محمد خرم یاسین
محفلین
پروفیسر ڈاکٹر ارشد اویسی صاحب کی ریٹائرمنٹ پر جامعہ نے "ارمغانِ اویسی" کی اشاعت کا اہتمام کیا اور اس میں فقیر کی اس تحریر کوبھی جگہ عنایت کی۔
”مرشد اویسی “
حضرت سے پہلی ملاقات کا احوال مجھے اب تک ازبر ہے لیکن یقین کیجیے جوانھیں ایک بھی لفظ یاد ہو اس ملاقات کا۔ اس میں قصور ان کی یاد داشت کا نہیں، پروفیسر ہونے کا نکلے گا۔ حضرت گو کہ سچ مچ کے پروفیسر ہیں لیکن یہاں میری مراداس پروفیسر ی سے نہیں جو کام کی ”اوور لوڈنگ“ کی وجہ سے غائب دماغی کی جانب کھینچتی ہے بلکہ اس پروفیسری سے ہے جو طلباکے لیے خلوص و محبت اور ان کے مستقبل کے سورج کو ڈوب جانے سے بچانے کی تگ و دو کی صورت میں واقع ہوتی ہے۔اس دن بھی حضرت کے اس میز کے گرد ایم فل ، پی ایچ ڈی سکالرز کا جمگٹھا لگا ہو ا تھا جہاں سے ہمیشہ فیضِ علم کے چشمے جاری ہوتے رہے ہیں۔ میں ان کے نام سے واقف جب کہ چہرے سے نا شناسا تھا کہ ایک طالب علم کی مدد سے ان کی شناخت ممکن ہوئی اور ان کی شخصیت سے مرعوب ڈرا سہما سا ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میری قسمت کہ وہ کلاس چند منٹوں کے بعد ہی ختم ہوگئی اور انھوں نے آنکھوں سےجھلکتی فطانت اور چہرے پہ سجی مطانت میں اپنی مخصوص مسکراہٹ کو ضم کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا: ”مرشد اویسی “
”برخوردار کیسے آنا ہوا ؟“
میں نے عرض کیا کہ ایم فل میں تدوین میں پھنس بیٹھا ہوں ؛ اب تدوین ہوتی ہے نہ تسکین۔ یہ سرا بھی ہاتھ نہیں آرہا کہ اس کی روایت کا ٹانکا کہاں جوڑا جائے مزید یہ کہ اس کے مراحل و طریق کے بارے بھی رہنمائی کی کمی کا سامنا ہے ۔اسی حوالے سے کچھ رہنمائی درکار ہے۔ حضرت نے جلدی سے عینک کے شیشے صاف کر کے دوبارہ سے عینک لگائی اورمیری جانب متوجہ ہو کر بولے :
” یار ادھر لائبریری جاو اور فلاں فلاں کتب پڑھ لو ، تدوین اور تسکین دونوں کے مراحل آسان ہو جائیں گے، اور اگر کوئی روکے تو میرا نام لے لینا“۔ میں اٹھنے والا تھا کہ میری آسانی کے لیے ایک رقعہ نما چھٹی میرے ہاتھ میں تھما تے ہوئے بولے:
” بلکہ رکو! یہ لو یہ پرچی لائبریرین کو دے دینا۔“
میں سراپا تشکر بنا بڑی لجاجت کے ساتھ اٹھا ، سلام کیا اور اور تیز تیز قدموں سے لائبریری کی جانب بڑھ گیا کہ تحقیق کے زنداں میں ایک جنتی کھڑکی کھل گئی تھی۔اسی دن سے میں نے جناب ”ارشد اویسی “کو ”مرشد اویسی“ کہنا شروع کر دیا کہ یہ گو نام میں ”ارشد“ ہیں لیکن کام میں ”رشد و رشید“ اور احوال میں ”مرشد“ ہی ہیں۔البتہ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ جناب باقاعدہ رجسٹرڈ”مرشد“ یعنی ایک بڑے سلسلہ طریقت کے گدی نشین بھی ہیں۔یہاں میں یہ بتانا ہرگز نہیں بھولوں گا کہ اس وقت میں نہ تو گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد کا طالب علم تھا اور نہ ہی اس کے شعبہ اردو سے میرا کوئی سابقہ رہا تھا۔
حضرت سے باقاعدہ ملاقاتوں کے سلسلے کو طول دینے کے لیے جو لمحہ درکار تھا اسے بھی اسی جامعہ نے مہیا کیا جو کہ مستقبل قریب میں میری مادرِ علمی بننے والی تھی۔حضرت پی ایچ ڈی کے کوآرڈی نیٹر کی نسبت سے بڑے طمطراق سے اس امتحانی کمرے میں داخل ہوئے جہاں میں اور مجھ ایسے کتنے ہی ”بیچارے“پی ایچ ڈی کے داخلہ ٹیسٹ کے لیے ”یہ منھ اور مسورکی دال“ کی مثال بنے بیٹھے تھے۔حضرت کے جلو میں امتحان لینے والوں اور کچھ دیگراحباب کا جلوس رواں تھا اوران کے چہرے پر وہی مسکراہٹ سجی تھی جو شاید قسامِ ازل نے ان کی شخصیت کالازمہ بنا دی تھی۔میں نے بڑھ کر ادب سے سلام کیا اور دوبارہ نشست پربیٹھ گیا۔یہ بھی کچھ دیر بعد خراماں خراماں وہاں سے روانہ ہوگئے۔تیسری ملاقات انٹرویو کے لیے حاضری کے وقت ہوئی۔پیرو مرشد، جنابِ ڈاکٹرمحمدآصف اعوان اور جناب شبیر قادری صاحب کی معیت میں کمرے میں موجود تھے۔میں تو پہلے ہی اپنی کم علمی کے حوالے سے زیادہ ساری کم مائیگی کا شکار تھا اوپر سے فیصل آبا د کو علم و ادب کی کیاری سے پھلواری بنانے والوں میں سے تین ادبی بزرگ ممتحن بنے سامنے موجود تھے۔اب بھی غور کرتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ بھلا میں کہاں اور یہ ”واقعی امتحان“ کہاں۔بہر حال جب حضرت نے سوالات کا آغاز کیا تو وہاں سے کیا جہاں میں آج تک بھی پہنچ نہیں پایاہوں۔میری مراد ہے ”پنجاب آرکائیو“لاہور کا دفتراور”پنجاب اسمبلی“۔قسم لے لیجیے جو میرے بزرگوں میں سے بھی کسی نے ان دونوں جگہوں پر جھانکنے کی کوشش کی ہو۔
داخلے کے بعد حضرت اپنے سارے چھینی ہتھوڑوں سمیت جن میں زیادہ اہم اردو تحقیق کے ارکانِ خمسہ اور مدونین کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری اردو ا و ر انگلش کی کتابیں شامل تھیں، چل پڑے ہم غیر محققین میں سے محققین تراشنے ۔ہم (یعنی کہ میں اور میرے دوست امجد صاحب) بھی پکے ڈھیٹ تھے ، مجال تھی جو اتنی آسانی سے قابو میں آجاتے (البتہ کلاس کے باقی تین احباب بھی اس حوالے سے کچھ کم نہ تھے)۔مرشد کی کلاس شروع ہوتی تو ہم کبھی کلاس پڑھنے کی شرط، چائے کے مطالبے کی صورت میں پیش کردیتے اور کبھی سموسے کے مطالبے کی صورت میں ۔کبھی ہم موضوع سے بھٹکانے کی کوشش کرتے اور کبھی موضوع کو بدلنے کی ۔حضرت ہماری یہ ساری شوخیاں، شرارتیں ہمارے خرچوں سمیت بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے لیکن مجال ہے جو تدریسی عمل میں ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی ہو۔یہیں تک نہیں ، ہر بار ہم کام چوروں کے لیے یہ مفت مشورہ بھی ان کے لیکچروں میں شامل ہوتا کہ پڑھنے کو جگہ یا وقت کا مسئلہ درپیش ہو تو ان کی رہائش گاہ حاضر ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح بگڑی اولاد کو ماں باپ کبھی کسی کے سامنے برا نہیں کہتے ، اسی طرح انھوں نے ہمیں کبھی ہماری حرکتوں پر ملامت نہیں کیا ،چہ جائیکہ کسی سے ہماری شکا یت کرتے۔ مجھے اکثر ان میں سرسید کا وہ روپ نظر آتا جو رات کے اندھیرے میں لالٹین تھامے، نیند آلود آنکھوں سے بنا سہارے سیڑھی پر چڑھے مغل عمارتوں کے نقش و نگار دیکھتے ہوئے صفحہ صفحہ ”آثار الصنادید“ تحریر کررہے ہوتے تھے۔
پیرو مرشد کا ہر لیکچر، لیکچر روم کا وہ ماحول جو کبھی ان کے میز کے گرد ہوتا ، کبھی کمرے میں اور کبھی ہال کمرے میں ۔۔۔ان کی پیار بھری ڈانٹ جس کے بعد تسلی کا ہاتھ سر یا کندھے پہ دھرا ہوتا۔۔۔ اسائنمنٹ جمع کرانے، پریذینٹیشن پیش کرنے اور امتحان سے گزر کر اپنے مقالے کے خاکے اور اس کی قبولیت تک کاہر لمحہ ان کی محبت، شفقت، محنت ، صداقت، سیادت ، شرافت، اور ہماری حماقت ہی حماقت کی ایک داستان ہے جسے دروغ بر گردنِ قاری” کوہ قاف کی کہانیاں“ کہا جائے توبھی کچھ غلط نہیں۔
یہ دنیائے فانی عارضی ہے اوراسی تناسب سے ہم سب ہی کا وجوداور ساتھ بھی عارضی ہے۔ وجودیت کے فلسفیوں کی لاکھ دلیلوںکے باوجود سب سے بڑی موجود حقیقت یہی ہے کہ ” کل میں علیھافان“۔اس لیے کوئی بھی اپنا پیارا خواہ عارضی طورپر بچھڑے یا مستقل ، اگر دل میں جگہ اور ذہن پر نقش بنا چکا ہو تو کبھی نہیں بچھڑتا۔پیرو مرشد کی ریٹائرمنٹ پر مجھے یہ تو یقین ہے کہ یہ مجھ سے کبھی نہ بچھڑیں گے، بس یہ احساس ضرور دامن گیر رہے گا کہ جب ان کی نشست کے سامنے پہنچا کروں گا تو کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا نہ ہوگا۔حضرت کی دینی ودنیاوی زندگی، تندرستی،عزت، وقار اوراور قدرو منزلت میں روز افزوں ترقی کی دعا کے ساتھ ۔
ایک نکما شاگرد