ تھے۔ اتنی مہارت سے جیب کاٹتے کہ آج کی ایلیٹ کلاس کے جیب تراش جو گزشتہ برس ہا برس سے قوم کی جیب کاٹ رہے ہیں ان کے سامنے طفل مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ ماڈرن جیب تراشوں کی ہر واردات اور ان کے ہر طریق واردات سے قوم واقف ہے ۔ بس اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،جبکہ ہمارے دور کے” عوامی جیب تراش“ اپنی دو انگلیاں اپنے ہدف کی جیب میں ڈالتے تھے اور جو کچھ اندر ہوتا تھا وہ ایک ماہر سرجن کی طرح باہر نکال لیتے تھے۔ انہیں بعض اوقات بلیڈ بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ مجال ہے اس عمل کے دوران ان کے” محسن “کو کوئی ٹک لگے یا جیب کے علاوہ اس کے ملبوس کا کوئی دوسرا حصہ بلیڈ کی زد میں آکر خراب ہو۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنے نازک آپریشن کے باوجود ان کے ہاتھ کبھی تیس بتیس روپے لگتے اور کبھی بجلی کا بل ہاتھ آتا اور اگر وہ غلطی سے کسی شاعر کی جیب پر ہاتھ ڈال بیٹھتے تھے تو اندر سے چند تصویر بتاں اورچند حسینوں کے خطوط کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا تھا ۔ اس طبقے کے افراد خلاقیات کے بھی بہت پابند تھے۔مجھے یاد ہے جب میری شادی ہوئی اور بارات اپنی”منزل مقصود “پر پہنچی تو میرے بھانجے نے دیکھا کہ ان کے محلے کا ایک جیب تراش بھی باراتی کے روپ میں مہمانوں کے درمیان موجود ہے۔ میرا بھانجا اس کے پاس گیا اور آہستہ سے اس کے کان میں کہا”یار یہ میرے ماموں کی بارات ہے“۔اس پر اس نے نہایت ندامت سے”سوری“کہا اور چپکے سے مہمانوں کے ہجوم میں سے نکل گیا۔ اب ایسے وضعدار لوگ کہاں ،چنانچہ چور اور جیب تراش اپنے فن کی ناقدری کی وجہ سے ڈاکو بنتے چلے جارہے ہیں جبکہ ڈکیتی کے پیشے کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہے ۔نہ یہ کوئی فن ہے اور نہ یہ کسی بہادر آدمی کا کام ہے کہ اسلحہ کے زور پر نہتے بچوں عورتوں اور بڑوں کو یرغمال بنا کر گھر لوٹنا شروع کردے اور اگر کسی یرغمالی پر مزاحمت کا شک بھی گزرے تو اسے گولیوں سے بھون دیا جائے۔ یہ تو بزدلوں اور بے ہنروں کا رویہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ چوروں اور جیب تراشوں کے علاوہ ہمارے معاشرے میں نوسر باز بھی ہوتے تھے۔ یہ عموما نوٹ دگنے کرنے کا ڈرامہ رچاتے تھے اور اس چکر میں جو ہاتھ لگتا تھا وہ لے کر رفو چکرہوجاتے تھے۔ یہ”پیشہ”بہت تخلیقی نوعیت کا تھا۔ نوسر باز اتنی ذہانت سے اپنی واردات کا تانابانا بنتے کہ اچھے خاصے معقول اور پڑھے لکھے لوگ ان کی باتوں میں آکر اپنی جیب خالی کرابیٹھتے تھے ،بعد میں ان نوسر بازوں کی جگہ فنانس کمپنیوں کے ڈائریکٹرز نے لے لی،اگر چہ اب ”جینوئن“قسم کے نوسر باز بھی”ناقدری زمانہ“ کی وجہ سے مایوس ہورہے ہیں ،تاہم پھر بھی اس نسل کے کچھ ”دانے“ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک مسافروں سے بھری چلتی بس میں ایک نورانی صورت کے بزرگ اپنی نشست سے اٹھے اور مسافروں کو مخاطب کرکے کہا”میں اپنی زندگی کے دن پورے کر چکا ہوں مجھے کینسر کا مرض لاحق ہے اور ڈاکٹر وں نے بتایا ہے کہ میں ایک ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہوں گا ، میرے ساتھ میری جوان بیٹی ہے مجھے نہیں لگتا میں اپنی زندگی میں اس کے ہاتھ پیلے کرسکوں گا، چنانچہ آپ میں سے اگر کوئی نیک دل مسافر میری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ دے تو میں سکون سے مرسکوں گا!“یہ درد انگیز تقریر سن کر ایک نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے کہا”بابا جی! میں آپ کی بیٹی کے ساتھ شادی کروں گا آپ اس کا بوجھ اپنے ذہن سے اتا ر دیں“۔اس پر مسافروں نے تالیاں بجا کر اس نوجوان کے جذبے کی داد دی ،اس دوران ایک مولوی صاحب جو یہ سب کچھ کافی دیر سے دیکھ رہے تھے حاضرین بس کو مخاطب کرکے بولے ”میرے خیال میں اس نیک کام میں اب دیر نہیں کرنا چاہئے ،اگر یہ نوجوان اور لڑکی کے والد اجازت دیں تو نکاح کی رسم ابھی ادا کردی جائے تاکہ سب حاضرین بھی اس نیک کام میں شریک ہوسکیں“۔ مولوی صاحب کی اس تجویز کو پسند کیا گیا، چنانچہ مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا اور ہر طرف سے مبارک مبارک کی آوازیں آنے لگیں۔ رستے میں ایک جگہ جب چائے وغیرہ کے لئے بس رکی تو ایک مسافر دوڑ کر مٹھائی کا ڈبہ لے آیا اور بس چلنے پر تمام مسافروں کا منہ میٹھا کرایا۔ آخر میں ڈرائیور کو بھی مٹھائی کھلائی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام مسافر بمعہ ڈرائیور بے ہوش پڑے تھے اور نوسر بازان کی نقدی اور قیمتی سامان سمیٹنے میں مشغول تھے۔
یہ تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہوگا کہ نورانی صورت والے بزرگ ،نکاح کی پیشکش کرنے والا نوجوان ، نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب اور مٹھائی لانے والا مسافر یہ سب کے سب نوسر بازتھے لیکن کیا تخلیقی ذہن پایا تھا ان نوسر بازوں نے ان کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس بیچنے کے لئے کیا ہے؟ان سے پستول چھین لو تو ان کا سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کا شعبہ بھی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ اس میں کند ذہن ، بزدل اور سفاک لوگ ڈاکوؤں کی صورت میں داخل ہوگئے ہیں ان کی جگہ جیب تراشوں اور نوسر بازوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے، مگر یہ کام حکومتی سرپرستی کے بغیرممکن نہیں۔ اس وقت ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، چنانچہ اسے چاہئے کہ وہ ڈاکوؤں کی سرپرستی کی بجائے ان ”فنکاروں“کے سر پر ہاتھ رکھے، جن کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے کہ ان کی حفاظت اسی طرح ضروری ہے جس طرح جنگلی حیات کی حفاظت ضروری سمجھی جاتی ہے۔